حضرت میاں بشیر احمد لاروی ایک عبقری شخصیت سلسلہ تصوف کے پیروکار اپنے مرشدوں کے بتائے راستے پر چلیں

ابو طارق میر غلام نبی

کشمیر، جسے تصوف اور محبت کی سرزمین سے موسوم کیا جاتا ہے ،نے کئی قطب و ابدال اور تصوف کے اعلیٰ منازل کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں قائد انہ خصائل اور قابل تقلید رہنما پیدا کئے۔اسی وجہ سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس قوم کو باربار مشکلات نے اگرچہ گھیر کر آزمایا ہو ،انہی ولی کاملین اور بلند پایہ شخصیات کے فیوض و برکات کی وجہ سے یہ قوم ہمیشہ سرخرو ہوتی رہی۔یونہی یہاں کے فرد فرد کو ان روحانی شخصیات کے ساتھ قلبی تعلق ہے جسے کسی بھی صورت میں مٹایا نہیں جاسکتا ہے۔

آج اسی صوفی سلسلے کی ایک کڑی روحانی قبیلہ میاںکے ایک لائق اور عظیم سپوت کی برسی کی مناسبت سے چند الفاظ تحریر کررہا ہوں تاکہ فیوض و برکات کے اس سمندر سے مجھ جیسا احقر بھی چند قطروں کے لائق بنے۔جی ہاں ہم بات کررہے ہیں بابانگری وانگت کے روحانی خانوادے کے عظیم پیشوا میاں بشیر احمد لاروی کے بارے میں۔ان کی ولادت باسعادت اور بود و باش و علمی ،روحانی اور سماجی زندگی کا احاطہ کرکے انکے قدموں میں گلہائے عقیدت پیش کریں گے۔

میاں بشیر احمد لاروی 1923میں تحصیل کنگن کے علاقہ وانگت میں تولد ہوئے۔آپ جموں وکشمیر کے معروف صوفی بزرگ محمد بن عبداللہ عرف جی صاحب کے پوتے اور میاں نظام الدین کے فرزند تھے۔لاروی خاندان جموں وکشمیر میں تصوف سلسلہ نقشبندیہ کے پیروکار ہیں۔اس خاندان نے عوام کو روحانیات سے فیضیاب کرانے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی و سماجی خدمات بھی انجام دی ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔میاں بشیر احمد مرحوم چار بار جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے منتخب ممبر رہے اور کئی وزارتوں پر بھی فائز رہے۔

میاں بشیر احمد لاروی کے سیاسی خدمات اور روحانی کمالات پر اب تک سینکڑوں مضامین لکھے جاچکے ہیں، درجنوں سیاسی، سماجی ومذہبی شخصیات نے انٹرویو کے ذریعے ا ُن کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے، جتنا بھی ا ُن کے بارے میں لکھا یا کہا جائے کم معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے جوکہ اللہ اور ا س کے رسول ؐکی رسی کو مضبوطی سے پکڑتا ہے د نیا اس کے قدموں میں ہوتی ہے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر روحانی سمندر میں غوطے لگانے والے میاں بشیر احمد لاروی نے دنیا کے شایان ِ شان اور اعلیٰ عہدوں کو ٹھوکر ماری لیکن اللہ نے انہیں یہاں بھی بادشاہی عطا کی اور اپنے ہاں بھی بلند مقام دیا۔

اخلاقی اقدار، اصولوں کے پاسدارباجرت، سوچ اورحسن اخلاق وانسانیت کے پیکر میاں بشیر احمد لاروی اس میاں خانوادے کے چشم وچراغ ہیں، جس خانوادے کو ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ مہاراجہ جموں وکشمیر کی پرجا سبھا سے لیکر آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، میں فتح سے ہمکنار ہوئے۔ سیاسی سطح پر لوگوں کی نمائندگی کا یہ سلسلہ میاں نظام الدین لاروی سے شروع ہواتھا اوراِس وقت میاں الطاف احمد ا س کو آگے بڑھارہے ہیں۔ وہ خانوادہ جس کامختلف سیاسی نظریات رکھنے والے یکساں عزت واحترام کرتے تھے۔

میاں بشیر احمد لاروی کی سیاسی خدمات اور روحانی کمالات پر اب تک سینکڑوں مضامین لکھے جاچکے ہیں، درجنوں سیاسی، سماجی ومذہبی شخصیات نے انٹرویو کے ذریعے اُن کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے، جتنا بھی اُن کے بارے میں لکھا یا کہا جائے کم معلوم ہوتا ہے۔ الغرض میاں خانوادے کے اس عظیم پیشوا کے بارے میں لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہوگا۔اسی بات پر اکتفا کرنا پڑے گا کہ اہلیان کشمیر اور سلسلہ تصوف کے پیرو کاروں کو اپنے پیروں اور مرشدوں کے بتائے ہوئے راستے پر یکسوئی کے ساتھ چلنا ہوگا۔جو روحانی تعلیمات ہمیں ان بزرگوں سے ملی ہیں اور جن اقدار پر انہوں نے ہمیں زندگی بسر کرنے کی تلقین کی ہے ،ہمیں اس پر حرف بہ حرف عمل کرنا چاہئے۔یہی ہمارا اصل تعلق اپنے مرشدوں کے ساتھ ظاہر کرے گا۔

پتہ۔ڈورو شاہ آباد ،کشمیر
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی آراء ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)