حوا کی بیٹی اسلام کی لاڈلی

اسلام  کی صورت کو مسخ کرنے اور مسلمانوں کی شبیہ کو بگاڑنے کے لئے یہود و نصاریٰ کے سرمایہ کاروں کے ذریعہ کنٹرول شدہ مغربی ذرائع ابلاغ نے ایک عرصہ سے ایک مہم چلائی ہوئی ہے جس میں بدقسمتی سے اب ہندوستانی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے منسلک ایک بڑا طبقہ بھی بدلے ہوئے سیاسی منظرنامہ کی مزاج شناسی کے نتیجہ میں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے اپنے سیاسی آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے شامل ہوچکا ہے۔ ان ذرائع ابلاغ نے اس سلسلہ میں جن موضوعات کو منتخب کیا ہوا ہے ان میں سے ایک’ اسلام اور اسلامی معاشرہ میں عورت کا مقام‘ بھی ہے۔ چنانچہ مسلم معاشرہ کے تعلق سے عورتوں کی جو تصویر پیش کی جارہی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عورتوں کی مسلم معاشرہ میںکوئی عزت و وقعت نہیں، نہ ہی انہیں کوئی حقوق حاصل ہیں اور نہ آزادی۔ عورتیں مسلم معاشرہ میں قید و بند کی زندگی گزاررہی ہیں اور انہیں ان کی شخصیت کی نشوونما کے مواقع فراہم نہیں کئے جاتے۔ ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ہر لمحہ ان پر طلاق کی تلوار تنی رہتی ہے اور ان کو سماجی تحفظات کی فراہمی کا مسلم معاشرہ میں کوئی اندرونی و دستوری میکانزم  (Mechanism) نہیں ہے۔ افسوس کہ یہ الزام اس معاشرہ پر ہے جو ایسی شریعت کی حامل ہے جس کے شارع رسول خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’مجھے دنیا کی سب چیزوں میں عورتیں اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے‘‘۔ (سنن نسائی، کتابُ عِشْرَۃِ النِّسَائِ،  بروایت انسؓ )۔
 جہاں تک راقم کی سمجھ ہے، ان پروپیگنڈوں کا اصل مقصد دوسری ملتوں کے افراد خصوصاً نوجوان لڑکے لڑکیوں اور عورتوں کواسلام کی طرف مائل ہونے سے روکنا ہے جو اپنے اندرونی حالات کی وجہ سے بڑی تیزی کے ساتھ اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں لیکن مسلم معاشرہ کے جدید تعلیم یافتہ افراد خصوصاً عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کے ذہنوں کو بگاڑنے میں بھی اس پروپیگنڈے نے اہم رول ادا کیا ہے۔ دوسری طرف مسلم معاشرے کے وہ اسلام سے نابلد اور غیر مہذب افراد ہیں جو اپنی مردانگی کے زعم میں بعض اوقات عورتوںپر ایسے مظالم ڈھاتے ہیں جس سے ایک غیرت مند مسلمان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے اور یہی وہ سرکش افراد ہیںجو ذرائع ابلاغ کووہ مواد فراہم کر دیتے ہیں جسے وہ اسلام اور اسلامی معاشرہ کی شبیہ کوبگاڑنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ زیرنظرتحریر خصوصاً ان ہی دو طبقات کی نذر ہے جس میں راقم نے عورت کی مختلف حیثیت کے تعلق سے رسول پاکﷺ کے ارشادات کو ترتیب دینے کی کوشش کی ہے کہ شاید یہ حقیر سی کوشش تبدیلی فکرو عمل میں کچھ معاون ثابت ہو جو راقم کی مغفرت کا بھی ذریعہ بن جائے اور روزِ جزا اس کا شمار اسلام اور پیغمبر اسلام کے دفاع کرنے والوں میں ہوجائے۔آئیے گفتگو کا آغاز ’ماں‘سے کرتے ہیں۔  
عورت بہ حیثیت ماں :  
ماں عورت کا سب سے حسین روپ ہے ۔ ماں کی محبت، شفقت، ہمدردی، غمخواری اور قربانی کو بے مثل اور لاثانی تصور کیا جاتا ہے ۔ بچہ کی پیدائش سے لے کر اس کی پرورش و پرداخت تک ایک ماں کو جن مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے اسے ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔ وہ حمل کا بوجھ اٹھاتی ہے، بچہ کی ولادت کی تکلیف و مشقت جھیلتی ہے، اس کو دودھ پلانے کی زحمت برداشت کرتی ہے، اس کی نجاستوں کو اپنے ہاتھوں سے دھوتی ہے، اس کے آرام اور دیگر ضروریات کے لئے اپنی راتوں کی نیند قربان کرتی ہے اور اس کی ہر تکلیف پر اپنی جان نچھاور کرنے میں اپنی سعادت سمجھتی ہے۔ یہ ایسی مشقتیں ہیں جن میں باپ کی کوئی شرکت نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ بچہ کی تعلیم و تربیت میں بھی ماں اہم رول ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مفکرین ماں کی گود کوبچہ کی پہلی درسگاہ کہتے ہیں اور کیوں نہ کہیں جبکہ بچہ کی زبان و بیان کی تعلیم، سماجی اقدار کی تعلیم، تہذیب وتمدن کی تعلیم، مذہب کی تعلیم، احساسات و جذبات کی تربیت اور کردار سازی میں ماں کا جو رول ہوتا ہے وہ کسی اہل علم سے پوشیدہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کوئی بھی باپ بچہ پر خواہ کتنا ہی شفیق اور مہربان کیوں نہ ہو ، ماں کا بدل نہیں ہو سکتا۔ اس لئے انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ ایک انسان پر سب سے زیادہ حق اس کی ماںکا ہو اور یہی فیصلہ ہے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا: ’’ یا رسول اللہ ﷺ ! سب سے زیادہ کس کا حق ہے(مجھ پر) کہ میں اس کے ساتھ حسن سلوک کروں؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں کا۔ انہوں نے پوچھا پھر کس کا؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں کا، انہوںنے (تیسری بار) پوچھا پھر کس کا؟ آپؐ نے (پھر) فرمایا تیری ماں کا۔ انہوں نے پوچھا پھر کس کا؟ آپؐ نے فرمایا: پھرتیرے باپ کا۔ (صحیح بخاری، کتاب الأدب)۔ 
شارحین حدیث اس حدیث کے الفاظ سے یہ مسئلہ اخذ کرتے ہیں کہ کسی شخص پر والدین کے حسن سلوک اور بھلائی کرنے کہ جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں ماں کا حصہ باپ سے تین گنا بڑھا ہوا ہے اور اگر ایسی صورتحال پیش آجائے جس میں بہ یک و قت دونوں کے حقوق کی ادائیگی دشوار ہوجائے تو ماں کے حق کو فوقیت دی جائے گی۔ ظاہر ہے اس فوقیت کی وجہ مذکورہ بالا وہ تکالیف ہیںجو ایک ماں اپنے بچہ کے لئے برداشت کرتی ہے اور یہ تکالیف ایسی ہیں کہ ایک آدمی اپنی ماں کی جتنی بھی خدمت کرلے ان میں سے کسی ایک تکلیف کا بھی حق ادا نہیں کرسکتا۔ حضرت بریدہؓ اپنے والد سے یہ روایت نقل کرتے ہیںکہ ایک آدمی طواف کے دوران اپنی والدہ کو اٹھائے ہوئے طواف کررہا تھا، اس نے نبی اکرمﷺ سے یہ سوال کیا کہ کیا میں نے (اپنے اس عمل سے) اپنی والدہ کا حق ادا کردیا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ اس کی ایک تکلیف کے بدلے بھی نہیں ‘‘۔(مسندالبزار، مکتبۃ العلوم و الحکم، المدینۃ المنورۃ، ۲۰۰۳؁ء، حدیث نمبر ۴۳۸۰) ۔
امام طبرانیؒ نے اس حدیث کو دوسرے طرق سے روایت کیا ہے جس میں یہ ہے کہ ان صحابیؓ نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ میںنے اپنی والدہ کو اپنی گردن پر اتنی شدید گرمی میں دو فرسخ تک اٹھایا کہ اگر اس میں گوشت کا ایک ٹکڑا رکھ دیا جاتا تو وہ بھی بھون دیا جاتا تو کیا میں نے اس کا شکریہ ادا کردیا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’شاید یہ ایک مرتبہ کے درد زہ (Labour Pain) کے عوض میں ہوجائے‘‘۔(الروض الداني الیٰ المعجم الصغیر للطبراني، المکتب الاسلامی، بیروت، ۱۹۸۵؁ء، حدیث نمبر۲۵۵)۔ ایک اور روایت میں یہ ہے کہ ’’ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے ماں باپ بوڑھے ہوگئے ہیں، میرے لئے ان کی ادائیگی حقوق کا کوئی طریقہ ہے تاکہ میں اپنے بچپن کی تربیت کا حق ادا کرسکوں؟ آپؐ نے فرمایا: تم ان کا کوئی حق نہیں ادا کرسکتے اس لئے کہ انہوں نے (تیری) تربیت تیری زندگی کی بقا کی خوشی میں کی تھی (جبکہ) تو ان کی خدمت ان کی موت کی خوشی (آرزو) میں کرے گا‘‘۔ (فیوض الرحمٰن اردو ترجمہ تفسیر روح البیان ، مکتبہ اویسیہ رضویہ، بہاول پور، ۱۹۹۳؁ء، جلد ۶، ص ۱۲۳ )۔
ماں کے حق کو اسلامی شریعت میں اس درجہ تسلیم کیاگیا ہے کہ مشرک ماں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی ہدایت دی گئی ہے حالا نکہ شرک اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ فعل ہے۔ حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ جس زمانہ میں رسول اللہ ﷺ نے قریش سے صلح (حدیبیہ)کر رکھی تھی، اسی مدت میں میری والدہ (قتیلہ) اپنے والد (حارث بن مدرک) کو ساتھ لے کر (مکہ سے مدینہ) میرے پاس آئیں جب کہ وہ اس وقت مشرکہ تھیں۔چنانچہ میں نے ان کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے استفسار کیا اور کہاکہ یا رسول اللہ ﷺ ! میری والدہ میرے پاس آئی ہیں اور وہ مجھ سے (کچھ مال و اسباب لینے کی ) رغبت رکھتی ہیں،(تو) کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! ان کے ساتھ صلہ رحمی (یعنی نیکی اور احسان کا برتاؤ ) کرو۔ (صحیح بخاری، کتابُ الْجِزْیَۃِ وَ الْمُوَادَعَۃِِِِِ ، باب ۱۸، حدیث نمبر ۳۱۸۳ )۔
یہی نہیں رسول پاک ﷺ نے ماں کی خدمت کے لئے جہاد جیسے اہم فریضہ سے بھی صحابہ کو رخصت دی ہے۔ معاویہ بن جاہمہ سلمیؓ سے روایت ہے کہ( میرے والد محترم) حضرت جاہمہؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! میں نے جہاد میں شرکت کا ارادہ کرلیا ہے اور آپ کی خدمت میں مشورہ کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تیری ماں زندہ ہے؟ انہوں نے عرض کیا : جی ہاں! آپؐ نے فرمایا: ’’پھر تم انھیں کی خدمت میں رہو کیونکہ جنت ان کے قدمو ں تلے ہے‘‘۔ (سنن نسائی، کتاب الجہاد)۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ماں کی خدمت کے لئے نہ صرف جہاد سے رخصت دی بلکہ اس پر جنت کی بشارت بھی دی۔اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے ماں کی خدمت کو ہی جہاد قرار دیا۔
نبی کریم ﷺنے اس بات کو بالکل پسند نہیں فرمایا کہ کوئی ماں کی نا فرمانی کر کے اس کا دل دکھائے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ عزوجل نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کرنے، لڑکیوں کو زندہ در گور کر دینے، اور بخیلی و گدائی اختیار کرنے(یعنی قدرت کے باوجود دوسروںکا حق دبانے اور بغیر حق سوال کرنے) کو حرام کردیا ہے اورتین باتوں ؛ قیل وقال (بیہودہ بکواس کرنے)، کثرت سوال اور مال ضائع کرنے کو تمھارے لئے ناپسند کیاہے‘‘۔ ( صحیح مسلم، کتاب الأَقْضِیَۃِ)۔
یہاں تک راقم نے صرف ان احادیث کا تذکرہ کیا ہے جن میں رسول اللہ ﷺ کی ہدایات صرف ماں کے حوالہ سے ملتی ہیں، ان کے علاوہ متعدد وہ احادیث ہیں جن میں والدین یعنی ماں اور باپ دونوں کی نافرمانی سے روکا گیا ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ عبدالرحمٰن بن ابی بکرہؓ روایت کرتے ہیں ہے کہ ان سے ان کے والد نے یہ بیان کیا کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا میں تمھیں سب سے بڑے گناہ کی خبر نہ دوں؟‘‘۔صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! تو آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا‘‘۔ ( صحیح بخاری، کتاب الاستئذانِ)۔ اب ذرا غور تو کیجیے کہ نبی کریم ﷺ نے والدین کی نافرمانی کے گناہ کو شرک جیسے قبیح فعل جس کے بارے میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :  ’’ بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے‘‘ (لقمان: ۱۳) کے گناہ کے ساتھ ذکر فرمایا گویا اس کے مدمقابل ٹھہرایا ہے تو اس گناہ کی شنیعت کا اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ خود اللہ رب العزت نے اپنی کتاب (جس کے پیش کردہ فلسفہ حیات کی رسول اللہ ﷺ نے پوری زندگی تبلیغ کی ہے) میں اپنی عبادت کی تلقین کے ساتھ ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ 
ارشاد ربانی ہے: (مفہوم):۔ ’’ اور تیرا رب صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنااور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا (یا جھڑکنا) بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا۔ اور ان کے لئے عاجزی اورمہربانی کے ساتھ اپنے بازو جھکائے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی‘‘۔ (الإسراء: ۲۳-۲۴)۔
یعنی والدین کی نافرمانی کرنا تو دور کی بات ہے ، کسی بات پر ناپسندیدگی کے اظہار کرنے کے لئے جو سب سے کم تر شدت کالفظ ہوسکتا ہے یعنی ’’اف‘‘، اللہ رب العزت نے والدین کے حق میں اس کے استعمال سے بھی روک دیا ہے۔ ساتھ ہی اپنے بندوں کو اس بات کی ہدایت بھی دی ہے کہ اپنے والدین کے بڑھاپے میں جب عقل و حواس اور علم و حکمت سب انسان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے، بچوں جیسی ضدباندھنے لگتا ہے، غصہ اور جھلاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے اور بعض اوقات بشری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بھی کسی کا محتاج ہوجاتا ہے، نہ صرف ان کا ساتھ دیں بلکہ ان کے ساتھ احسان و سلوک اور عاجزی و مہربانی کا معاملہ کریں۔ دل و جان سے ان کی خدمت کریں، ان کی کڑوی کسیلی باتوں کو برداشت کریں ، انہیں کسی بات پر نہ جھڑکیں اور ان کے ساتھ ادب و احترام سے پیش آئیں۔ نیز اس خدمت کے دوران اپنے بچپنے کی محتاجی کو بھی یاد کریں کہ جب وہ اپنی ضرورتوں اور تکلیفوں کو بتانے سے بھی عاجز تھے تو کیسے ان کے والدین نے ان کی ضرورتوں کا خیال رکھا اور زمانہ کی تند و تیز ہوائوں سے بچاکر کتنی مشقتوں کے ساتھ ان کی پرورش کی تھی ۔ کتنی بار اس نے ماں باپ کے جسموں کو اپنی غلاظتوں سے آلود ہ کیا ہوگا اور کتنی راتیں ان لوگوں نے اس کی راحت و آرام کی خاطر جاگ کر کاٹی ہوں گی ۔ جب انسان ان باتوں کو یاد کرے گا تو نہ صرف بوڑھے والدین کی خدمت اسے آسان معلوم ہوگی بلکہ دل سے ان کے لئے دعا بھی نکلے گی کہ اے میرے رب ! میرے والدین کے بڑھاپے میں ان پر ویسے ہی رحم فرما جیسے انہوں نے میرے بچپنے میں مجھ پر رحم و شفقت کا معاملہ فرما کر میری پرورش کی تھی۔ 
رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا حصہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پائے تو یہ سمجھے کہ اللہ رب العزت نے اسے ایک موقع عنایت کیا کہ وہ ان کی خدمت کرکے آخرت میں اپنی مغفرت اور جنت کے حصول کو یقینی بنالے۔ اگر کسی نے اس موقع کو گنوا دیا تو اس کے جیسا محروم کوئی نہیں۔ آپؐ کا جبرائیل علیہ السلام کی ان بددعائوں پر آمین کہنا حدیث کی کتابوں میں وارد ہوا ہے جن میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا: ’’جو شخص اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے اور مرنے کے بعد جہنم میں جائے تو اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت سے ) دور کرے‘‘۔ (صحیح ابن حبان، کتاب الرقائق،  بروایت ابوہریرہؓ )۔ ایک تو جبرائیل علیہ السلام کی بددعا ہی کیا کم تھی اس پر رسول اللہ ﷺ کے آمین کہنے نے اسے جس قدر سخت بنادیا اسے قیاس ہی کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ اس روایت میں تو جسے راقم نے نقل کیا ہے یہ ہے کہ جبرائیل ؑ نے انہیں آمین کہنے کے لئے کہا جب آپؐ نے آمین کہا جس سے اور بھی تاکید معلوم ہوتی ہے اور والدین کی بڑھاپے میں خدمت نہ کرنے والوں کی ہلاکت میں کوئی شبہہ نہیں رہ جاتا ہے۔
ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ آپؐ نے خود بھی یہ فرمایا: (ترجمہ): ’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے والدین کو ضعیفی کی حالت میں پایا اور وہ دونوں اس کو جنت میں داخل نہ کریں‘‘۔ (سنن ترمذی، کتاب الدعوات، بروایت ابوہریرہؓ)۔ اس حدیث کے ایک راوی عبدالرحمٰن نے یہ کہا کہ میرا گمان یہ ہے کہ آپؐ نے  أَبَوَاہُ الْکِبَرَ  کے بعد  أَوْ أَحَدُھُمَا بھی فرمایا تھا جس کا مطلب ہے ’’یا ان میں سے کوئی ایک‘‘ یعنی ماں یا باپ کسی ایک کو بھی بڑھاپے کی حالت میں پایا اور ان کی خدمت کرکے مستحق جنت نہ ہوا تو ایساشخص رسول اللہ ﷺ کے ان کلمات کا مستحق گردانا جائے گا۔
 جس مذہب کی یہ تعلیمات ہوں اس کے ماننے والوں کو نہ ہی کسی Mother's Day   یا Mom Day   کی ضرورت ہے نہ Father's Day کی اور نہ ہی کسی دیگر فلسفہ حیات یا نام نہاد حقوق نسواں کے علمبرداروں سے متعلقہ اقدار کو مستعار لینے کی ضرورت۔ مغربی تہذیب نے تو ہمیں اپنے بوڑھے والدین سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی راہ سجھائی ہے کہ انہیں اولڈ ایج ہومس  (Old-age Homes) میں دوسروں کے رحم و کرم پر ڈال دو اور کبھی ہفتہ یا مہینہ میں ایک بار یا پھر سال میں ایک بار Mother's Day  یا  Father's Day  کے موقع پر پھولوں کا ایک گلدستہ لے کر اپنی مصنوعی اظہار ہمدردی کے لئے پہنچ جایا کرو۔ بس گویا تم نے ان کا حق ادا کردیا! افسوس کہ ہم ہندوستانیوں نے بھی اپنی تہذیب و ثقافت کو بھلا کر مغربی تہذیب کی اس روش کواپنا لیا اور اب یہاں بھی ضعیفوں کے لئے ایسی پناہ گاہیں وجود میں آچکی ہیں۔ ایک ویب سائیٹ dadadadi.org کے مطابق اس وقت ہندوستان میں ایسی ۷۲۸ پناہ گاہیں ہیں، جن میں ۱۲۴؍ تو فقط کیرل میں ہیں جو کسی صوبہ میںسب سے بڑی تعداد ہے ۔ کیرل جو تعلیم کے معاملہ میں ملک میں سر فہرست ہے اسے تعلیم نے یہی تحفہ دیا ہے! کاش کہ ہماری نئی نسل کو یہ بات سمجھ میں آجائے اور اس سے پہلے کہ ہمارا خاندانی نظام پوری طرح ٹوٹ جائے اور سماجی تانا بانا بکھر جائے وہ ہوش کے ناخن لیں اور بجائے مغربی تہذیب کی نقالی کے اسلامی تہذیب کو اپنا کر اپنی دنیا و آخرت کو خوشگوار بنائیں ۔ 
عورت بہ حیثیت خالہ:
 رشتہ داروں میں ماں سے ملتی جلتی صورت خالہ کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خالہ کو بمنزلہ ماں کے قرار دیا ہے۔ روایت ہے براء ابن عاذبؓ سے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: ’’خالہ بمنزلہ ماں کے ہے‘‘۔ (سنن ترمذی،ابوابُ البِرِّ وَ الصِّلَۃِ)۔ عام مشاہدہ بھی یہی ہے کہ بچہ کی پرورش میں ماں کے ہوتے ہوئے بھی خالہ کا اہم رول ہوتاہے اور خدانخواستہ اگر ماں کا انتقال ہو جاوے تو اکثر حالات میں ’خالہ‘ماں کابدل ثابت ہوتی ہے۔ غالباً اسی لئے رسول پاک ﷺ نے خالہ کو ماں کا بدل قرار دیا اور اس کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا ہے۔ روایت ہے ابن عمرؓ سے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا : ’’یا رسول اللہ ! میں نے ایک بڑا گناہ کیا ہے تو کیا میرے لئے توبہ(کی گنجائش) ہے؟ آپؐ نے پوچھا : کیا تیری ماں زندہ ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپؐ نے پوچھا: کیاتیری کوئی خالہ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا:پھر (تم) ان کے ساتھ نیک سلوک کرو‘‘۔ (سنن ترمذی،ابوابُ البر و الصلۃ)۔ اس حدیث سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ ماں کی طرح خالہ بھی حسن سلوک کی حقدار ہے وہیں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ماں اور خالہ کے ساتھ حسن سلوک بڑے بڑے گناہوں کے معافی کاذریعہ ہے۔
عورت بہ حیثیت شریک حیات:
مردوں کے لئے بیوی بھی قدرت کا ایک حسین تحفہ اور نعمت ہے شرط یہ ہے کہ وہ نیک بخت ہو۔ عبداللہ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’دنیا پوری کی پوری مال و متاع( یعنی وقتی فائدہ کی چیز) ہے اور دنیا کی چیزوں میں سے بہترین اورسب سے بڑھ کر نفع بخش شٔی نیک بخت عورت ہے‘‘۔ (سنن نسائی،کتاب النکاح)۔ یعنی جس کو نیک بخت خوش اخلاق عورت مل گئی اس کوسب سے بڑھ کر دنیا میں دولت مل گئی اور یہ ظاہر ہے کہ جو چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے اس کی عزت اور اس کا رکھ رکھائو بھی ویسے ہی کیا جاتا ہے۔ اس لئے نبی کریم ﷺ نے بیویوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کا حکم دیا۔ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’سب مومنوں میں کا مل تر ایمان میں وہ ہیں جن کے اخلاق سب سے اچھے ہوں اور تم سب میں بہتر ین لوگ وہ ہیں جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہوں‘‘۔ (سنن ترمذی، ابوابُ الرضاع)۔
ابو ہریرہؓ سے ہی ایک دوسری روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا : ’’جو شخص اللہ پر اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہواسے چاہیے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا کیونکہ ان کی پیدائش پسلی سے ہوئی اور پسلی اوپر ہی کی طرف سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے۔ اگر تو اسے ایک دم سے سیدھا کرناچاہے گا تو اسے توڑ ڈالے گا (وہ سیدھی نہیں ہوگی ) اور اگراسے چھوڑ دے گا تو وہ ٹیڑھی ہی رہ کر باقی رہے گی ۔ اس لئے میں تمھیںعورتوں کے بارے میں اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں ‘‘۔(صحیح بخاری، کتابُ النِّکَاح)۔ ایک اورحدیث ابوہریرہؓ سے ہی مروی ہے جس  کا مفہوم اس طرح ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’عورت پسلی کی طرح ہے ، اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہوگے تو اسے توڑ بیٹھوگے اور اگر تم اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہوتو اس کے ٹیڑھے پن کی موجودگی ہی میں فائدہ اٹھاسکتے ہو‘‘۔ (صحیح بخاری، کتابُ النِّکَاح)۔ ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کی نفسیات کو سمجھنے اور ان سے بہتر طریقہ سے فائدہ حاصل کرنے کی طرف رہنمائی کی ہے۔ اللہ رب العزت نے مرد و عورت دونوں کو الگ الگ مزاج اور فطری صلاحیتوں سے نوازا ہے اور دونوں کے باہم ملنے سے ایک دوسرے کی تکمیل ہوتی ہے۔ اگر عورتوں کو مردوں کے مزاج پر ڈھالنا مقصود اور ممکن ہوتا تو پھر ان کی تخلیق کی ضرورت ہی کیا تھی، صرف مردوں سے ہی دنیا کا نظام چلا کرتا۔ لیکن اللہ بزرگ و برتر نے اپنی حکمت بالغہ سے ہی ان دو جنسوں کو الگ الگ مزاج پر پیدا کیا ہے لہٰذا انہیں اسی طرح رہنے دینا چاہیے اور ان سے استفادہ کی راہ تلاش کرنی چاہیے جس کی بہترین تدبیر حسن اخلاق ہے جس کی وصیت نبی کریم ﷺ نے مردوں کو کی ہے۔ 
 حجتہ الوادع کے بلیغ خطبہ میں بھی آپؐ نے عورتوں کے ساتھ بھلائی کا حکم فرمایا۔ عمرؓو بن الاحوص روایت کرتے ہیں کہ وہ حجتہ الوداع میں رسول اللہ کے ساتھ حاضر تھے پس آپؐ نے اللہ کی حمد و ثنا کی اس (حج کی توفیق و ادائیگی) پر اور نصیحت کی اور وعظ فرمایا۔ پھر راوی نے یہاں ایک طویل حدیث ذکر کیا ہے جس کے اخیر میں یہ بھی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’خبردار رہو! عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، کیونکہ وہ قید میں ہیں تمھارے پاس ، تم ان پر کچھ اختیار نہیں رکھتے سوائے اس کے(یعنی صحبت وغیرہ کے)مگر یہ کہ وہ کچھ بے حیائی کریں کھلی ہوئی، تواگر وہ ایسا کریں تو دور کر دو ان کابستر اور ایسی ہلکی مارمارو ان کو کہ ہڈی پسلی نہ ٹوٹے (یعنی بہت زیادہ نہ مارو)پھر اگروہ تمھاری فرمانبرداری کرنے لگیں توان کو تکلیف دینے کی راہ تلاش نہ کرو۔ آگاہ ہو کہ بیشک تمھارا حق ہے تمھاری عورتوں پر اور (اسی طرح) تمھاری عورتوں کا حق ہے تم پر، سو تمھاراحق تمھاری عورتوں پر یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو تمھارے بستروں  کے قریب نہ آنے دیںجنہیں تم پسند نہیں کرتے بلکہ ایسے لوگوں کو بھی گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں جنہیں تم اچھا نہیں سمجھتے، آگاہ ہو! اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ ان کے پہننے اور کھانے کی چیزوں میں ان سے عمدہ سلوک کرو‘‘۔ (سنن ترمذی،  ابوابُ تَفْسِیْرِ الْقُرْآن)۔ 
اس حدیث میں رسول پاک ﷺ نے جہاں عورتوں سے حسن سلوک کی وصیت کی اور ان کے حقوق بتائے وہیں بیوی کو بطور تنبیہ مارنے کی اجازت بھی دی ہے اور یہ اجازت سورہ نساء کی آیت۔۳۴ سے بھی ثابت ہے جس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: (ترجمہ): ’’مرد حاکم (نگراں) ہیں عورتوں پر، اس لئے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس لئے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں، پس نیکوکار عورتیں (مرد کی) تابع فرمان ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت میں (مال و آبرو کی ) نگہبانی کرنے والی ہیں۔ اور تمہیں ڈر ہو جن عورتوں کی بدخوئی کا پس (پہلے) ان کو سمجھائو،اور (اگر نہ سمجھیں تو) خواب گاہوں میں ان کو تنہا چھوڑو، اور (اگر اس پر بھی باز نہ آئیںتو) ان کو مارو، پھر اگر وہ تمھارا کہنا مانیں توان کو ایذا دینے کی راہ تلاش نہ کرو۔ بیشک اللہ سب سے اعلیٰ اور سب سے بڑا ہے۔ اگر تم ڈرو دونوں کے درمیان کشمکش سے تو مقرر کردو ایک منصف مرد کے خاندان سے اور ایک منصف عورت کے خاندان سے، اگر وہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت کردے گا، بیشک اللہ بڑا جاننے والابہت باخبر ہے ‘‘۔ ( النسآء: ۳۴-۳۵)۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ قرآن کریم میں وجہ تنبیہ کے طور پر مطلق نافرمانی کا ذکر ہے جب کہ حدیث میں اسے نافرمانی کی ایک خاص صورت یعنی بے حیائی اور فحاشی کی راہ اختیار کرنے کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے، سو اگر اس حدیث کو قرآن کریم کی تشریح مان کر مارنے کی اجازت کو صرف اسی صورت کے ساتھ مقید کردیا جائے تو اس کے دفاع میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ اس تادیب میںایک طرح سے شفقت کا پہلو ہی مضمر ہے کیوں کہ بے حیائی کی راہ جس عمل پر منتج ہوتی ہے اس کی سزا اسلام میںرجم ہے یعنی سنگساری، تو ایک بڑی سزا سے بچانے کے لئے ایک چھوٹی سزا دینا عین ہمدردی ہے خلاف محبت نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اپنے کسی عزیز کے پھوڑے پھنسی کا عمل جراحی کرانا کہ اس سے مریض کو گو وقتی تکلیف تو ہوتی ہے لیکن کوئی بھی اسے خلاف محبت نہیں کہتا کیونکہ بصورت دیگر متعلقہ عضو کے ہی ضائع ہونے کا خدشہ رہتا ہے ۔ 
  اگر مارنے کی اس اجازت کو مطلق نافرمانی کے ساتھ منسوب کردیاجائے جب بھی قرآن کریم نے اسے تیسرے درجہ میں رکھا ہے۔ اس سے قبل اصلاح کے دو درجے یعنی نرمی سے سمجھانے اور بستر سے علیحدگی کا ذکر ہے اور اگر ان شریفانہ سزائوں سے بھی کسی کی اصلاح نہ ہو تو ہلکی مار مارنے کی اجازت ہے ، اس میں بھی چہرے پر مارنے کا حکم نہیں اور نہ ہی ایسی مار مارنے کی اجازت ہے جس سے بدن پر نشانات آجائیں یا ہڈی ٹوٹنے اور زخم لگنے تک نوبت آجائے لیکن کچھ غیر مہذب لو گ بات بات پر اور بہانے بنا بنا کر عورتوں کے ساتھ مارپیٹ اور جانوروں جیسا سلوک کرتے ہیںاور اپنی اس بد سلوکی کو بلا تکلف اسلام کے کھاتہ میں ڈال دیتے ہیں۔ ایسے افراد یاد رکھیں کہ گرچہ رسول پاک ﷺ نے بدرجہ مجبوری اس کی اجازت دی ہے لیکن آپؐ نے اس کو قطعی پسند نہیں فرمایا بلکہ ارشاد فرمایا کہ شریف اور بھلے مرد یہ مارنے کی سزا عورتوں کو نہ دیں گے۔ چنانچہ مارنے کی سزا پر عمل نہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ صلحائے امت سے کہیں ایسا منقول ہے۔آپؐ نے فرمایا :  ’’ تم میں سے کوئی شخص بھی اپنی بیوی کو غلام لونڈی کی طرح نہ مارے (کیوں کہ یہ بات مناسب نہیں کہ صبح کو تو اسے اس طرح مارے )پھر شام کو اس سے صحبت کرے‘‘۔ (صحیح بخاری ، کتاب النکاح، بروایت عبداللہ بن زمعہؓ)۔
اسی طرح طلاق کے حکم کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اکثر معاملوں میں دین کی سمجھ نہیں ہونے کی وجہ سے ہی اس حق کا غلط استعمال ہوتا ہے اور حقوق نسواں کے علمبرداران بھی شریعت سے لاعلمی یا بعض اوقات بیزاری کے سبب ایسے واقعات کو اسلام کے سر منڈھ دیتے ہیں۔ طلاق کی اجازت انتہائی ناگزیر حالات میں دی گئی ہے۔ اصلاح کی مذکورہ بالاتین تدابیر اختیار کرنے سے عورت اگر اپنے عمل میں تبدیلی لے آئے اور مطیع و فرمانبردار ہو جائے تو معاملہ کو وہیں ختم کر دینے کا حکم دیا گیا ہے اور اگر اس کے بعد بھی مصالحت اور اصلاح نہ ہو تو قرآن کریم نے ایک چوتھی تدبیر اختیار کرنے کا حکم دیاہے۔ وہ یہ کہ ایک حکم (ثالث) مرد کے خاندان سے اور ایک حکم عورت کے خاندان سے مقرر کرکے دونوں میاں بیوی کے پاس بھیجے جائیں۔ یہ دونوں حالات کی تحقیق کریں اور معاملات طے کرکے باہمی مصالحت کی صورت پیدا کریں۔ اللہ رب العزت نے اس بات کا وعدہ بھی کیا ہے کہ اگر دونوں ثالث خلوص و ہمدردی کے ساتھ باہمی مصالحت کی کوشش کریں گے تو وہ ضرور ان کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ 
اگر یہ تمام تدابیر بھی ناکام ہو جائیں اور باہمی مصالحت کی کوئی صورت نظرنہ آے تو مرد کو اختیار ہے کہ وہ طلاق کا حق استعمال کرے تاکہ دونوں ایک دوسرے سے آزاد ہوکر اپنی مرضی کے مطابق بقیہ زندگی گزار سکیں۔ یہ کم از کم اس صورت سے تو بہت بہتر ہے کہ انسان گھٹ گھٹ کر ساتھ زندگی گزارے یا پھرشریک حیات کا قتل کرکے اس سے چھٹکارا حاصل کرلے جیسا کہ ہمارے برادران وطن کے معاشرہ میں عام طور پر رائج ہے ۔ گو عورت کو طلاق کا آزادانہ اختیار نہیں دیا گیا ہے لیکن اُسے اس حق سے بالکل محروم بھی نہیں کیا گیا ہے کہ وہ شوہر کے ظلم کو سہنے پر مجبور ہو بلکہ اُسے یہ حق ہے حاکم شرعی کی عدالت میں مقدمہ دائر کرے اور اپنی شکایات کے حق میں ثبوت فراہم کرکے نکاح فسخ کرالے یا طلاق حاصل کرلے جسے شریعت میں خلع کہتے ہیں۔ عورت کو طلاق کا آزادانہ حق نہیں دینے کی ایک وجہ تو مرد کی قوامیّت اور اس کا مہر اور نفقات کی شکل میں عورت کی ذات پر مال کا خرچ کرنا ہے۔
سابق ڈین، فیکلٹی آف ایجوکیشن، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
[رابطہ موبائل: 09471867108 ، 
ای میل:[email protected] )
(بقیہ جمعہ کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)