قیصر محمود عراقی
عورت کیا ہے؟ کیاعورت وہ ہے جسے دنیا کے سامنے ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے یا اسے ذلیل کیا جائے، جس کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک کیا جائے، شاید دنیا والے عورت کی یہی تعریف کرتے ہیںمگر عورت تو وہ ہے جس کو کوئی بھی نہیں پڑھ پایا ۔ عورت تو ہمارے معاشرے کا وہ بلند ترین مقام ہے جس کو ہمارے نبی پاکؐ نے بہت اعلیٰ مقام دیا۔ مگر افسوس حوا کی جس بیٹی کو چودہ سو سال پہلے نبی پاکؐ نے رحمت قرار دیا تھا، آج اس کی زندگی میں رحمت کے بجائے عذاب اُتر رہے ہیں۔ اگرچہ ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیںمگر افسوس حوا کی بیٹی کے حقوق اسی طرح پامال ہیں جیسے آج سے کئی صدیاں قبل ہوا کرتے تھے۔ حوا کی یہ بیٹی آج بھی اپنے اس مقام سے مستفیدنہ ہوسکی، آج بھی معاشرے میں بیشتر خواتین فضول رسم ورواج کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، آج بھی حوا کی بیٹی اس معاشرے میں رہتی ہوئے بھی غیر محفوظ ہے۔ اس کو ہر چیز سے بہرہ ور نہیں رکھا جاتا ہے؟ کیوں اسے اپنی خواہشات کا اظہار کرنے کی وہ آزادی نہیں دی جاتی جس کی وہ حقدار ہے۔
یہ بڑا المیہ ہے کہ ہمارے معاشرے کو مردوں کا معاشرہ کہاجاتا ہے، جہاں ایک طرف ہمارا معاشرے جدید تعلیم کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے،وہیںان روایات کو توڑنے کا تصور بھی نہیں کرتا جو صدیوں پرانے مظالم کی عکاس ہیں۔ یہ عام سی بات ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر اظہارِ افسوس کیا جاتا ہے، یہ افسوس اس بچی کی عمر بڑھنےکے ساتھ ساتھ اُسے زندگی کے ہر مراحل پر یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ کمتر ہے۔ حوا کی بیٹی جب تعلیم کے زیور آراستہ ہونا چاہتی ہے تو کیوں اسے گھر کی چار دیواری کی زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور پھر اس پر بیجا پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ یہ خیالِ خام ہے کہ حوا کی یہ بیٹی بوجھ ہے، جسے پال پوس کر کسی دوسرے کے حوالے کرنا ہے۔ اگر یہ سرمایہ کاری بیٹے پر خرچ کی جائے کہ وہ مستقبل میں ہمارا سہارا بنے گا۔ ہر ضرورت پر بیٹوں کو بیٹیوں کی خواہشات پر ترجیح دی جاتی ہے۔، دوسری طرح وہ خواتین ہیں، جنہیں شاید ماں باپ کی طرف سے تو مطمئن زندگی ملی مگر شادی کے بعد سسرالی احباب اُن کی زندگی کو اجیرن بنادیتے ہیں، ایسے مرد صنف نازک پر اس طرح جسمانی تشدد کرتے ہیں کہ ان کے روح تک لرز جاتی ہے۔ خواتین کے مشکلات کا یہ سلسلہ کب مزید وقوع پزیر ہوتا ہے جب انہیں اپنی ضروریات اور اپنے بچوں کی روشن مستقبل کیلئے انہیں فاقہ کشی سے بچانے کیلئے گھر سے باہر نکل کر کام کرنا پڑتا ہے۔
عورت کسی بھی ملک کی ہو یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو، ہر زمانے میں وہ کھلونا بنتی چلی آرہی ہے۔ عورت کا مطلب ہے چھپی ہوئی مگر مرد ذات نے اسے ہر دور میں عریا ںکرنے کی کوشش کی۔ آج بھی اگر دیکھیں تو ہر طرف سے یہی تگ ودو جاری ہے کہ ہر طریقے اور ہر حربے سے عورت بازار پہونچا دی جاتی ہے۔ آزادی کے نام پر اسے سہنرے خواب دکھائے جاتے ہیں اور ان خوابوں کی تعبیر میں حوازادیوں کا استحصال میں ہوتا ہے، مدتوں تک یہی سوال حل نہ کیا جاسکا کہ آیا عورت انسان بھی ہے یا نہیں؟ کیونکہ کبھی عورت کو گناہ کی جڑ، کبھی مرد کے پائوں کی جوتی اور کبھی بازاروں میںفروخت ہونے والی جنس بے مایہ سمجھا گیا۔اسے ہر خطے میں مظلوم ، مجبور اور محروم رکھا گیا ، اسے کوئی سماجی ، معاشی اور سیاسی حقوق حاصل نہیں ہوئے۔ عورت کوآزادی مساوات اور ترقی کے نام پر دھوکہ دیکر اور ان خوشنما نعروں کی آڑ میں محبت اور حفاظت کے حصاروں سے دھکیل کر تنہائی کے عذابوں اور معاشی کے گردابوں میں مبتلا کیا جارہا ہے۔ آج بھی صدیوں سے حوا کی بیٹی روایتوں کے چکی میں پس رہی ہے، رسم ورواج کی زنجیروں سے بندھی اب بھی اپنی شناخت کی تلاش میں سر گردہ ہے ، عورت آج بھی مردوں کے معاشرے میں ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار ہے۔ گائوں دیہاتوں میں لڑکی کی پیدائش پر سوگ منایا جاتا ہے جبکہ مختلف علاقوں میں انہیں وراثت کے جائز حق سے محروم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مار پیٹ ، کہنا نہ ماننے پر قتل ، زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر تیزاب سے منہ جلادینا، جہیز نہ لانے پر ’’چولہوں کا پھٹنا‘‘،عبرت کے نام پر قتل ۔ ہمارے معاشرے میں ایک جہیز نامی بیماری بہت عام ہے جس کی وجہ سے پتہ نہیں کتنے بیٹیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہوگئی ہیں۔ آج کل انسانی معاشرہ جو اپنے آپ کو تہذیب وتمدن کے عروج پر تصور کرتا ہے وہ بھی عورت کے ہمدرد کے روپ میں اس پر بدترین مظالم ڈھاتاہے، وہ اسے حقوق کا لالچ دیکر ذلت کی بھٹی کی نذر کرڈالتا ہے، اس کے حسن کے قصیدے چھیڑکر اسے اشتہارات کی مخلوق بناڈالتا ہے، ایک خاوند کی خدمت اور رفاقت سے نکال کر درجنوںمردوں کی خدمت پر کمر بستہ کردیتا ہے۔ ناقدرے سماج میں اس عورت نما نعمت کا جس طرح کفران کیا ہے، وہ ایک تلخ حقیقت ہے جس پر پردہ ڈالنا ہی ایک جرم ہے۔
قارئین محترم!ہمارے ملک کی ایک مشرقی عورت جو آج بھی مظلوم اس لئے ہے کہ یہ ڈری سہمی درد کی ماری کبھی جہیز کم لانے کے جرم میں جلا دی جاتی ہے، کبھی بیٹے کی ماں نہ بننے کے جرم میں تیزاب سے داغ دی جاتی ہے، کبھی بیوہ ہونے کے جرم میں دھکے دیکر گھر سے باہر نکال دی جاتی ہے، کبھی غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی ہے، کبھی غربت کے نام پر بیچ دی جاتی ہے اور کبھی جائداد کے بٹ جانے کے خوف سے ساری عمر مقدس دیوی بناکر بابل کی دہلیز پر بٹھا دی جاتی ہے۔ عورت کے ساتھ ابن آدم کا سلوک ہمیشہ امتیازی رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں عورت کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہے، یہ رائے تو رکھتی ہے پر اظہار نہیں کرتی، یہ کبھی باپ کی عزت کی لاج رکھتے رکھتے اپنا جیون کسی اور کے آگے ہار بیٹھتی ہے، کبھی بھائی کی ماں بن کر اپنی آرزوئوں کو مار دیتی ہے، کبھی شوہر کی خواہش کے آگے سر جھکا دیتی ہے اور کبھی بیٹھے کی خوشی میں خود کو قربان کردیتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اس کے وجود کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ آج عورت کسی سے کچھ نہیں مانگتی، صرف اپنے جینے کا حق مانگتی ہے، اس لئے اس کی خواہشوں کو اپنے پائو تلے نہ روندیں، کیوں کہ عورت سے ہی زندگی کے رنگ ہیں، خوشبوکا احساس ہے، امید کی کرن ہے، روشنی کا سفر ہے، عورت ایک حسین خواب ہے، اسے پہچانو!یہ بنت حوا ہے، یہ بیٹی ہے تو سراپا رحمت ہے، بہن ہے تو سراپا شفقت ہے، بیوی ہے تو سراپا عزت ہے اور اگر ماں ہے تو سراپا محبت ہے۔ مگر افسوس مسلسل ظلم وستم کا شکار ہونے والی یہ حوا کی بیٹی اس قدر ٹوٹ کر بکھر گئی ہے کہ اس کی نظر میں قوانین کی کوئی اہمیت نہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ زندگی کی تلخیوں سے بچنے کیلئے اپنی جان خود سے لیتی ہے اور اپنے آپ کو سپردخاک کردیتی ہے۔ جاتے جاتے آپ لوگوں کیلئے ایک سوال چھوڑ جارہا ہوں، آخر حوا کی بیٹی کی کیوں ظلم تشدد کا شکار ہوتی ہے؟ کیوں آج تک اس کو کوئی بھی نہیں پڑھ پایا کہ اس کے ظاہر وباطن کے کیا سوالات ہیں؟ آخر کیوں وہ ان تلخیوں پر تنگ آکر زندگی کی بھاگ دوڑ سے اپنا جان چھڑا لیتی ہے؟
رابطہ ۔6291697668