حد بندی کمیشن رپورٹ جاری

بلال فرقانی
سرینگر//جموں و کشمیر حد بندی کمیشن نے جمعرات کو اپنی حتمی رپورٹ پر مہر ثبت کر کے اسے جاری کردیا۔ رپورٹ میں کشمیری تارکین وطن اور پاکستانی رفیوجیوںکے لیے اضافی نشستوں کی سفارش کی ہے۔حد بندی کمیشن کی سربراہی سپریم کورٹ کی ریٹائرڈ جج جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی نے جموں و کشمیر کے حد بندی آرڈر کو حتمی شکل دینے کے لیے آج میٹنگ کی۔ اس کے لیے گزٹ نوٹیفکیشن بھی شائع کر دیا گیا ہے اور یہ حکم مرکزی حکومت کے اعلان کردہ تاریخ سے نافذ العمل ہوگا۔حتمی حد بندی آرڈر کے مطابق، مرکز کے زیر انتظام علاقے کے 90 اسمبلی حلقوں میں سے 43 جموں اور 47 کشمیر کے علاقے کا حصہ ہوں گے۔پہلی بار درج فہرست قبائل (STs) کے لیے نو نشستیں محفوظ کی گئی ہیں۔ چھ جموں خطہ میں اور تین وادی کشمیر میں۔ درج فہرست ذاتوں کے لیے 7 نشستیں محفوظ کی گئی ہیں۔  حدبندی ایکٹ2002اورجموں وکشمیر تنظیم نوایکٹ2019کی مختلف شقوںکاحوالہ دیتے ہوئے 17صفحات پرمشتمل ڈرافٹ رپورٹ کوحتمی شکل دی گئی ہے اوراس سلسلے میں جمعرات کوباضابطہ پورپر ایک نوٹیفکیشن اورآرڈر جاری کردیاگیا ہے۔جوائنٹ چیف الیکٹورل آفیسر جموں وکشمیر انیل سلگوترہ کی جانب سے اجراء کردہ جموں وکشمیر حدبندی حتمی مسودہ رپورٹ پرکمیشن کی چیئرپرسن رنجنا پرکاش ڈیسائی ،چیف الیکشن کمیشنر آف انڈیا سوشیل چندرا اوراسٹیٹ الیکشن کمیشنر کیول کمار شرما کے دستخط موجود ہیں جبکہ کمیشن کے دیگرممبران میں ڈپٹی الیکشن کمیشنرچندربھوشن کمار اورچیف الیکٹورل افسرہردیش کماربھی شامل ہیں۔5 رُکنی حدبندی کمیشن جس کاقیام6نومبر2020میں عمل میں لایاگیاتھا،میں جموں وکشمیر کے پانچ ارکان لوک سبھا کوبطورایسوسی ایٹ ممبران کے شامل کیاگیا،اورمختلف میٹنگوںمیں ان ارکان پارلیمان سے تجاویز اوراعتراضات بھی طلب کئے گئے ،تاہم متعلقہ ایسوسی ایٹ ممبران خاص طورپر کشمیرکے نیشنل کانفرنس سے وابستہ تین ارکان ڈاکٹر فاروق ،حسنین مسعودی اورمحمداکبر لون کی جانب سے پیش کردہ تقریباًکسی بھی اعتراض یاتجویز کوکمیشن نے خاطر میں نہیں لایا۔

اب یہ رپورٹ مرکزی وزارت قانون کوپیش کی جائیگی ،جو قانونی اوردیگر متعلقہ معاملات کاجائزہ لینے کے بعد اس پراپنی مہر ثبت کرے گی ۔کمیشن ھٰذا نے ایسوسی ایٹ ممبران کیساتھ نئی دہلی میں دومرتبہ میٹنگیں کیں جبکہ 4 اور5 اپریل2022کوبالترتیب جموں اورسری نگرمیںمختلف سیاسی وغیرسیاسی وفود کیساتھ ملاقاتیں کیں ۔تقریباً200وفود نے کمیشن کواپنی تجاویز اوراعتراضات سے روشنا س کرایا۔جموں وکشمیر سے متعلق حدبندی کمیشن نے اپنی عبوری رپورٹ میں جموں وکشمیر میں اسمبلی حلقوںکی تعداد83سے بڑھاکر90کرنے کی تجویز دی ،اس طرح  7اسمبلی حلقوں کااضافہ کیاگیا ،جن میں سے 6نئے اسمبلی حلقے صوبہ جموں میں معرض وجودمیں لانے کی سفارش کی گئی اورکشمیروادی میں ضلع کپوارہ کے ترہگام علاقہ کونیا اسمبلی حلقہ بنایاگیا۔کمیشن کی تجویز کردہ سات نئے اسمبلی حلقوں کے بعدکشمیروادی میں اسمبلی حلقوںکی تعداد46سے بڑھ47اور صوبہ جموں میں37سے بڑھ کر43ہوجائیگی ۔کشمیروادی میں تین اسمبلی حلقوں گریز ،کنگن اورکوکرناگ کودرجہ فہرست قبائل کیلئے مخصوص رکھاگیاہے جبکہ صوبہ جموںمیں گلاب گڑھ،رجوری ،بدھل ،تھنہ منڈی ،سرنکوٹ اورمینڈھر کی اسمبلی نشستوں کودرجہ فہرست قبائل کیلئے مخصوص رکھے جانے کے علاوہ اکھنور،مڑھ جموں،سچیت گڑھ ،بشناہ،رام گڑھ ،کٹھوعہ ،اوررام نگر اسمبلی حلقوںکودرجہ فہرست ذاتوں کیلئے مخصوص رکھنے کی تجویزدی گئی ہے ۔

یوںکل16اسمبلی حلقے درجہ فہرست ذاتوں وقبائل کیلئے مخصوص ہونگے ۔حدبندی کمیشن نے اپنے حتمی مسودہ رپورٹ میں لالچوک سمیت کئی نئے اسمبلی حلقوں کا نام تبدیل کیا ہے۔حد بندی کمیشن کے پریس بیان کے مطابق، کچھ اسمبلی حلقوں کے نام مقامی نمائندوں کے مطالبے کے مطابق تبدیل کیے گئے ہیں جیسے ٹنگمرگ کوبطور گلمرگ، زونی مرکوبطورزڈی بل سرینگروغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ لالچوک کا حلقہ اب سونہ وار کاحلقہ انتخاب کہلائے گا۔ ۔حدبندی کمیشن نے جموں وکشمیر کے پانچ پارلیمانی یعنی لوک سبھا حلقوںکی سرنو حدبندی بھی کی ہے اورساتھ ہی کشمیروادی اورجموں صوبے کواڑھائی اڑھائی پارلیمانی سیٹیں دی گئی ہیں ،کیونکہ اننت ناگ پارلیمانی حلقے کونصف درجن علاقوںکوسرینگرپارلیمانی نشست کیساتھ جوڑ کر راجوری اورپونچھ اضلاع کے کئی اسمبلی حلقوںکواننت ناگ پارلیمانی سیٹ کیساتھ ملایاگیاہے ۔حد بندی کمیشن نے کہا کہ کشمیری تارکین وطن کے وفود نے کمیشن کے سامنے یاداشت پیش کی کہ انہیں گزشتہ تین دہائیوں سے اپنے ہی ملک میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے ستایا گیا اور جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں، حد بندی کمیشن نے اسمبلی میں کشمیری تارکین وطن کی کمیونٹی سے ایک خاتون سمیت کم از کم 2  نشستوں کی سفارش کی ہے، جن کے پاس پڈوچیری اسمبلی کے نامزد اراکین کے برابر اختیارات ہونگے۔بیان کے مطابق حد بندی کمیشن نے سفارش کی کہ مرکز  1947کے پاکستانی  رفیوجیوں کیلئے بھی جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں نمائندگی دینے پر غور کر سکتا ہے۔