انجینئر تعظیم کشمیری
اللہ تبارک و تعالیٰ قران کریم میں ارشاد فرماتے ہیں’’ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں ، اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا ،جسے محفوظ کرنے کیلئے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو‘‘ بلاشبہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور ان نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت قوت ِ گویائی ہے۔ انسانی جسم میں زبان کا ٹکڑا دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔ اگر انسان اس کا درست استعمال کرے اور اسے شریعت کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق استعمال میں لائے تو یہ عملی طور پر اس نعمت کی شگر گزاری ہے۔ اگر انسان نے اپنے الفاظ سے انسانوں کی دل آزاری کی اور شریعت کی بتائی ہوئی حدود میں اس زبان کا استعمال نہ کیا تو یہ زبان انسان کیلئے شرمندگی اور رسوائی کا سبب بنتی ہے۔ ابو سعید خدریؓ ایک حدیث روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو سارے اعضاء زبان کے سامنے عاجزی کے ساتھ التجا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈرِ ہم تجھ سے متعلق ہیں، اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے‘‘ (ترمذی: 2407)زبان یا تو انسان کیلئے باعثِ سعادت ہوتی ہے یا پھر اس کیلئے باعثِ مصیبت ہوتی ہے۔ اگر وہ اسے اللہ کی اطاعت میں لگا دے تو وہ اس کیلئے دنیا و آخرت کی سعادت بن جاتی ہے اور اگر اسے ایسے کام میں لگا دے، جس میں اللہ کی رضا نہ ہو تو وہ دنیا و آخرت میں اس کیلئے باعثِ حسرت بن جائے گی۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں زبان کے درست استعمال کی تلقین کی گئی ہے تاکہ انسان زبان کے غلط استعمال پر خدا کی پکڑ سے محفوظ رہےجنت کی ضمانت: حضرت سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: جو مجھ سے اپنی داڑھوں اور ٹانگوں کے بیچ کا ضامن ہو ،میں اس کیلئے جنت کا ضامن ہوں۔ (ترمذ ی، 2408)۔ اس حد یث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان سے زبان کی حفاظت کی ذمہ داری مانگی ہے اور اس کے بدلے اسے جنت کی بشارت دی ہے، صرف بشارت نہیں بلکہ جنت کی ضمانت دی ہے زبان پر قابو پانے کی تلقین: زبان کی حساسیت اور اس کے دیرپا اثرات کی بنا پر نبی کریمؐ بھی اپنے صحابہؓ کو زبان اپنے قابو میں رکھنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کے پوچھنے پر نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج اور جہاد کے متعلق تفصیلاً بتایا اور پھر آخر میں فرمایا: کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتلاؤں جس پر ان سب کا دارومدار ہے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسولؐ! تو آپؐ نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: اس کو روک کے رکھ۔ انہوں نے عرض کیا، ہم زبان کے ذریعے جو گفتگو کرتے ہیں کیا اس پر بھی ہماری گرفت ہو گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ گرانے والی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتی (گفتگو) کے سوا اور کیا ہے (ترمذی: 2616)۔ اس سے معلوم ہوتا کہ زبان کا غلط استعمال آدمی کی عبادات (نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد) وغیرہ کو برباد کر سکتا ہے اور جنت کے بجائے جہنم کا ایندھن بنا سکتا ہےالفاظ کی اہمیت:انسان کے منہ سے جو الفاظ بھی نکلتے ہیں وہ ہواؤں میں تحلیل نہیں ہو جاتے بلکہ ان کا اثر ہوتا ہے اور وہ خدا کے رجسٹر میں لکھے بھی جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کیلئے ایک نگران موجود نہ ہو‘‘ اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سُنا: ’’بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اس میں غور وفکر نہیں کرتا، لیکن اس کی وجہ سے وہ دوزخ میں اتنی دور جا گرتا ہے جتنا مغرب سے مشرق دور ہے‘‘ (مسلم:2988)۔ ایک دوسری روایت ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی بات زبان سے نکالتا ہے، اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اس کی وجہ سے اللہ اس کے کئی درجے بلند فرما دیتا ہے، اور ایک بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی والی بات کرتا ہے جس کی طرف اس کا دھیان بھی نہیں ہوتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں جا گرتا ہے( شعب الایمان: 4604)۔اسی لیے قرآن و حدیث میں زبان کی حفاظت کے سلسلے میں ان تمام باتوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جس سے دوسروں کی دل آزاری ہو اور انسان اللہ کی رحمت سے دور ہو جائے۔ مثلاً طعنے، طنز، گالم گلوچ، غیبت ،برے القاب، جھوٹی گواہی، جھوٹ، جھوٹی قسم، دوسروں کا مذاق اڑانا وغیرہ۔طعنے اور طنز کی ممانعت :لوگوں کو طعنے دینے والے کیلئے قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے کہ ’’تباہی ہے ہر اس شخص کیلئے جو لوگوں پر طعن اور پیٹھ پیچھے برائیاں کرنے کا خوگر ہے (الھمزہ: 1)۔ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن نبی کریمؐ سے حضرت صفیہؓ کے بارے میں کہا کہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیلئے صفیہؓ کا ایسا ایسا ہونا کافی ہے۔ بعض راویوں نے کہا کہ سیدہ عائشہؓ کی مراد یہ تھی کہ وہ پستہ قد ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تو نے ایسی بات کہی ہے کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو وہ اس کا ذائقہ بدل ڈالے۔ (ابو دائود:4875) گالی گلوچ کی ممانعت : زبان کی حفاظت کے سلسلے میں لوگوں کو گالیاں دینے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے(ابن ماجہ: 69)۔ اس حدیث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک مسلمان کی عزت کی حرمت بیان کی ہے اور اسے گالی دینے سے منع فرمایا ہے۔اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی زبان کو قابو میں رکھنے کی توفیق عطا فر مائے۔ آمین