بات زیادہ پرانی نہیںہے۔ سنگرمال شاپنگ کمپلیکس کا افتتاح کرنا تھا۔ دو وزراء میں ٹھن گئی اور افتتاح میں مہینوں کی تاخیر ہوئی۔ حیرت ہوتی ہے جب حکومت کے بعض منصوبوں کی افادیت دیکھتے ہیں۔ جمہوریت میں فلاحی ریاست کا نظریہ دراصل یہ باور کرتا ہے کہ حکومت اگر کوئی تجارتی سرگرمی بھی کرے تو اُس میں فلاح عام ممکن ہوخاص طور پر سماج کے پسماندہ طبقے کو اُس منصوبے سے کوئی استفادہ بھی ہو۔مثال کے طور پر حکومت کا کواپریٹیو محکمہ کوئی دکان لگاتا ہے تو وہاں سستی اشیاء ملتی ہیں تاکہ غریب عوام کو راحت ہو۔ سنگرمال شاپنگ کمپلیکس تعمیر کرکے حکومت نے کام تو اچھا کیا تھا، لیکن ایک نجی بلڈر کی طرح اس کمپلیکس کی دُکانیں سرمایہ داروں اور دلالوں کوکروڑوں روپے کے عوض بیچ دی گئیں۔ جموں کشمیر غالباً واحد ریاست ہے جہاں سرکار عوامی خزانہ سے سرمایہ انویسٹ کرتی ہے اور بعد میں پرائیویٹ بلڈر کی طرح دُکانوں اور اثاثوں کی نیلامی ہوتی ہے۔
حالانکہ جس سطح پر حکومت کو کاروباری ذہنیت کا مظاہرہ کرنا ہو وہاں گھٹنے ٹیک دئے جاتے ہیں۔ این ایچ پی سی کشمیر کے آبی وسائل کو نوچ نوچ کر شمالی ہندوستان کو روشن کررہا ہے، لیکن حکومت 12فی صد رائیلٹی کا فرسودہ ایگریمنٹ مسترد کرکے نئی ڈیل تشکیل دینے سے قاصر ہے۔اُلٹا اب مقامی بجلی پروجیکٹوں کو ایک ایک کرکے خیر باد کہا جارہا ہے۔ محکمہ بجلی کو بھی اب پرائیوٹائز کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ شمالی ہند کو کشمیر کے پانیوں سے حاصل شدہ بجلی سستے داموں ملے گی، اور کشمیریوں کو اپنی ہی بجلی پرائیویٹ آپریٹروں کے ذریعہ کئی گنا زیادہ فیس کے عوض ملے گی۔
محکمہ تعلیم کا بھی یہی حال ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت سرکاری نظام تعلیم کو پرموٹ کرنے کے منصوبوں پر سوچ بچار کرتی، لیکن حکومت کے کارندے پروائیویٹ سکول مافیا کی خوشنودیوں میں مصروف ہے۔ کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ ہزاروں کروڑ روپے کے مصرف سے جو نظام فی الوقت فعال ہے، اس کے مقابلے میں پرائیویٹ سکولوں پر عنایات کی بارش کیوں؟ نئی دلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے اقتدار میں آتے ہی سابق وزیراعلیٰ کی طرف سے پرائیویٹ سکولوں کی فیس میں سالانہ 10فی صد اضافہ کا حکم نامہ مسترد کیا، پاکستان کی پنجاب حکومت نے پرائیویٹ سکولوں کی 2فی صد اضافہ کی عرضی کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ اس سب کے برعکس کشمیر میں ہائی کورٹ نے کئی بار سکولوں کی فیس میں ہوشربا اضافے پرتاکیدی فیصلے سنائے، حکومت نے سکولوں کی فیس طے کرنے کے لئے کمیٹی بھی تشکیل دی، لیکن پھر بھی پرائیویٹ سکول مافیا کی باتوں میں آرہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پرائیویٹ سکولوں کی ایسوسی ایشن سالانہ 6 فی صد کے اضافہ پر آمادہ ہے اور حکام نے اسے یقین دلایا ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ پرائیویٹ سکولوںمیں متوسط طبقے کے بچے پڑتے ہیں، ظاہر ہے اگر حکومت نے بنیادی فیس سٹرکچر طے کئے براہ راست 6فی صد اضافے کا لائسینس دیتی ہے، تو اندازہ کریں کہ پرائیویٹ سکول مجاذ ہونگے کہ وہ بنیادی فیس کتنی مقرر کریں۔
حکومت پہلے ہی پرائیویٹ ٹیوشن کو تسلیم کرکے بہت بڑے ناسور کو جنم دے چکی ہے۔ یہ غریب کش کام بھی کوچنگ مافیا کی خوشنودی کے لئے کیا گیا۔ کتنی حماقت کی بات ہے کہ نظام تعلیم کو بہتر بنانے کی بجائے پرائیویٹ سیکٹر میں غیر رسمی کوچنگ کو تسلیم کیا جاتا ہے، ایک لائسینس راج کو جنم دیا جاتا ہے، اور لوگوں پر احسان جتایا جاتا ہے کہ غیرقانونی کوچنگ سینٹر بند کئے گئے۔ گویا اب پرائیویٹ ٹیوشن باقاعدہ قانونی عمل ہے ، شرط صرف یہ ہے کہ آپ کو محکمہ کے اندر رجسٹر یشن کرنا ہے!
کشمیر میں چونکہ سیاست اور سیاسی عمل ہی متنازعہ ہے، لہذا لوگوں میں کبھی یہ شعور بیدار نہیں ہوا کہ وہ حکومت کے طرز عمل پر سوال اُٹھائے۔ اگر حکومت ایک ویلفیئر سٹیٹ ہے، تو پرائیویٹ کمپنی کی طرح کیوں عمل کررہی ہے؟
بشکریہ: ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر