حد متارکہ پر کشیدگی

 منقسم جموں و کشمیر کو آپس میں تقسیم کرنے والی سرحد جسے حد متارکہ بھی کہاجاتاہے ، پر ہندپاک افواج میں ایسے وقت میں کشیدگی بڑھتی جارہی ہے جب وادی کشمیر کے اندر حالات انتہائی خراب ہیں ۔ہمیشہ سے ہندوپاک افواج کے درمیان میدان جنگ بنی رہنے والی اس خونی لکیرپرحالیہ کچھ دنوں سے کشیدگی میں کافی اضافہ ہوا ہےاور طرفین کی  فائرنگ اور گولہ باری سے راجوری اور پونچھ کے سیکٹروں میں دونوںجانب بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے،جس کی وجہ سے لوگوں کی املاک کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔کچھ عرصہ قبل ہی چکاں داباغ پونچھ میں واقع ٹریڈ سنٹر کی عمارت کو بھی گولہ باری سے نقصان پہنچاتھا ۔فی الوقت صورتحال اس قدر کشیدہ بنی ہوئی ہے نوشہرہ سیکٹر میں کم از کم پندرہ سکولوں کو بند کردیاگیاہے جبکہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے لگے ہیں ۔ 2016میں بھی دونوں ممالک کی افواج کے درمیان شدید کشیدگی دیکھی گئی اور حد متارکہ کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سرحد پر بھی کئی ماہ تک مسلسل فائرنگ اور گولہ باری ہوتی رہی جس کے نتیجہ میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی اور آرپارکئی لوگوں کی جانیں بھی چلی گئیں ۔اس کشیدگی کی وجہ سے نہ صرف فوجی اہلکا ر مرتے ہیں بلکہ عام شہریوں کی جانیں بھی تلف ہوتی ہیں اور انہیںاس قدر مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے کہ جسے بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔سرحد پر مقیم آبادی کو نہ دن میں سکون نصیب ہوتاہے اور نہ ہی رات کو چین ۔یہ لوگ بندوق کی گولیوں اور مارٹرشیلوں کے خوف سے یاتو گھروں میں محصور ہوکر رہ جاتے ہیں یاپھر گھرہی چھوڑنے کیلئے مجبور ہوتے ہیں ۔اس طرح کی صورتحال کا انہیں ہر سال سامنارہتاہے اور ان کی زندگی سکون سے کم اور  بدامنی میں زیادہ گزرتی ہے ۔پچھلے سال ہی کی طرح اس سال بھی یہ سلسلہ آغاز بہار کے ساتھ ہی شروع ہوگیاہے ،اس پر طرہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے آپسی تعلقات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں اور بات چیت کے سبھی دروازے فی الوقت بند کردیئے گئے ہیں ۔بھارت وپاکستان کے درمیان تعلقات کی خوشگواری سے جموںوکشمیر کے لوگوں کی زندگیاں وابستہ ہیں اور جب بھی دونوں میں کشیدگی بڑھ جاتی ہے تو ریاست خاص کر سرحد ی آبادی کا جینا حرام ہوجاتاہے ۔موجودہ صورتحال کسی بھی فریق کے لئے سود مند نہیں ہے ۔ کیونکہ دونوں ممالک کشیدگی کے دبائو میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کےلئے  اپنے قیمتی وسائل کا بے دریغ زیاں کرکے اپنے عوام کو مشکلات میں ڈال رہے ہیں، نیز اس کشیدگی کے ماحول میں دونوں ملکوں کے اندر مفاد خصوصی کے حامل فریقین کو اپنی روٹیاں سینکنے کا موقع ملتا ہے، جس سے بھارت اور پاکستان کی حکومتیں ہمیشہ دبائو میں رہنے کی وجہ سے کوئی بلند سمت قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں رہتیں۔ عالمی سطح پر یہ  سوچ دن بہ دن پختہ ہو رہی ہے کہ جنگ وجدل کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے اور ہر ایک مسئلے کا حل مذاکرات میں ہی مضمر ہے۔ ایسے حالات میں ہند وپاک سیاسی قیادت کو چائے کہ وہ مخاصمت کی راہ ترک کرکے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کریں تاکہ نہ صرف ریاست جموںوکشمیر بلکہ پورے برصغیر میں امن کی راہ ہموار ہوسکے۔ کیونکہ بصورت دیگر دونوں ممالک کے غریب عوام خاص کر ریاست جموںوکشمیر ک لوگ مصائب کی چکی میں پستے رہینگے۔ جیسا کہ فی الوقت وادی کشمیر میں دیکھنے کو مل رہا ۔ ہر گلی میں نوجوانوں کے جنازے اُٹھنے سے کن حلقوں کے مفادات کی تکمیل ہوتی ہے،  اس پر کھلے لفظوں میں با ت کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹکرائو زدہ علاقوں میں مدام تصادم آرائیاں دنیا کی اُس صنعتِ جنگ کے لئے مفید اور مطلب بر آہیں،  جسکے اشاروں پر دنیا کی حکومتیں اور مملکتی ادارے ناچتے ہیں۔ نتیجتاً عام لوگوں کو مصائب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ برصغیر ہند کے بٹوارے سے چلے آرہے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے دونوں مملکتیں کیوں ناکام رہی ہیں، اس پر دونوں ممالک کے سنجیدہ فکر طبقے کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ خاص کر برصغیر میں ایسی رائے عامہ ہموار ہونی چاہئے، جو دونوں مملکتوں کو امن کی راہ اختیا رکرنے پر آمادہ کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر جاری موجود ہ کشیدگی کو ختم کرنے کےلئے بھارت اور پاکستان میں براہ راست مسئلہ کشمیر کے مختلف فریقین کے ساتھ مذاکرات کی راہیں استوار کرنا وقت کا اہم ترین تقاضاہے، جس پر کم وبیش سبھی  حلقوں کا اتفاق تو ہے مگر  عملی طور پر پہل کرنے میں ہچکچاہٹ  دکھائی جا رہی ہے  جو انتہائی بدقسمتی ہے، خاص کر جموںوکشمیر کے عوام کےلئے۔