حضرت شیخ حمزہ مخددم صاحبؒ ولی کامل

محمد اشرف بن سلام 
شہر سری نگرکےکوہِ ماران پر کشمیر کے ولی کامل حضرت سلطان العارفین شیخ حمزہ مخدومؒ کا مزارِ اقدس ہے۔آپ ؒکی درگاہ تقریباً پچھلے پانچ سو سال سے اہلِ کشمیر کی عقیدت کا مرکز ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تخلیق فرمائی اور انکی ہدایت و راہنمائی کےلئے انبیائے کرام ؑ معبوث فرمائے ،جنہوں نے انسانیت کو اللہ وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں سرنگوں کیا اور نبوت کاسلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہو ا،اور خاتم النبینؐ اختتام پذیر ہوگیا۔ انبیائے علیہ السلام کے بعد صحابہ کرامؓ اور اولیا ئے کرامؒ نے خلق خدا کی رہنمائی کی۔  انبیائےکرام ؑ کے بعد صحابہ کرام ؓاور اولیا ئے کرامؒ خلق خدا کی رہنمائی و اصلاح نفس کے کام سرانجام دیتے رہے ۔ پھرصوفیائے کرام کا پہلاطبقہ وجود میں آیا ،جس کے سرخیل حضرت حسن بصریؓ، حضرت ابراہیم بن ادھم ؓاورحضرت فضیل بن عیاضؓ قابل ذکرہیں ۔ان بزرگان دین نے تحریر و تقریرسے لوگوں کی اصلاح کی ۔اگرچہ وادی کشمیر میں اسلام کی بنیاد حضرت سلیمانؑ کے دور میں پڑی ،لیکن حضرت بلبل شاہؒ نے اس کی شروعات بدھ مذہب کے بادشاہ رنیچن کے دور ِاقتدار میں کی ، جو بعد میں سلطان صدرالدین کے نام سے مشہور ہوا۔ پھرجب حضرت میر سید علی ہمدانی ؒ کے قدم مبارک یہاں پڑےتو وادی کشمیر اسلام کے نور سے منور ہوگئی ۔ سرزمین کشمیر نے آمد اسلام کے بعد بے شمار اولیائےاور علمائے ربانی پیداکئے، جنہوں نے اللہ کی وحدانیت اور کلمتہ الحق کے لئے اپنی زندگی وقف کرکے یہاں ایسے ثمر دار اشجار اور شیرین باغ لگائے جن سے یہاں کے لوگ مستفید ہوتے رہے۔ انہی برگزیدہ شخصیات میں سلطان العارفین شیخ حمزہ مخددمؒہیں ۔ حضرت شیخ حمزہ مخددمؒ 900 ہجری میں سوپور سے پندرہ کلو میٹر دور تجر نامی گاؤںکے ایک نیک گھرانے، خاندان رینہ میں تولد ہوئے ۔ اُس وقت سلطان محمد شاہ کشمیر کا حکمران تھا۔والدین نے اُن کا نام حمزہ رکھا،حمزہ عربی زبان میں شیر کو کہتے ہیں ۔
 شیخ حمزہ مخددمؒ کشمیر کے مشہور و معروف روحانی بزرگ تھےاورمحبوب العالم اور سلطان العارفین کےالقاب سے مشہور ہیں، ایک پاکباز عارف اور صاحب نظر ولی تھے اور انکا طریق تصوف، مسلک درویشی اور مشرب عرفان ومعرفت تھا ۔ سلطان العارفین شیخ حمزہ مخدومؒ کی خدمت میں دانشوروں کی جماعت ہمیشہ موجود رہتی تھی جو خود بھی آپؒ کے ارشادات و معمولات سے فیض اُٹھاتی رہی اور دوسروں کی فیض رسانی کےلئے انہیں سپرد قلم کرتے تھے۔ان دانشوروں میں اس وقت کے قاضی زمان حضرت بابا داؤد خاکیؒ نے اپنے پیر و مرشد سلطان العارفینؒ کی شان میں چار سو سے زائد اشعار پر مشتمل قصیدہ’’ورد المریدین‘‘ تحریر فرمائی اور پھر’’دستور السالکین‘‘ کے نام سے اس کی مدّلل شرح تحریر فرمائی۔حضرت میرحیدرؒتولہ مولہ کی ہدایتہ اخلصین ،حضرت شیخ احمد چاگلیؒ کی سلطانیہ، حضرت خواجہ اسحاق قاریؒ کی چلچلتہ العارفین، حضرت بابا علی رینہ ؒ کی تذکرة العارفین ، حضرت خواجہ حسن قاری ؒ کی راحتہ الطابین بھی قابل ذکر ہیں۔ یہاں پر علامہ بابا داؤد خاکیؒ کاتذکرہ کرنابالک بجا ہے،کیونکہ حضرت خاکیؒ بچپن میں ہی والدین کے سایہ سے محروم ہوگئے ۔لیکن خوش قسمتی سے اُنہیں مولانا رضی الدینؒ اور مولانا شمس الدین پالؒ جیسے اولو العزم علماءکی تریبت نصیب ہوئی۔جن سے آپ ؒ نے علمی فضائل کا اتنا بڑا سرمایہ حاصل کیا کہ دربارشاہی تک رسائی حاصل ہوئی اورشاہانہ صحبت نے آپؒ کے اندر دُنیا دارانہ فکر پید ا کی،لیکن جب آپؒ حضرت سلطان العارفینؒ کی خدمت میں پہنچے تو آپؒ کا دنیا دارانہ ذہن  کافور ہوگیااور زندگی ہی بدل گئی۔ آپؒ تن کی دنیا سے نکل کر من کی دنیا میں داخل ہوئے اور ایک ایسی دولت ابدی کے وارث بن گئے جو جب ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی ہی نہیں ۔ حضرت علامہ بابا داؤد خاکیؒ بھی66برس عمر پاکر3 ماہ صفر المظفر 994ہجری میں واصل بحق ہوئے اورآپؒ اپنے پیر مرشد حضرت شیخ حمزہ مخددمؒ کے پہلو میں ہی کوہ ماران پر آرام فرما ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے دین کی خاطر جد وجہد کے بعد کا میابی حاصل کرنے کیلئے استقامت شرط قرار دی ہے۔ حضرت سلطان العارفینؒ کے بارے میں حضرت خاکیؒ فرماتے ہیں کہ جو کچھ میرے پیر برحق نے علم حاصل کیا، اس علم کے مطابق عمل بھی کرتے رہے اور استقامت بھی اختیار کی تو ا للہ تعالیٰ نے آ پؒ کو رفیع و اعلیٰ درجات پر فائز فرمایا۔ اس بات کا اظہار حضرت خاکیؒ نے قصیدہ’’وردالمریدین ‘‘میں کیا ہے۔اس کے بعد حضرت خاکیؒ فرماتے ہیں: حضرت محبوب العالمؒ نے اپنے مولیٰ کی اس قدر عبادت کی یعنی ا ن کی ریاضت کا یہ عالم تھا کہ برسوں تک آپ ؒنے اپنا پہلو زمین پر نہیں رکھا۔غرض آپؒ نے ولایت کا اعلیٰ مقام تب حاصل کیا جب وہ رات و دن بیدار رہ کرذکر ِ الٰہی میں مشغول رہتے ۔اس سے صاف ظاہر ہوا کہ عارف ،سالک ،پیر صوفی،درویش ،فقیر ،مولوی یا مرشد ِ کامل اگر حقیقی طور پر خدا دوست بن کر قربِ الٰہی کے خواہاں ہوں تو ان کو سب سے پہلے شریعت کی پابندی اور حضرت محمدؐ کی منابعت اور دوسری پیروی کرنی لازمی ہے۔
 امام عبداللہ ذہبی فرماتے ہیں،جوقوم اپنے اسلاف کے صحیح اور سچے حالات سے بے خبر ہے اور اُسے علم نہیں کہ اُن کے رہبر وں اور بزرگوں نے دین وملت کی کیا خدمت کی، ان کے شب و روز کیسے تھے، ان کی اعمال کیسے تھے اور وہ کیسی زندگی گزار تے تھے،وہ قوم تاریکی میں بھٹک جاتی ہے اور یہ تاریکی اسے گمراہی میں مبتلا کردیتی ہے۔ اس لئے ایسی ہستیوں کے حالات سے شناسائی ضروری ہے تاکہ زندگی کو راہ راست پر چل سکے۔
بے شک وادی کشمیر کو اولیاء اللہ کی سرز مین کہا جاتا ہے ۔ کشمیر کے دوعظیم المرتب شخصیت اپنے منفرد ، مخصوص اور معتبر مقام کی بدولت باشندگانِ کشمیر کے قلب وجگر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ یہ دونوں برگزیدہ اولیا ء اللہ حضرت شیخ العالمؒ اورحضرت محبوب العالمؒ ہیں۔ مردِ خدا اور شریعت ومعرفت کے رہنما سلطان العارفینؒ  تجرسے سرینگر تشریف لائے اورکوہِ ماران کے دامن میں سکونت پذیر ہوکر لوگوں کی تعلیم وتربیت کرتے رہے۔آپ ؒ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور حضرت رسول اللہؐ کی اطا عت اور اپنی آخرت کی سرخروئی کے لئے یہ فریضہ انجام دیتے رہے۔ اس عظیم المرتبت ولی کامل نے جو اَن مٹ نقوش چھوڑ دیئے ہیں، وہ اس بات کی گواہ ہے کہ اخلاقی تعلیمات حیات انسانی کا سرچشمہ ہے۔
جب اس ولی کامل، شریعت کے علمبردار، طریقت ومعرفت کے رہبر وروحانی رہنما واصل بحق ہوئے ،توحضرت مخدومؒ عرفا کے کرامت مثال وصال کی تاریخ حضرت شیخ داؤدؒ کے ان اشعار سے نکلتی ہے۔شیخ حمزہ مرشد والا گہر٭فوت شد دربست و چارم از صفر٭رفت اکمل یافت فضل کردگار٭عاقبت درنہ صد دہشتاد و چار(بلند مرتبہ مرشد شیخ حمزہ ماہِ صفر کی 24 تاریخ کو وفات پا گئے۔ وہ کمال پا کر گئے اور آخر984 میں فضل کاردگار سے بہرہ ور ہوئے)
میںا سی عقیدت کے ساتھ یہ دعاکرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے اس نیک و پاک بندہ،ولی کامل اور راہ حق کے عظیم مجاہد جو کوہِ ماران پر آسودہ ہیں، کے فیوض و برکات سے ہمیں ہمیشہ مستفید رکھےاوروادی کشمیر کے لوگوں کو پریشانیوںاور مصیبتوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں توحید و سنت رسول رحمتؐ کےساتھ ساتھ صالحین واولیاءکاملین کی اتباع کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین
(رابطہ۔ اوم پورہ بڈگام  9419500008)