حضرت علی مرتضیٰ ؄

شکیل مصطفی
حضرت علی ؄ ہمارے نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کے چچازاد بھائی تھے۔ ان کے والد ابو طالب کا شمار مکّہ کے ذی اثر لوگوں میں ہوتا تھا۔ حضرت علی ؄کوان کے بچپن ہی میںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تربیت میں لے لیا تھا۔ بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت حضرت علی ؓنے حاصل کی۔ اس وقت ان کی عمر مشکل سے دس بارہ برس کی تھی۔ 

ہجرت کے بعد دوسرے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی بی بی فاطمہ ؅ کا نکاح حضرت علی؄ سے کردیا۔ حضرت علیؓ نے بچپن ہی سے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ رسول اکرمؐ کی جانب سے جو خطوط روانہ کیے جاتے تھے اُنہیں اکثر حضرت علیؓ لکھا کرتے تھے۔ تقریر و خطابت میں اُنہیں خدداد ملکہ حاصل تھا۔ ان کے حکمت آموز اقوال ضرب المثل بن گئے ہیں۔ حضرت علیؓ میںبہت سی خوبیاں تھی۔ ان کی بہادری اور جنگی صلاحیت سے ہر خاص و عام واقف تھا۔ خیبر کی جنگ میں انہوں نے بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا، جس کی وجہ سے خیبر کا قلعہ فتح ہوا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ صاحب الرائے تھے۔ کوئی جھگڑا آ پڑتا تو اایسا فیصلہ کرتے کہ لوگ دنگ رہ جاتے۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق ؓ فرمایا کرتے تھے کہ ہم لوگوں میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والی صلاحیت حضرت علی ؓمیں ہے۔ حضرت عمر فاروق ؄ کو جب کوئی مشکل معاملہ پیش آتا تو وہ حضرت علی؄ سے مشورہ کرتے تھے۔ حضرت علی ؄ نے حضرت عثمان ؄ کی شہادت کے بعد مسند خلافت سنبھالی۔ ان کا بیشتر وقت خلافت کے مختلف کاموں میں صرف ہوتا تھا۔ وہ نماز میں لوگوں کی امامت کرتے، انہیںدین کی باتیں سمجھاتے، ان کی خیریت اور ان کے کاروبار کے بارے میں پوچھتے، بازاروں کا گشت لگاتے اور خرید و فروخت کرنے والوں کی نگرانی کرتے تھے۔ 

اس زمانے میں خلیفہ اپنے زیر نگیں علاقوں کے لیے عامل مقرر کرتے تھے۔ حضرت علیؓ ان کی کاروائیوں پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ کبھی کبھی اچانک معائنہ کرنے والوں کو بھیجتے کہ وہ جاکر دیکھیں کہ عوام کے ساتھ عمال کا سلوک کیسا ہے اور ان کے بارے میں عوام کی کیا رائے ہے، حضرت علیؓ نے اپنے عہد خلافت میںبیت المال کی امانت داری کا پورا حق ادا کیا۔ بیت المال میں جتنا مال آتا تھا، سب تقسیم کر دیتے تھے۔ وہ تقسیم میں اپنے کسی رشتے دار یا عزیز کو کبھی فوقیت نہیں دیتے تھے۔ ایک دفعہ بیت المال کا تمام اندوختہ تقسیم کرکے وہاںجھاڑو دی اور دو رکعت نمازِ شکرانہ ادا فرمائی۔ حضرت علیؓ نہایت سخی تھے۔کبھی کوئی سائل اُن کے دروازے سے مایوس نہ لوٹتا۔ وہ خود بھوکے رہ جاتے لیکن کسی بھوکے کو اپنے دروازے سے خالی نہ جانے دیتے۔ بڑی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ کپڑا پھٹ جاتا تو خود سی لیتے، جوتی پھٹ جاتی تو خود اس کی مرمت کرتے، گھر میں کوئی خادمہ نہیں تھی۔ شہنشاہِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی گھر کا سارا کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھیں۔ ایام خلافت میں بھی حضرت علی؄ کی سادگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ مسلمانوں کا خلیفہ ایک معمولی مزدور کی طرح زندگی بسر کرتا تھا۔ حضرت علی؄ کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ جب کوئی چیز خریدنی ہوتی تو بازار میں ایسے دکاندار کو تلاش کرتے جو انہیں پہچانتا نہ ہو اور اسی سے سودا لیتے تھے۔ انہیں یہ پسند نہیںتھا کہ کوئی دکاندار ان کے امیرالمومنین ہونے کی وجہ سے سودے میں انہیں رعایت دے۔ ایک دفعہ کپڑا خریدنے نکلے۔ اُن کا غلام قنبر ساتھ تھا۔ انہوں نے موٹی موٹی چادر خریدیں پھر قنبر سے کہنے لگے، ’’ان میں سے جو تمہیں پسند ہے، لے لو۔‘‘ ایک چادر اس نے لی اور دوسری حضرت علی؄ نے اوڑھ لی۔ خلیفہ کا اپنے غلام کے ساتھ یہ حسن سلوک دیکھ کر لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ حضرت علیؓکی ذات گرامی اعلیٰ ترین اخلاق و محاسن کی جامع تھی، فصاحت و بلاغت میں آپ بے نظیر تھے۔ زہد، ترک دنیا، ایثار، رضا جوئی اور عبادت و ریاضت آپ کے طغرائے امتیاز تھے۔ تمام عرب آپ کی شجاعت کا لوہا مانتا تھا۔ بڑے بڑے معرکوں میں آپ آگے بڑھتے اور مظفر و منصور واپس لوٹتے۔لیکن افسوس کہ آپ کا زمانۂ خلافت شورش اور خانہ جنگی کا عہد ہوگیا اور دنیا آپ کے فیوض و برکات سے محروم رہ گئی۔ 

ایک دن حضرت علی ؄ فجر کی نماز کے لیے مسجد میں داخل ہو رہے تھے کہ ایک شقی القلب شخص ابن ملجم نے زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے وار کرکے انہیں زخمی کردیا۔ اس 

زخم سے حضرت علی ؄ جانبر نہ ہوسکے اور ۲۱؍ رمضان المبارک  ۴۰    ؁ھ کو ۶۳؍سال کی عمر میں انہوںنے شہادت پائی۔ 

) رابطہ۔ 9145139913)

[email protected]>