پنچایتی و بلدیاتی انتخابات بعد میں، ریاستی درجہ بحالی مناسب وقت پر:لیفٹیننٹ گورنر
سرینگر// جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ منوج سنہا نے پیر کو کہا کہ جموں و کشمیر میں جلد از جلد اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں اورالیکشن کمیشن تاریخوں کا فیصلہ کرے گا۔ لیفٹیننٹ گورنر نے انڈین ایکسپریس کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ الیکشن ہونے ہیں۔ جب پارلیمنٹ میں جموں و کشمیر تنظیمِ نو ایکٹ پاس ہوا تو وزیر داخلہ نے تین مخصوص باتیں کہی تھیں پہلے حد بندی۔ لوگ اکثر سیاسی الفاظ میں اس کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حلقہ بندیوں کے بغیر انتخابات نہیں ہو سکتے۔ سرحد کا تعین کون کرے گا؟ جموں و کشمیر حکومت نہیں کر سکتی۔ اور یہ ایک طویل عمل ہے، جس میں سٹیک ہولڈرز کی مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں حد بندی کمیشن تین بار جموں و کشمیر آیا۔ سیاسی جماعتوں نے بھی دہلی میں کمیشن سے ملاقات کی اور حدبندی کی حتمی رپورٹ شائع کر دی۔ اْنہوں نے کہا کہ وزیرِ داخلہ نے لوک سبھا میں حدبندی کے بعد اسمبلی انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا، الیکشن کمیشن اب یوٹی کا دورہ کر رہا ہے۔ جب وزیر اعظم یہاں تھے تو انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جلد از جلد انتخابات ہوں گے۔ الیکشن کمیشن تاریخوں کا فیصلہ کرے گا۔
انتخابات پر کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ لوک سبھا میں وزیرِ داخلہ نے تیسرا وعدہ ریاستی درجہ کی بحالی کا کیا تھا۔ حکومت مناسب وقت پر اپنا وعدہ پورا کرے گی اور ریاستی درجہ کی بحالی عمل میں لائی جائے گی۔ ایک اور سوال کہ شہری بلدیاتی اداروں اور پنچایتوں کے انتخابات کے بارے میں کیا خیال ہے؟، لیفٹیننٹ گورنر نے کہا’’ ہم نے تین درجے کا نظام نافذ کیا اور اسے مختصر وقت میں بااختیار بنایا۔ ضلع ترقیاتی کونسلز اور بلاک ڈولپمنٹ کونسل کا ضلع کیپیکس پلان بنانے میں اہم کردار ہے۔ ڈی ڈی سی کے لیے انتخابات2020 کے آخر میں منعقد کیے گئے تھے۔ جموں کے ساتھ ساتھ کشمیر کے تمام اضلاع میں ڈی ڈی سی کونسلرز موجود ہیں۔ لیکن پنچ اور شہری بلدیاتی اداروں کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔ یہاں او بی سی کے لیے کوئی ریزرویشن نہیں تھا۔ جموں و کشمیر تنظیمِ نو ایکٹ کے بعد بہت سے او بی سی اور ایس ٹی کو ریزرویشن ملا ہے۔ مخصوص نشستوں کے بارے میں بہت سی نمائندگییں تھیں جنہیں ریزرو کرنے کی ضرورت تھی۔ ہمیں اسے حل کرنا تھا”۔ ایل جی نے مزید کہا کہ لوک سبھا انتخابات سے ایک ماہ قبل، ایک ریٹائرڈ جج کمیٹی قائم کی گئی تھی تاکہ ان سیٹوں کی نشاندہی کی جا سکے جنہیں ریزرو کیا جانا چاہیے، اس لئے اسمبلی انتخابات کے فوراً بعد پنچایتوں اور بلدیاتی اداروں کے انتخابات بھی کرائے جائیں گے۔منوج سنہا نے کہاکہ عوام آزاد ہیں کہ وہ جسے چاہیں منتخب کریں۔انہوںنے یہ بھی کہاکہ ’منتخب حکومت کے پاس بہت سے اختیارات ہوں گے،اگر آپ آئین کے مطابق کام کریں گے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا‘۔ایل جی نے کہاکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت یعنی سپریم کورٹ نے دفعہ370 پر فیصلہ سنایا ہے، اب قانونی چھان بین کی کوئی گنجائش نہیں ہے، دفعہ370پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور ملکی قانون کیخلاف جانا منتخب حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔لیفٹنٹ گورنر نے یقین دہانی کرائی کہ ہماچل پردیش اور اتراکھنڈکی طرح ہی جموں وکشمیرمیں بھی زمین اورمقامی لوگوں کیلئے ملازمتوں کو مکمل قانونی تحفظ حاصل ہے تاہم ساتھ ہی کہاکہ صنعتوں کے علاوہ کسی کو زمین نہیں دی گئی۔ اگر حکومت ہند سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کو دفتر بنانے کے لئے زمین کی ضرورت ہے تو انہیں زمین الاٹ کرنا ہمارا دھرم ہے۔ منوج سنہا کاکہناتھاکہ جہاں تک سیکورٹی کا تعلق ہے تو صورتحال کافی بہتر ہے۔ پچھلے سال سے ڈیڑھ سال کے دوران جموں میں کچھ واقعات ہوئے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس اس سے نمٹنے کے لئے ایک حکمت عملی موجود ہے۔انہوںنے کہاکہ تاہم، اگر آپ مجموعی تعداد پر نظر ڈالیں جیسے عام شہریوں، یا سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکتیں، اس میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ کشمیر ڈویڑن میں خاص طور پر، تقریباً تمام سرکردہ ملی ٹنٹ کمانڈروں کو سیکورٹی فورسز نے ختم کر دیا ہے۔ (مقامی ملی ٹنسی کی) بھرتی بھی اپنی کم ترین سطح پر ہے۔ مودی حکومت کی زیرو ٹالرینس کی پالیسی اپنی جگہ پر ہے۔لیفٹیننٹ گورنر نے تاہم ساتھ ہی کہاکہ ہمارا پڑوسی(پاکستان)جموں وکشمیرمیں امن، سکون اور ترقی اور لوک سبھا انتخابات کے کامیاب انعقاد کو ہضم کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے اپنے اندرونی مسائل بھی ہیں۔ اس لیے، یہ پچھلے 12سے18 مہینوں میں جموں کے علاقے کو پریشان کرنے کی سرگرمی سے کوشش کر رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ سرحدپار سے تربیت یافتہ عسکریت پسند بھیجے جا رہے ہیں۔ پچھلے2سے3مہینوں میں چند افسوسناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔ جموں میں امن کے پھیلاؤ کی وجہ سے فوجیوں کو منتقل کیا گیا تھا۔ اعلیٰ سطح پر، وزیر داخلہ کی صدارت میں ہونے والی میٹنگوں میں، یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اضافی پولیس، سی آر پی ایف اور فوج کے دستوں کی مناسب جگہوں پر تعیناتی کو تیز کیا جائے۔