حراستی گمشدگی کے شکارلخت جگر کی آمد کے طویل انتظار کے بعد

 سرینگر//حراستی گمشدگی کے شکار ہوئے اپنے لخت جگر کا 28برسوں تک طویل انتظار کرنے کے بعد چک کائوسہ نارہ بل کی رحتی بیگم بالآخر گذشتہ روز اس دنیا سے رخصت ہوگئیں ۔رحتی بیگم جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین کے ساتھ ہر وقت احتجاجی مظاہروں میں پیش پیش رہتی تھیں ۔بڈگام کے چک کاوسئہ نارہ بل علاقے سے تعلق رکھنی والی رحتی بیگم کے فرزندمحمد رمضان شیخ،جو کہ ایک ڈیلی ویجر تھا،کو فورسز نے 1990کے دوران گھر سے گرفتار کیالیکن اسکے بعد مذکورہ کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں ۔ رحتی بیگم نے اسی دن سے اپنے گمشدہ بیٹے کی تلاش کا سلسلہ شروع کیا،اور تمام فوجی و نیم فوجی کیمپوں کی خاک چھان ماری،تاہم محمد رمضان کا کوئی بھی سراغ حاصل نہیں ہوا۔لاپتہ ہوئے لوگوں کے لواحقین کی تنظیم پروینہ آہنگر نے اس سلسلے میں سماجی وئب سائٹ پر ایک پیغام میں کہاہے کہ مذکورہ انجمن کے1994میں قیام کے ساتھ ہی رحتی بیگم اس سے جڑ گئی تھی،اور وہ متحرک طور پر ماہانہ احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرتی تھی۔انسانی حقوق اداروں کے مطابق گزشتہ28برسوں کے دوران ریاست میں7ہزار کے قریب افرادکو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے جبکہ کئی ایک مائیں ان کا انتظار کرتی خاموش بھی ہوگئی۔ 2009میں مغل ماسی کا انتقال ہوااور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں وہ حسرت بھی دھری کی دھری رہ گئی ، کہ وہ اپنے لخت جگر کا دیدار ایک مرتبہ پھر کریںگی ۔ 5اکتوبر 2013کو ایک اور ماں حسینہ بیگم فوت ہوئیں ۔حسینہ کا الزام تھا کہ اسکے فرزند سید انور شاہ کو فورسز نے 21جولائی 2000کو سرینگر میں گرفتار کر کے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا ۔ سید انور کی نیم بیوہ اور والدہ حسینہ بیگم کے علاوہ اس کی بچی بھی گزشتہ 13برسوں سے ان کی تلاش میں ہے تاہم انہیں کوئی بھی پتہ نہیں بتایا گیا اور وہ اپنے بیٹے کو دیکھے بغیر چلی گئی ۔مہتابہ بیگم ساکنہ کری ہامہ کپوارہ کا معاملہ بھی اس سے جدا نہیں ہے کیونکہ وہ بھی اپنے بیٹے محمد یعقوب خان کی تلاش میں ناکام ہونے کے بعد موت کے اندھیروں میں کھو گئی جبکہ اس کے بیٹے کو مبینہ طور پر14اکتوبر 1990میں بی ایس ایف نے گرفتارکر کے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا ۔ شبیر حسین گاسی کو جنوری 2000میں گرفتار کرکے لاپتہ کیا گیا جبکہ ان کی والدہ مسرہ بیگم ساکنہ بوٹ مین کالونی بیٹے کی تلاش کی جدوجہد کے بعد اس دنیا سے چلی گئی۔ عابد حسین ڈار کی والدہ حمیدہ پروین کا بھی یہی حال ہوا جو سال 2012میں جاںبحق ہوئی ۔اسی طرح زونہ بیگم ، دلشادہ اور حلیمہ بیگم بھی اپنے لخت جگروں کی تلاش کے بعد دلوں میں حسرتیں لئے دنیا سے کوچ کر گئیں۔گمشدہ افراد کے لواحقین کی تنظیم’’ائے پی ڈی پی‘‘ کی سربراہ پروینہ آہنگر،جن کا اپنا فرزند بھی دوران حراست لاپتہ ہواتھا،کا کہنا ہے ’’ جس ماں کی گود سے جگر گوشہ چھین لیا گیا اس کے دل پر داغ جدائی انمٹ ہے‘‘۔سماجی وئب سائٹ فیس بک پر پروینہ آہنگر نے رحتی بیگم کو انکی انجمن کا ٹرسٹی قرار دیتے ہوئے کہا’’انکے مشن کو پائے تکمیل تک پہنچایا جائے گا‘‘۔