حئی علی ا لصلوٰۃ

میں میں جموں سے دہلی کے لئے ہوائی جہاز میں سفر کر رہا تھا کہ اُڑان بھرنے کے تھوڑی دیر بعد جہاز کے کپتان نے اعلان کیا کہ’’ جہاز میںایک حاملہ خاتون کو شدید پیٹ درد ہو رہا ہے اور اگر کوئی ڈاکٹر موجود ہو تو وہ برائے مہربانی اس اکیلی خاتون کی مدد کرے۔‘‘ وہ جھٹ سے اپنی سیٹ سے اُٹھ کر خاتون کے پاس گیا۔خاتون دردِزہ میں مبتلا تھی،اس نے مریضہ کو تسلی دی اور کہا’’ صبر۔۔۔میں اور جہاز کا عملہ خاص کر ائرہوسٹس آپ کی ہر طرح کی مدد کریں گے،اگرڈیلیوری بھی کرنی ہو تو یہ بھی کوئی مشکل نہیں،مگرکس ڈاکٹر نے اس حالت میں جہاز کا سفر کرنے کی اجازت دی؟ خیر!کوئی بات نہیں،آپ بالکل بھی پریشان نہ ہوں۔‘‘
  اس نے ائر ہوسٹس کی مدد سے پردے کا انتظام کرایا۔خاتون کسی قدر پردہ میں تھی۔اُسے یہ دیکھ کر بڑی مسّرت ہوئی کہ آج جب بے حجابی عام ہے، جموں سے دہلی جانے والی یہ مہیلا جہا ز میں بھی باپردہ تھی ۔رہنے والی راجستھان کی تھی جموں میں بیاہی گئی تھی۔یہ اپنے حساب سے ڈیلیوری کے لئے اپنے میکے جا رہی تھی۔خاتون نے بتایا ’’جموں کی لیڈی ڈاکٹرنے اجازت دی تھی کہ ابھی بچہ ہونے میں پندرہ سولہ دن ہیں،آرام سے جہاز کا سفر کر سکتی ہو، ایک گھنٹہ کی ہی تو بات ہے۔‘‘
 اس نے خاتون سے اتنی ساری باتیں صر ف اس کا دھیان ہٹانے کے لئے کیں اور مہیلا اس کے ساتھ گھل مل گئی۔اللہ کی مہربانی سے پیارا سابچہ جنم پاگیا۔ ا س نے ایک شیشے کی بوتل توڑ کراس سے ناڑو کاٹا ،دھاگے سے اچھی طرح باندھا۔ مالک کے فضل سے ماں بیٹا دونوںصحیح سلامت تھے۔ اس کا غالب گمان تھا کہ خاتون مسلمان ہے کیونکہ پردہ میں تھی ۔ماتھے پر کوئی بندیا وغیرہ نہ تھی، اس لئے اُس نے بچہ پیدا ہوتے ہی اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میںاقامت پڑھی۔کچھ ہی دیر میں جہاز دہلی ائر پورٹ پر اُترنے کی تیاری کرنے لگا۔کپتان نے ائرپورٹ کے گراؤنڈ سٹاف کو ایمبولینس کا انتظام کرنے اور خاتون کوریسیو کر نے والوں کو مطلع کر نے کو کہا۔ اس نے خاتون کا نام انیتا بتایا۔اعلان سنتے ہی وہ پریشان ہوا کیونکہ اب اُسے پتہ چلا یہ خاتون ہندو تھی جسے اس نے مسلمان سمجھ کر ننھے فرشتے کے کان میں اذان دی تکبیر پڑھی ۔اس سے یہ چوک ا س لئے ہوئی کیونکہ خاتون پردے میں تھی ۔ راجستھان میں اب بھی گائوں کی مہیلائیں پردہ کرتی ہیں۔اس کے ماتھے پر بندیا اور ہاتھوں میں چوڑیاں نہ تھیں ، بعد میں اُسے پتہ چلا کہ اس کا خاوند کوئی چھ ماہ قبل حادثے میں جاں بحق ہوا تھا۔ جہاز لینڈ ہوا توخاتون کے عزیز واقارب اُس کو لینے آئے تھے، وہ بڑے پریشان لگتے تھے ، مگر جونہی ان کی نظریں ننھے فرشتے سے چار ہوئیں تو چہرے سے ٹپک رہی پریشانی کی جگہ اُن آنکھوں میں خوشی کی چمک کوند گئی۔۔۔ ’’بٹیا بدائی ہو بدائی ، چھوراجنما ہے ‘‘ نوزائیدہ بچے کی پہلی جھلک دیکھ کر ہی وہ چلّا اُٹھے ۔
     اس نے جلدی جلدی دہلی ہسپتال کے لئے ریفرل رقعہ لکھا کیونکہ ڈیلیوری صاف ستھرے ماحول میں نہیں ہوئی تھی،مریضہ کو انٹی بائٹک دوائیوں اور ڈریسنگ کی اشدضرورت تھی، نسخہ اُن کے پھولے نہ سمانے والوں کے حوالے کر تے ہوئے اس نے اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کر نے کے لئے اُن سے اذان اور تکبیر کا صاف صاف ذکر کیا اور اپنی غلطی کا اصل سبب بھی تبایا ۔ شاید اس کی نادانستہ غلطی پر انہیں کوئی خفگی نہ تھی بلکہ اُس سے نام پتہ پوچھا ، اس نے اپنا نام ڈاکٹر چراغ الدین فزیشن، جموں بتایا اور ان سے رخصت ہوا۔ قبل ا زیں جہاز سے اُترتے وقت فضائی عملے اور کئی مسافروں نے اس کی بڑی تعریفیں کیں ،کئی لوگوں نے تو اس کے ہاتھ اور ماتھے کو چوما،بات آئی گئی۔
  اس بچے کا نام دیپک رکھا گیا ۔دیپک کی ماں ڈاکٹر چراغ الدین کی ہمدردی اورانسانی جذبے سے بہت متاثر تھی، اس نے کہا’’ ٹھیک ہے دیپک نام مگر میں اس کو چراغ دین ہی کہوں گی، دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔‘‘ نہ جانے اسکول میں دیپک زیادہ تر مسلمان بچوں کی صحبت میں کیوںرہتا تھا ۔وہ شلوار قمیض اور ٹوپی پہننے کی بچگانہ ضد بھی کرتا ،گھر میں کوئی رشتہ داریا جان پہچان والا آتا تو ۱ ُسے سلام علیکم کہتا ۔ بسم ا ﷲ، الحمداﷲ ان شاء اﷲ کلمات اس کا تکیہ کلام تھے ۔کبھی کبھار گھر والوں کو اس کی یہ حرکتیں پسند نہ آتیں مگر پھر جہاز کا پورا واقعہ صدائے بازگشت بن کر ان کا غصہ ٹھنڈا کر دیتا ۔ دیپک کی ماں صفائیاں دیتی’’ یہ اس کی غلطی نہیںہے۔ بھگوان نے یہ اُپہار مجھے جہاز میں ڈاکٹر چراغ دین کے ہاتھوں سو نپ دیا تھا ‘‘۔
   وقت گُذرتا گیا ، دیپک اسکول سے کالج پھر وہاں سے پاس ہو کر MBA کر گیا ،وہ کافی ذہین ثابت ہوا ۔ ڈگری کے فوراًبعداُسے دہلی کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھی خاصی نوکری ملی۔وہ جب بھی جہاز میں سفر کرتا ،اس کا دل چاہتا کاش!اُڑان کے دوران کسی کو میری کوئی ضرورت آن پڑے اور پھر جونہی کسی کو مدددرکار ہوتی تو دیپک فٹ سے اُٹھ کر اُس کی مدد کو جاتا۔اس سے دیپک کے دل کو ایک عجیب سکون ملتا ۔ شایدڈاکٹر چراغ دین کا کچھ اثر طبیعت میں رَچ بس گیا تھا۔
ایک دن وہ موقعہ آہی گیا جب ایک بچہ پیٹ درد کی وجہ سے زار و قطار رو رہا تھا ،سارا جہاز سر پر اُٹھا یا تھا ۔اعلان ہوا کہ کوئی ڈاکٹر مدد کو آئے ۔ دیپک ڈاکٹر نہ تھا مگر اس نے بچے کو گود میں لیا، اس کی اُلٹیاں اور پا خانہ صاف کیا ۔کسی مسافر نے امرت دھارا کی شیشی دی ، ایک آدھ بوند اس کے منہ میں ٹپکائی،بچے کے پیٹ کو سہلا یا ،گلوکوز کا پانی پلایا۔پیٹ پر نیم گرم ربڑ کی بوتل رکھی، بچے کو کسی قدر آرام ملا۔دہلی ائر پورٹ پر لینڈ کر نے سے پہلے بچہ سو گیا تھا ،کچھ تو دیپک کے فسٹ ایڈ کا اثر تھا اور کچھ رونے دھونے سے نڈ ھال ہونے کاثمرہ تھا۔ جب دیپک جہاز سے اُترا تو فضائی عملے نے، مسافروں نے، بچے کی ماں نے ، اُن کو لینے آئے رشتہ داروں نے سب نے ایک ایک کر کے دیپک کاشکریہ ادا کیا ، نام پتہ پوچھا :کہاں کے رہنے والے ہو؟ دہلی یا جموں؟ کس ہسپتال میں ڈیوٹی ہے؟جب دیپک نے کہا ’’میں ڈاکٹر نہیں ہوں ،میں نے MBA کیا ہے ۔گوڑگائوں میں ملٹی نیشنل کمپنی میں منیجر ہوں ۔ایک بڑھیا نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا:’’ یہ تمہارے سنسکار تمہارے والدین نے دئے ہیں، وہ اس کے لئے مبارک باد کے حقدار ہیں ،ورنہ آج کل کا تو خُدا ہی حافظ ہے۔‘‘
 یہ سب سننے کے بعد دیپک نے ان سے کہا کہ ’’میرا نام دیپک ہے مگر میری ماں مجھ کو چراغ دین کہتی ہے ۔‘‘ پھر اس نے ان کو اپنی جہاز میں ڈیلیوری کی پوری کہانی سنائی ۔ ’’ڈیلیوری جس ڈاکٹر نے کی تھی اس کا نام ڈاکٹرچراغ الدین تھا، میری ماتاجی مجھ کو چراغ دین کے نام سے ہپی پکارتی ہے ، وہ کہتی ہے اسی کی وجہ سے ہم دونوں بچ گئے تھے۔ ماتا جی کہتی ہے کہ ڈاکٹر چراغ دین نے پیدائش کے بعد میرے کانوں میں اذان اور تکبیر سنائی ،یہ اُنہی کلمات کا تا حیات اثر ہے کہ میں چراغ الدین کی انسانیت کی صدائے بازگشت اپنے رگ وپئے میں سنتا رہتاہوں ، زمین پر بھی فضا میں بھی‘‘ ۔
8825051001