مجاہد عظیم آبادی
حضرت ِسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسلامی تاریخ کی ایک معتبر اور ممتاز شخصیت ہیں۔ آپ ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہونے کے ساتھ ساتھ علمی، اخلاقی اور دینی اعتبار سے نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ ان کے فضائل و مناقب، علمی کارنامے، اخلاقی صفات اور زندگی کے واقعات مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا ایک عظیم ذریعہ ہیں۔
نبی کریمؐ کی محبت اور شفقت : حضرت عائشہ ؓکو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی محبت اور شفقت حاصل تھی۔ کئی احادیث میں اس بات کا ذکر موجود ہے کہ نبی کریمؐ نے ان سے خاص محبت کا اظہار کیا۔ ایک روایت میں صحابی عرض کرتے ہیں کہ: ‘’’یا رسول اللہ! آپ کو انسانوں میں سب سے پیارا کون ہے؟‘‘ فرمایا: ‘’’عائشہ‘‘۔ پھر انہوں نے پوچھا: ’’مردوں میں سے؟‘‘ فرمایا: ’’اس کا والد‘‘۔ اس کے بعد صحابی نے کئی اور لوگوں کے نام لیے لیکن نبی کریم ؐ نے حضرت عمر ؓ کا نام لیا۔(صحیح البخاری: 4358)
علمی ورثہ : حضرت عائشہؓ کا علمی ورثہ اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ ابو موسیٰؓ بیان کرتے ہیں: ’’ہم اصحاب رسول اللہؐ کو جب کبھی بھی کوئی حدیث مشکل ہوتی تو ہم ام المومنین عائشہ ؓ سے اس کے بارے میں پوچھتے تو ان کی حدیث کا ہمیں علم ہو جاتا۔(سنن ترمذی، صحیح)۔ اس کے علاوہ، عروہ بیان کرتے ہیں کہ: ‘’’میں نے عائشہؓ سے زیادہ کسی کو شعر، فرض اور فقہ کا عالم نہیں دیکھا‘‘۔(مصنف ابنِ ابی شیبہ، صحیح)
اخلاقی صفات اور سادگی : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اخلاقی صفات اور سادگی اسلامی معاشرت میں ایک نمونہ ہیں۔ وہ اپنی زندگی کو ہمیشہ دین کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی تھیں اور دنیاوی چیزوں سے بے نیاز تھیں۔ ان کی سخاوت کا عالم یہ تھا کہ ان کے پاس جو بھی آتا، وہ اسے اللہ کی راہ میں دے دیتیں۔ عطا بیان کرتے ہیں کہ: ‘’’میں نے عائشہ ؓ سے بڑھ کر کسی کو فصیح نہیں دیکھا‘‘۔(سنن ترمذی، صحیح)امام عطاء اللہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ:معاویہؓ نے عائشہ ؓ کو سونے کا ہار بھیجا ،جس میں ایک ایسا جو ہر لگا ہوا تھا جس کی قیمت ایک لاکھ درہم تھی، پس آپؓ نے وہ قیمتی ہار تمام امہات المومنین میں تقسیم فرمادیا۔‘‘(ہناد فی الزہد، 337/1، الرقم: 618، وابن الجوزی فی صفوۃ الصفوۃ (29/2.)ابن زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ:’’عائشہ ؓ کے پاس اللہ کے رزق میں سے جو بھی چیز آتی، وہ اس کو اپنے پاس نہ روکے رکھتیں بلکہ اسی وقت (کھڑے کھڑے) اس کا صدقہ فرما دیتیں۔‘‘ (صحیح البخاری: 3505)
اسی طرح ام ذرہ، جو کہ عائشہ ؓکی خادمہ تھیں، بیان کرتی ہیں کہ: ’’عبد اللہ بن زبیر ؓ نے دو تھیلوں میں آپ کو اسی ہزار یا ایک لاکھ کی مالیت کا مال بھیجا، آپ ؓنے مال رکھنے کے لئے ایک تھال منگوایا اور آپ اس دن روزے سے تھیں، آپ وہ مال لوگوں میں تقسیم کرنے کے لئے بیٹھ گئیں، پس شام تک اس مال میں سے آپ کے پاس ایک درہم بھی نہ بچا، جب شام ہو گئی تو آپؓ نے فرمایا: اے لڑکی! میرے لیے افطار کیلئے کچھ لاؤ، وہ لڑکی ایک روٹی اور تھوڑا سا گھی لے کر حاضر ہوئی، پس ام ذرہ نے عرض کیا: کیا آپ نے جو مال آج تقسیم کیا ہے، اس میں سے ہمارے لیے ایک درہم کا گوشت نہیں خرید سکتی تھیں جس سے آج ہم افطارکرتے۔ عائشہ ؓنے فرمایا: اب میرے ساتھ اس لہجے میں بات نہ کر اگر اُس وقت (جب میں مال تقسیم کر رہی تھی) تو نے مجھے یاد کرایا ہوتا تو شاید میں ایسا کر لیتی۔(ابو نعیم فی حلیۃ الأولیاء، 47/2، وہناد فی الزہد337/1/ 338، والذہبی فی سیر أعلام النبلاء، 187/2، و ابن سعد فی الطبقات الکبری 8 (.67/(
اسلامی تاریخ میں کردار : حضرتِ سیدہ عائشہؓ نے اسلامی تاریخ کے کئی اہم واقعات میں کردار ادا کیا۔ ان میں سے ایک واقعہ جنگ جمل ہے، جہاں انہوں نے مسلمانوں کے درمیان صلح کی کوشش کی۔ ان کا یہ اقدام، اگرچہ متنازع تھا، لیکن اس سے ان کی نیت اور اسلامی اتحاد کے لیے کوششوں کا پتہ چلتا ہے۔
شخصیت کا اثر : سیدہ عائشہ ؓ کی شخصیت کا اثر ان کے معاصرین پر بھی نمایاں تھا۔ صحابہ کرامؓ ان کے علم و فضل کی قدر کرتے تھے اور ان سے مسائل کے حل کے لیے مشورے لیتے تھے۔ ان کی شخصیت کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت کے دوران ان کی رائے کو بہت اہمیت دی۔
اس مختصر سے مضمون میں سیدہ عائشہ ؓ کی زندگی کا ہر پہلو بیان کرنا ناممکن ہے۔حضرت عائشہ ؓ کی زندگی مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ ہے۔ ان کے فضائل و مناقب، علمی خدمات، اخلاقی صفات اور اسلامی تاریخ میں ان کی خدمات کی تفصیل سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اسلام میں مرد و عورت دونوں دین کی خدمت میں یکساں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کی شخصیت کی قدرو منزلت کے اعتراف کے ساتھ ہمیں ان کی تعلیمات اور عملی زندگی کو اپنی زندگیوں میں شامل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حضرت عائشہؓ کی شخصیت ہمارے لیے روشنی کا مینار ہے، جس کی روشنی میں ہم اپنی زندگیوں کو بہتر اور اسلام کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔
[email protected]