حق پرستی کے بغیر معاشرہ پائیدار نہیں بن سکتا

دنیا بھر میں تقریباً ہر مذہبی اور قانونی پہلوؤں میں یہ اصول مشترک ہیں کہ ہر انسان بلا تفریق مذہب، نسل، جنس،ذات یا رنگ عزت و احترام اور بنیادی حقوق کا حقدار ہے ۔جبکہ اسلامی اور بین الاقوامی قوانین دونوں ہی نے انسانیت کی عظمت کی تکریم کو تسلیم کرکے اس کی حفاظت کے لیے قواعد و ضوابط اور اصول بھی وضع کردیئے ہیں۔جن کے باوصف ہر انسان کی عزت وا کرام، عدل و انصاف، مہربانی اور باہمی احترام پرعملدرآمد ہوسکے۔ اسلامی تعلیمات میں انسانی حقوق کی حفاظت، مساوات اور رحم دلی کی پُر زور تاکید کی گئی ہے، جو ایک مثالی اسلامی معاشرے کی بنیادہے۔ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ،جو اس دنیاکا تخلیق کار اورساری کائنات کا خالق و مالک ہے،اُس نے یہاں کی ہر چیزچاہے وہ جاندار ہو یا بے جان، کی بقاء کا سامان مہیا رکھاہے۔اُسی نے انسان ،جسے مشرف کا درجہ عطا کیا ہے کی زندگی کی بقاء کے لئے جہاں بنیادی ضروریات کے سامان بھی مہیا کرکے رکھ دیئے ہیںوہیں اُس کے لئےدنیاوی نظام چلانے کے لئےکام اور حقوق بھی وضع کئے ہوئے ہیںتاکہ اللہ اپنے منشاء کے مطابق جہاں تک اس دنیا کو قائم رکھنا چاہے ،وہاں تک اس کا نظام چلتا رہے۔خیر! بحیثیت اشرف جب انسانی ذہن ،شعور و احساس کے مطابق دنیاوی نظام آگے چلتا رہا تو ایک قانونی نظام میں معاشرتی انصاف کا تصور پیدا ہوا،جو ہر انسانی معاشرے کے تمام افراد کو مساوی حقوق فراہم کرنے پر مبنی ہے،پھرجب تک انسان ان مساوی حقوق کی پاسداری کرتا رہا تب تک یہ دنیا امن و امان اور خوش حالی کا گہوارہ بنا رہا،اورجب ان حقوق کی پامالی ہوتی رہی تب یہ دنیا جہنم زار کی صورت اختیا ر کرتی چلی گئی ،ہزاروں لاکھوں قومیں آتی رہیں اور فنا ہوتی چلی گئیںاور محض تاریخی کتابوں کی چند اوراق میںدرج قصۂ تقلید یاقصۂ عبرت بن کےرہ گئیں۔ آج کی دنیا پر ہم نظر ڈالیں تو تقریباًہر جگہ انسانی حقوق کی پاسداری پر عملدرآمد نہیں ہورہی ہے۔ہر سُو دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح،کسی نہ کسی شکل میں انسان کے ہاتھوں انسان مسمار اور انسانیت شرمسار ہورہی ہےاورکہیں بھی اُسے اس کا جائزحق نہیں مل رہا ہے۔جس سے اس بات کی نشاندہی بخوبی عیاں و بیان ہورہی ہے کہ قانون کی بالادستی کمزور ہو چکی ہے۔جس سےانسانی معاشرت میں انصاف کا نظام بگڑچکا ہے اور مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالیوں سے ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہورہے ہیں اور عالمی برادری کے سخت ردعمل کے باوجود سفارتی تعلقات متاثرہورہےہیں۔اس میں شک کی بھی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ انسانی حقوق کی پامالی سے ثقافتی اور سماجی اقدار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لوگوں کی شناخت، زبان اور روایات خطرے میں پڑ جاتی ہے۔معاشرتی تناؤ اور تصادم بڑھتے ہیں، جو سماجی استحکام کو متاثر کرتے ہیں۔ حقوق کی خلاف ورزی مختلف گروپوں کے درمیان نفرت اور کشیدگی بھی پیدا کرتی ہے، جو معاشرتی تقسیم کا سبب بنتی ہے،جس سے نہ صرف اقتصادی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں بلکہ غربت اور بے روزگاری میں اضافہ کا بڑا سبب بنتی ہے۔ ان اثرات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانی حقوق کا احترام کیا جائے اور ان کی حفاظت کے لیے مؤثر اقدامات اُٹھائے جائیں۔ہمارے لئے لازم ہے کہہمیں ہر شخص کے ساتھ بھلائی اور شفقت سے پیش آنا چاہیے، خاص طور پر ان لوگوں کے ساتھ جو کمزور اور ناتوان ہیں۔ ہمارے نجی تجارتی اداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں اور ملازموں کے ساتھ مساوات اور انصاف برتیں، اور انہیں وہی حقوق دیں جو وہ اپنے لئے چاہتے ہیں۔انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے پیارے نبی ؐ اپنے صحابۂ کرامؓ کو غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید کرتے رہتے تھے کہ یہ بھی انسان ہیں اور اللّٰہ کی مخلوق ہیں۔ جن لوگوں کو مشکل کام کرنا پڑتا ہے، ان کی مدد کریں اور ان کے کام میں تعاون کریں تاکہ ان پر بوجھ کم ہو۔ یہ تعلیمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہم اپنے رویے میں انصاف، محبت اور احترام کو فروغ دیں تاکہ ایک پُرامن اور خوشحال معاشرہ تشکیل پا سکے۔