ماہ ربیع الاول وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں فخر کائنات، خطمی مرتبت، سرور کونین حضرت محمد مصطفیؐ تولد ہوئے اور دنیا کو اپنے اخلاق، کردار، گفتار اور اعمال سے اپنا گرویدہ بنا دیا ۔آپ ؐ نے انسانوں کو جہالت اور اندھیرے سے نکال کر علم اور نور کی طرف لے لیا اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو صحیح راستے پر گامزن کیا۔ آپ کی تعلیمات نے ایک آدم کو انسان بنا دیا اور انسانیت کا لباس زیب تن کیا اور باطل و طاغوتی قوتوں کو اپنے اخلاق و کردارسے برہنہ کیا اور اسلام کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ اسی لئے قرآن گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ''اے پیغمبر ،ہم نے تمھیں گواہی دینے والا اور خوش خبری پہنچانے والا اور عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اور اللہ کے اذن سے اْس کی طرف دعوت دینے والا اور انسانوں کی ہدایت کے لیے ایک روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے (الاحزاب45۔46)
مگر عصری مسلمانوں نے اس قرآن کو رحلوں پر سجا کر اس سے استفادہ کرنے کی ہر گز کوشش نہیں کی اور پیغمبر اکرم ؐکی زندگی کو اپنے لئے نمونہ عمل بنانے سے رہ گئے، یہی وجہ ہے کہ جس پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ روشن چراغ بنا کر بھیجا ہم اسی روشن چراغ کو اپنے اعمال اپنے افعال اور اپنے کردار سے گْل کرنے پر تْلے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم مسلمان ہوکر بھی آج کل افراط وتفریط کے شکار ہوئے ہیں، ناامیدی اور گمراہی نے ہمارا سکون لیا ہے اور ہم خوف و ہراس کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی ؐ نے قرآنی تعلیمات کے ساتھ ساتھ اپنی سیرت سے دنیائے انسانیت کی راہ صدق وصفا کی طرف رہنمائی و رہبری کی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک سے مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی متاثر ہوئے ہیں اور وہ بھی آپ کی ذات پاک اور سیرت کے قائل ہوئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام پراگندیوں اور پریشانیوں کو دور کیا اور غلبہ پانے والوں پر تسلط جما لیا، مشکلوں کو سہل اور دشواریوں کو آسان بنایا اور آپ کے کردار و اخلاق کے قائل اور غیر جانبدارانہ رویئے سے متاثر غیر مسلم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں لکھنے پر مجبور ہوگئے۔
مائیکل ہارٹ نے اپنی کتاب میں حضرت محمد مصطفی ؐ کو پہلی نمبر پر رکھا ہے اورلکھا ہے کہ’’دنیا کے موثر ترین افراد میں حضرت محمدؐو سرفہرست رکھنے کا میرا فیصلہ بالکل درست ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ محمدؐ وہ فردِ واحد ہیں جو مذہبی اور غیر جانبدارانہ دونوں سطحوں پر نہایت ہی کامیاب ترین انسان تھے۔Theory of Plate tectonicsکااگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ؐ دنیا کو قدرتِ خدا پر غور وفکر کرنے کی دعوت کیساتھ حقیقت کو پیش کررہے تھے۔مسلمان ہو چاہے غیر مسلم مگر اس سے کسی کو اختلاف نہیں اور نہ ہی ہوسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے صحرائے عرب جہل اور لاعلمی، ظلم وتشدد، بربریت، قتل وغارت گری، صنف نازک یعنی حوا کی بیٹیوں کے ساتھ استحصال غرض دنیا کی ساری خباثتوں کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، تو بے جا نہ ہوگا اور جب آپ کی پیدائش ہوئی تو باطل قوتیں لرزہ براندام ہوئیں کیونکہ آپ ؐسب سے بڑے حکیم، معلم اخلاق اور مجموعہ کمالات ہونے کے علاوہ معاشرتی عیوب سے پاک اور اہل عالم کیلئے ایک عمدہ نمونہ عمل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ؐنے اپنے انہی کمالات کے ذریعے سے تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور معاشرے کو صاف وپاک کردیا اور مسلمان یہ فخر سے کہتے ہیں کہ آپ ایسے رہبر تھے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب آپ ؐ پر اعتراض نہ کرسکا۔ اس لئے مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ برحق ہے اور آپ کی زندگی اور آپ کا حکم واجب الاطاعت ہے ۔اس لئے اللہ تعالیٰ سورہ نور میں ارشاد فرماتا ہے کہ "پس ڈرنا چاہیے ان لوگوں سے جو رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، کہ وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو جائیں یا ان پر دردناک عزاب نازل ہو جائے"۔
آج کے مسلمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزعمل سے سبق لینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اگر مسلمان آپ کے اخلاق اور اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوتے تو دشمنوں کی ہر سازش کو ناکام کرتے اور دین اسلام کے درپردہ دشمنوں سے آگاہ ہوتے۔ ہمارے پاس اس وقت جو دین موجود ہے، وہ ہم تک یوں ہی نہیں پہنچا ہے بلکہ اس کیلئے قربانیاں دینی پڑیں اور ہم نے اسی اسلام کو فرقوں، جماعتوں اور گروپوں میں تقسیم کیا ہے اور اب یہ پہچاننا مشکل ہوگیا ہے کہ عینِ دین کیاہے؟ کون صحیح راستے پر ہے؟ کیونکہ اس وقت سبھی لوگ دعوائے اسلام کرتے ہیں مگر اعمال، گفتار، کردار دین اسلام کے موافق نہیں ہیں۔ سرکار دوعالم ؐنے جس عالم میں تبلیغ کا آغاز کیا تھا، وہ بے سروسامانی کا عالم تھااور اپنے خاندان کے چند افراد کے علاوہ کوئی ساتھ دینے کیلئے تیار نہ تھا مگر آپ کے صادق وامین ہونے سے ممکن ہوا کہ اپنے تواپنے، پرائے بھی ایمان لانے کیلئے آگے آئے اور آپ کے اخلاق کا اثر اتنا ہوا کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلے دشمن تھے وہ بھی دوست بن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہونے لگے۔ کئی کوشرفِ صحابیت حاصل ہوئی اور کئی شہادت کے درجے تک پہنچ گئے۔ مگر ہم نے دین اسلام میں ایسے خرافات اور اعمال رائج کئے کہ پکے مسلمان بھی اسلام سے دوری حاصل کرنے لگے۔آج کا دور اگرچہ روشن فکر دور ہے اور تبلیغ دین کرنا آسان بن گیا ہے، پھر بھی مسلمانوں کو نئے نئے مصائب وآلام نے گھیر لیا ہے کیونکہ ہم نے دین اسلام کو اپنے ہاتھوں سے پامال کیا ہے اور اس وقت راہ اسلام میں تبلیغی فرض انجام دینا ہر باصلاحیت مسلمان کا فرض ہے کیونکہ اس کامیاب تحریک کو کامیابی تک پہنچانے کیلئے سرکار دوعالم ؐکو جن مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہم اس کا ایک چوتھائی حصہ کا حق بھی ادا نہیں کرسکتے ہیں ۔مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ سرکار دوعالم محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چل کر قوموں کی اصلاح کریںاور دنیا کو دین اسلام کے اصول وقوانین کا گرویدہ بنائیںتاکہ یہ ہمارے لئے توشہ آخرت بنے اور ہم کامیاب ہو جائیں۔
رابطہ۔[email protected]
موبائل نمبر۔7006259067