اچھے ، سنجیدہ اور باپ بن کرپڑھانے والے اساتذہ کو کبھی کبھی اپنے طالب علموں سے بڑا دکھ ، غم اور رنج پہنچتا ہے۔ان کی غیر سنجیدگی اور حصول علم میں ان کی بے رغبتی دیکھ کرسر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔نالائق تو نالائق کبھی کبھی لائق وفائق اور ذہین طلبہ بھی بہت مایوس کرتے ہیں۔ ان پر ان کے نالائق ساتھیوں کا رنگ چڑھ جاتا ہے اور وہ بھی اسی عیش وعشرت اور لاابالی پن کے شکار نظر آتے ہیں تو استاد کو بے انتہا رنج پہنچتا ہے۔
آج کل کے اس زمانے میں جب کہ کلاسیں بھی نہیں ہورہی ہیں۔ طلبہ کوکالج اور یونیورسٹی آنے جانے کی پریشانیوں کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑ رہا ہے۔گھر کے آرام دہ ماحول میں بیٹھ کر ہفتے میں دو چار کلاسیں اگر کرنے کو کہہ دیاجائے، کوئی اسائن منٹ دے دی جائے تو ان پر جیسے کوئی پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ بیشتر طلبہ کسی شوق اور جذبے سے عاری ہوتے ہیں۔ شتر مرغ کی طرح اپنا سر زمین میں گاڑ کر خالی خولی ڈگریوں کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔وہ یہ چاہتے ہیں کہ اگر ان کا کوئی بھی امتحان نہ لیا جائے۔ کلاس میں حاضر ہونے کو نہ کہا جائے۔ اسائن منٹ لکھنے کو نہ کہا جائے۔ پروجیکٹ پر دھیان دینے کو نہ کہاجائے تو بہت اچھا۔ ساتھ ہی اگر انہیں بغیر امتحان کے پروموٹ کردیا جائے۔ بغیر کسی محنت کے انہیں اچھے سے اچھے نمبرات سے پاس کردیا جائے اور پھر کسی ذہنی وجسمانی تکلیف برداشت کیے بغیرانہیں اچھی سی نوکری بھی دے دی جائے اور خاص طور سے ایسی نوکری جہاں دفتر جانا نہ پڑے اور اگر جانا پڑے تو کام نہ کرنا پڑے اور اگر کام کرنا ہی پڑے تو بس برائے نام تو یہ ان کے ساتھ احسان عظیم ہو۔ ایسے طلبہ ایسی خیالی دنیا میں جیتے ہیں جس کا کوئی وجود نہیں۔ ایسے جذبات سے سوچتے ہیں جوانہیں تباہی اور بربادی کے دہانے پر لے جاتا ہے۔
در اصل حصول علم کے لیے صبر اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو بچے چھ سات گھنٹہ مسلسل پڑھتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔ جو بچے کتابوں سے دوستی کرکے اپنے ذہن ودماغ کو علم وفن سے آراستہ کرتے ہیں وہ کامیابی کی شاہراہوں پر سفر کرتے ہیں۔ کامیابی بغیر علم کے ناممکن ہے۔ آج ہمارے بچے ذہین تو بہت ہیں مگر ان میں علم کے حصول کی رغبت ناپید ہے۔ وہ محنت ومشقت نہیں کرتے۔ پڑھتے ہی نہیں۔ ماں باپ بھاری فیس جمع کرکے ان کا داخلہ توکرواتے ہیں مگر وہ لا ابالی پن کا شکار ہوتے ہیں۔ اساتذہ کا ادب احترام انہیں معلوم نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد انہیں ڈگریاں اورنوکری سونے کی طشتری میں پروس دی جائیں۔
سچی بات یہ ہے کہ تمام کامیابیوں کی تاریخ جد وجہد ، محنت ومشقت کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔جو لوگ حصول علم میں محنت نہیں کرتے، حصول علم کی راہ میں پیش آنے والی صعوبتوںکو برداشت کرنے کا بوتا نہیں رکھتے۔ علم کے حصول میں عجلت سے کام لیتے ہیں۔ اساتذہ کا احترام دامن گیر نہیں رکھتے۔ ماں باپ کی فرمانبرداری نہیں کرتے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔
امام شافعی کا ایک واقعہ مجھے یاد آرہا ہے جو تمام طلبہ کے لیے مشعل راہ ہوسکتا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک مرتبہ امام احمد نے اپنے استاد امام شافعی کو شام کے کھانے کی دعوت دی۔ امام شافعی نے پیٹ بھر کرکھانا کھایا۔پھر امام احمد سونے چلے گئے۔ امام شافعی مشہور حدیث ’’یا ابا عمیر ما فعل النغیر‘‘ سے مسائل کے استنباط میں مصروف ہوگئے۔رات بھر اس حدیث میں وہ غور وفکر کرتے رہے ۔ کہاجاتا ہے کہ انہوں نے اس رات اس حدیث سے ایک ہزار سے زیادہ فوائد کا استخراج کیا۔فجر کی اذان ہوئی تو نماز پڑھ کر گھر چلے گئے۔ امام احمد امام شافعی کی تعریف کرنے لگے تو لوگوں نے کہاکہ آپ کیسے آدمی کی تعریف کررہے ہیں جس نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ اس کے بعد سوگیا، تہجد کے لیے بیدار نہیں ہوا۔اور پھر بغیر وضو کے فجر کی نماز پڑھی۔ امام شافعی سے پوچھاگیا تو انہوں نے کہاجہاں تک میرے کھانے کی بات ہے تو میں نے اس لیے بھرپیٹ کھایا کہ مجھے امام احمد بن حنبل کے کھانے سے زیادہ لذیذ کھاناکبھی ملا ہی نہیںلہذا میں نے پیٹ بھر کرکھایا۔ جہاں تک تہجد کی نماز کے لیے اٹھنے کی بات ہے تو میرے خیال میں حصول علم قیام اللیل سے زیادہ افضل ہے۔ جہاں تک میرے بغیر وضو نماز نہ پڑھنے کی بات ہے تو میںنے اس لیے وضو نہیں کیا کہ میں عشا ء سے لے کر فجر تک وضو سے تھا۔اس لیے گھر والوں کو وضو کے پانی کے لیے پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
طالب علم اور اہل علم ایسے ہوتے ہیں۔ رات دن وہ صرف اورصرف پڑھتے اور لکھتے رہتے ہیں۔ جو لوگ پڑھتے لکھتے نہیں۔ محنت نہیں کرتے وہ سرابوں میں تمناؤں کے گھوڑے دوڑاتے رہتے ہیں۔ایسے لوگ کبھی کامیابی کی شاہرائوں کے مسافر نہیں بن سکتے۔ اللہ سب کو توفیق سے نوازے۔ آمین
رابطہ۔صدر شعبۂ عربی / اردو / اسلامک اسٹڈیز بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
موبائل نمبر۔9086180380