جنگ کا جن بوتل میں بند

یہ  سطور لکھنے سے قبل ہی دنیا کوانڈو پاک تناؤ ، کشیدگی اور جنگی جنون ودیوانگی کے باوصف دو امیدافزاء خبریں سننے کو ملیں ۔ایک یہ خبر کہ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت کر تارپور کاریڈور پر  modalities حتمی طور طے کر نے کے لئے بھارت اور پاکستان کے نمائندے ۱۴؍ مارچ کو گفت وشنید کی میز پر آمنے سامنے بیٹھیں گے ۔ دوسری خبر یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے سفیر واپس اپنے اپنے سفارت خانے میں دوبارہ جوائین کر ر ہے ہیں ۔ یہ مثبت اشارے ہیں کہ آر پار کی حکومتوں کا پارہ نیچے آرہاہے۔ شاید اب انہیں ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہونے کی بھاری قیمت یا جنگ چھیڑنے کے خوف ناک نتائج نے چونکادیا ہے ،اس لئے یہ بتدریج کشیدہ حا لات کو ایک نئی طرح دے کر معاملات ٹھنڈا کر رہے ہیں تاکہ برصغیر کو ایک اورجنگ سے بچایا جاسکے۔ یہ احساس ِ ذمہ داری ہے جس کی آج کی تاریخ میں دونوں طرف اشد ضرورت ہے ۔ اس میں رتی بھر بھی شک نہیںہوناچاہیے کہ جوہری طاقت سے لیس دو ہمسایہ ملکوں میں کسی بھی وجہ سے وار ہسٹریا پیدا ہونا اور اس آگ کو نہ بجھانا پورے عالم کے لئے قرب ِقیامت کا ہم معنی ہے۔ یاد رہے۱۴؍فروری کو ہنگامہ خیز پلوامہ میں ہوئے خود کش حملے نے دونوں ملکوں کو جنگ کے بہت قریب لایا مگر کسی کی کوشش یا کسی کی دعا رنگ لائی کہ جنگ کا خطرہ فی الحال ٹل گیا۔پلوامہ واقعہ کے معاً بعد اور چیزوں کے علاوہ پہلے انڈیا نے اسلام آباد سے اپنے سفیر کو ’’مشاورت‘‘ کے لئے واپس وطن بلالیا تھا ۔ اس کے ردعمل میں پاکستان نے بھی دلی میں اپنے ہائی کمشنر کو اسلام آباد ’’مشاورت‘‘ کے لئے طلب کیا تھا لیکن اب دونوں سفیر اپنے دفاتر کا رُخ کر رہے ہیں ، یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ بہر کیف اس پیش رفت سے عوام کو یہ صحت مند پیغام ملاہے کہ خدا خدا کرکے کفر ٹوٹ گیا یعنی چوتھی ہند پاک جنگ ٹل گئی ۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں جانب بری فوج، فضائیہ اور بحریہ اس وقت بھی سینہ تانے حالت ِجنگ میں چوکنا ہیں اور ان کو مسلسل ہدایات دی جارہی ہیں کہ کسی بھی ممکنہ eventualitiesکے لئے تیار رہیں ۔
 برصغیر میں فروری کے وسط سے لے کر یکم مارچ تک سنسنی خیز حالات کے موقلم نے یکایک دنیا کے سامنے کئی تہلکہ آمیزتصویر یں کھینچ لیں۔ پہلی تصویر ۱۴؍فرروی کو جنوبی کشمیر پلوامہ میں فدائی حملے کی خون آشامی پر مبنی تھی۔دوسری تصویر ۲۶ ؍ فروری کو دلی کی جانب سے خیبر پختونخواہ کے بالاکوٹ علاقہ میں ائر سٹرائیک کو اجاگر کر تی تھی ، تیسری تصویر۲۷؍ فروری کوا سلام آباد کی جوابی فضائی کارروائی کی داستان سرائی کر گئی۔ چوتھی تصویر نے دکھایا کہ کس طرح دلی کا ایک جنگی طیارہ مگ ۔ ۲۱ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں گر گیا اورونگ کمانڈر ابھی نندن زندہ حالت میں پاکستانی فوج کے ہاتھ گرفتارہوا ، پانچویں تصویر نے وسطی کشمیر کے گاؤںدریندر بڈگام میں انڈین فورس  کے ایک اور طیارے کوگر کر تباہ ہونے اور سات افراد کا موقع پر ہی لقمہ ٔ اجل بن جانے کا مرقع دکھلایا۔  چھٹی تصویر گر فتار شدہ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو وزیراعظم پاکستان عمران خان کی ہدایت پر واہگہ سرحد پر رہا کر کے ہندوستانی حکام کے حوالے کر نے سے تعلق رکھتی ہے ۔ امن کے پیغام سے موسوم اس رہائی کا دنیا بھر میں چرچاہوا،اور عمران خان سیاست وسفارت کی دنگل میں مین آف دی میچ قرار پائے۔ ان تصاویرنے یکے بعد دیگرے دنیائے انسانیت کے سامنے دوبارہ یہ تلخ حقیقت درشائی کہ ہمارا خطہ  بارُدود کے ڈھیر پر ہے اور یہ کہ کشمیر کو لے کر دو نیوکلئیر ہمسایوں کی دشمنی اور داخلی سیاستیں کیا کیا گل کھلا سکتی ہیں۔ اس بار انڈوپاک حملوں پر دنیا بھر میں فکر وتشویش کی لہر سرعت کے ساتھ دوڑنا قدرتی بات ہے کیونکہ بر صغیر کی جنگ جنوبی ا یشیا کے ساتھ ساتھ امنِ عالم کے لئے بھی کسی بڑی بھاری بد شگونی کا پیش خیمہ ہونا طے ہے۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ خون تو خون ہوتا ہے ، کہیں بھی بہے ، کسی کا بھی بہے، کسی بھی وجہ سے بھی بہے ،ہر حال میں اس کا بہنا قابل صد افسوس امر ہے ۔ کسی بے گناہ اور نہتے کا قتل واقعی پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ ایک مقتول کے خانوادے پر اس کے عزیز کے خونِ ناحق سے کیا گزرتی ہے ، اس کے احساسات اور جذبات کس قدر مجروح ہوتے ہیں، یہ کسی فہمیدہ اور باضمیر انسان کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ۔ ا سلئے کسی کا لخت جگر چاہے بے وردی ہو یا باوردی، جب وہ حالات کی سولی پر چڑھ جائے تو اس پر انسانیت کف ِ افسوس مل کے ہی رہتی ہے ۔ مارا ماری کا یہ دُکھ اور درد کشمیری عوام سے زیادہ اور کون سمجھ سکتا ہے ؟ ہر کوئی ہوش مند انسان جانتا ہے کہ ہمارا سراپا پچھلے ستر برس سے گہرے زخموں سے چُورچُور ہے ، یہاں کا اَنگ اَنگ لہو لہاں ہے ، رَگ رَگ میں درد وکرب بساہوا ہے ۔
 مبصرین کی نظر میںپلوامہ خود کش حملہ ایک چیستاں ہی سہی مگر ظاہر بین نگاہوں سے دیکھا جائے تو یہ نوے سے جاری ظلم و جبر اور قہر سامانیوں سے لبریز گھمبیر حالات کا شاخسانہ بھی کہلاسکتا ہے ،خاص کر  اسے گزشتہ پانچ سالہ سخت گیر کشمیر پالیسی کا تیکھا ردعمل ہونا بھی خارج ا ز امکان نہیں قراردیا جاسکتا ۔ غور طلب ہے کہ پلوامہ کا سنسنی خیر ایکشن اُس وقت ہوا جب پارلیمانی انتخابات قریب الوقوع ہیں۔ اس ایک واقعہ نے دفعتاً ملک کے وہ تمام قومی مدعے سائیڈ لائین کردئے ہیںجو ا لیکشن میں مودی سرکار کے خلاف رائے عامہ کو مخالفانہ رُخ دے سکتے تھے ، آج یہ سب اہم مدعے پلوامہ کے گردوغبار میں اس حد تک معدوم ہو چکے ہیں کہ اپوزیشن دیش بھگتی کے جملہ لوازمات کو من وعن ملحوظ نظر رکھتے ہوئے بھی اگر نرم سے نرم تر لفظوں میں آوپریشن بالا کوٹ کے بارے میںکوئی سوال کرتی ہے تو اُسے حزب اقتدار سے تسلی بخش جواب ملنے کی بجائے پاکستان کی بولی بولنے پر ڈانٹ ڈپٹ سننا پڑتی ہے کہ اس کے لئے اپنا منہ بند کرنے کے سواکوئی دوسراآپشن ہی نہیں رہتا۔ 
ماضیٔ قریب میں بھی بعض ایسے اندوہ ناک المیے پیش آئے جنہیں منظم انداز میں منافرتوں ،منصوبہ بند سازشوں اور مکروہ عزائم کے فریم ورک میں خوب بٹھاکر ان سے سیاسی منافع اور انتخابی فوائد نچوڑے گئے۔مثال کے طور پر گودھرا ٹر ین حادثہ کو یاد کیجئے ۔ اس حادثے میں رام سیوک چلتی ریل میں جل مرے ،گودھرا ٹریجڈی سے مسلمانوں کا اول تاآخر کوئی لینا دنیا نہ تھا، پھر بھی بدلے کی بھاؤنا سے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کروا کے اُنہیں خون کے سمند میں نہلایا گیا۔مسلم ا قلیت کی نسلی تطہیر کالیکھا جوکھا بجز اس کے کیا تھا کہ بی جے پی کی انتخابی جیت ہوئی۔ان مسلم کش فسادات کا سیاسی منافع کس کے کھاتے میں جمع ہوا؟ وہ بھی تو ایک کھلاراز ہے ۔ جنوبی کشمیر کے چھٹی سنگھ پور ہ گاؤں میں رات کے اندھیرے میں نہتی سکھ برادری کے بہت سارے بے گناہ افراد کو بے دردی سے قتل کیا گیا مگر کیا کسی ملوثِ گناہ قاتل آج تک ننگا ہوا؟ بایں ہمہ سابق صدر بل کلنٹن نے اپنی خود نوشتہ کتاب میں اس بات کا خلاصہ کیا کہ چھٹی سنگھ پورہ کا المیہ ایک مکروہ سازش تھی جس کو مبینہ طور خفیہ ایجنسیوں نے رچایا تھا تاکہ کشمیری مسلمانوں کو بدنام کیا جاسکے ۔ مہاراشٹر کے اے ٹی ایس کے روح رواں ہیمنت کر کرے نے بڑی ہمت جٹاکر بعض دھارمک چہروں اور وردی پوشوں کے درمیان خفیہ رابطے اور مجرمانہ تعاون کو بے نقاب کیا تھا ، یہ لوگ دہشت گردانہ کارروائیاں کر کے اس کا الزام مسلمانوں سر رکھنے کے مشن پر مامور تھے تاکہ سانپ بھی مرے اورلاٹھی بھی نہ ٹو ٹے اور کرے کوئی بھرے کوئی کے مصداق بھارت کی سب سے بڑی مسلم اقلیت کو انتقام کے پھندے پر لٹکائے رکھاجائے جس سے فرقہ پرستوں کے لئے سنگھاسن سنبھالنا آسان ترہو تاہے۔ یہی ایک آزمودہ راستہ ہے جس پر چل کر ا س قماش کے خود غرض سیاست دانوں نے جمہوریت وانسانیت کا گلا گھونٹ کر اقتدار کی منزل پائی ۔ اس تباہ کن راستے پر آبلہ پائی کر کے ہمیشہ دو باتیں ہوئیں : اول فرقہ پرستوں کے ووٹ بٹورے گئے ،دوم مسلمانانِ ہند کوکسی پہلو چین نصیب نہ ہوا تو وہ اپنے جمہوری حقوق سے دستبردار ہوئے اور اکثریت کے رحم وکرم پر جینے کو ہی غنیمت سمجھ گئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مالیگاؤںکا قصہ ، مکہ مسجد بم دھماکے یا اس طرح کے سینکڑوں نفرت آمیز واقعات ہمیشہ اکثریتی فرقے کے قلب و ذہن میں مسلم اقلیت کے تئیں شکو ک وشبہات کا بیج بوتے رہے ، بے قصور مسلم نوجوانوں کو جیل وزندان میں ٹھونستے رہے ، اقلیتی طبقے کے خلاف انتقام کی آگ سلگا تے رہے ۔ بات صاف ہے کہ جن سیاسی عناصر کی ساری سیاست اور کرسی ہی منافرت، تعصب ، ظلم اور تشدد کے چار ٹانگوں پراستوار ہو وہ بھلا لوگوں میں میل موانست اور بھائی چارے کا اُپدیش دینے کے کیونکر روادار ہوسکتے ہیں؟ان کے لئے سیاسی کامیابی کی شرط یہ ہے کہ امن ، بھائی چارہ، سو جھ بوجھ ،صبر و تحمل اور صدیوں پرانے رشتے ناطے سب کچھ نفرت وعداوت کے شعلوں کی نذر کرتے پھریں تاکہ ان کے لئے اپنا سیاسی الو سیدھا کر نا بائیں ہاتھ کا کھیل بنا رہے ۔ بنابریں ان کے ذہنوں کی کھیتی میں اور زبانوں کے کارخانے میں صرف پکڑو، مارو ، جلاؤ جیسے ہیبت ناک جنگل ہی اُگ سکتے ہیں ۔ اسی اتحاد مخالف اور انتشار پسند فارمولے کو اپناکر آج بیس کروڑ بھارتی مسلمان کونہ صرف سیاسی طور حاشیے پر پھینکا گیا ہے بلکہ مسلمان معاشی اور تعلیمی طور زبوں حالی کے ہچکولے کھارہے ہیں ۔ ان مصائب بھرے حالات میں مسلم اقلیت پر صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کی مشترکہ بنیاد پر جینے کا خواب پورا کر نا بھی عملاً خیال ومحال وجنوں بنایا گیا ہے ۔ آپ گزشتہ پانچ سال سے مسلمانوں کی اجتماعی تصویر دیکھنے کی زحمت گوار کریں تو ضرور دیکھیں گے کہ جو جنگ آج مگ طیاروں سے کرنے کے لئے ایل او سی کو پار کیا جاتاہے ،اس سے بھی شدیدجنگ نہتے مسلمانوں کے وجود سے مختلف عنوانوں سے برابر لڑی جارہی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ پاکستان اپنے اوپر حملے کاجواب دینے کا بہادرانہ اعلان کرتاہے ، جب کہ مسلم اقلیت اپنی بری قسمت کوکوس کر اپنا غم مقبروں اور مساجد کی چار دیواری میں غلط کرتی رہتی ہے ۔ تنفراور تنگ نظری کی اس جنگ کی آگ کبھی دھیمی آنچ پر رہی ، کبھی شعلوں کی صورت بھڑک کر ماب لنچنگ، لوجہاد ، گئو رکشا جیسی مہیب شکل میں اپنا وجود منوا تی رہی ۔ آج نہ صرف شمالی بھارت میں اس آگ کی تپش محسوس کی جارہی ہے بلکہ جنوبی بھارت تک بھی اس کے شعلے پہنچ چکے ہیں۔ 
  ایک اور پہلو سے پلوامہ اپسوڈ کو دیکھئے ۔ ا س بار بیرون ِ کشمیر رہنے و الے کشمیری مسلمانوں کو صاف طوریہ احسا س دلایا گیا کہ ہمارے سیاسی جگادھریوں کے یہاں کشمیر کا انسانی المیہ کو ئی المیہ ہے ہی نہیں بلکہ یہ ان کے واسطے محض سیاسی سوداگری کی سوغات ہے جسے blank چیک کی طرح وہ جذباتی استحصال کے بنک میں کسی بھی وقت کیش کر سکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑیوں نے کبھی خود کو کشمیریوں کا نرسنگ آرڈرلی جتلایا ، کبھی کشمیر یوں کی بھلائی کے لئے اُنہیں آسمان کی حدوں تک جانے کا آشواسن دلایا ، کبھی انسانیت کے دائرے کی خوش نما اصطلاح سے لبھایا ، کبھی’’گولی نہ گالی سے بلکہ گلے لگانے سے‘‘ کا فسانہ سنایا، کبھی عزت وآبرو کا یقین دلایا، کبھی زخموں پر مرہم اور باعزت امن کی بانسری بجاکر اپنی سیاسی دوکان چمکائی۔ سوئے اتفاق سے اب کی بار چونکہ زعفرانی نیتاؤں کے سر پر انتخاب کھڑا ہے ،اس لئے پلوامہ کا بدلہ ایک ہاتھ پاکستان سے لینے کی رٹ لگائی جاتی رہی اور دوسرے ہاتھ نہتے کشمیری طلبا و طالبات ، تاجرین ، ملازمین ، مزدوروں، شال وا لوں کو مارنا پیٹنا ان کا مشغلہ بنا ، تاکہ کشمیری مسلمانوں کی ایذاء رسانیوں اور ہراسانیوں سے اَندھ وشواس رکھنے والے ہندوتو وادیوں کا ووٹ بٹورا جائے ۔ اس دیوانگی اور جنون کو اور زیادہ تیکھا بنانے کے لئے بدنام زماں یک چشمی چنلوں نے سوکھے گھاس کو دیا سلائی دکھانے کا خوب تماشہ دکھا یا ۔ ان چنلوںنے پلوامہ کوایک انسانی المیہ کی شکل میں دیکھنے کے بجائے اسے دھرم یُدھ بنا ڈالااور فضا کو کشمیریوں کے خلاف آتشیں بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔
 کڑوا سچ یہ ہے کہ پلوامہ کشمیر کی جنگجوئیت کی تاریخ میں اپنی نوعیت کاپہلا تہلکہ آمیز واقعہ ہے مگر یہ آخری افسوس ناک واقعہ ثابت ہو، اس کی کوئی ضمانت نہیں ۔ بلاشبہ ایسی اندوہ ناک وارداتیں انسانیت کو رُلاتی ہیں اور آدمیت کے چہرے پر طمانچہ رسید کرتی ہیں جیسے دوطرفہ جھڑپوں میں جاں بحق ہونے والے عسکریت پسندوں پر یہاں کے لوگ آنسوؤں ، آہوں اور سسکیوںکی صورت میں بے محابہ ماتم کر تے  چلے آرہے ہیں ۔ ایسی منحوس وارادتیں آگے سرے سے رونما ہی نہ ہوں ،اس کے لئے ضروری ہے کہ دونوں جانب سیاسی قیادتیں ٹھنڈے دل ودماغ سے اور پوری متانت ووقار کے ساتھ مسئلہ کشمیر مضبوط سیاسی عزم سے ایڈرس کریں، نہ کہ یہ اپنا آپا اس قدر کھو دیں کہ قومی پالیسیاں تک ٹی وی چنلوں کے بھڑکاؤ اینکروں کے تابعِ فرمان ہونے لگیں ۔ ساتھ ہی ساتھ کرسی اور کشمیر کو ایک ساتھ نتھی کر نااور جذباتیت کی ہوا پر سیاسی محلات تعمیر کر نا قوم کابھلا نہ چاہنے کے برابر ہے۔ کشمیر بے شک زمین کا جنت نظیر ٹکڑا ہے، خوب صورت ہے ، متنازعہ خطہ ہے ، عالمی طاقتوں کے مفادات کا تختۂ مشق بنا چلا آرہاہے مگر اس کے لئے پورے برصغیر کا وجود جوہری ممالک سے لیس دو ہمسایہ ملک داؤ پر لگانے سے بھی باز نہ رہیں اور جنوبی ایشیاء کو نیا ہیروشیما اور ناگاساکی بنانے پر تُل جائیں، ا س سے بڑھ کر تاریخ انسانی کی کوئی  اورحماقت متصور ہوسکتی ہے ؟ بہتر یہی ہے کہ آر پار کی حکومتیں اور سیاسی دھارے انسانیت، امن اور نیک ہمسائیگی کے وسیع تر مفاد میں سرجوڑکر بیٹھیں اور اس مسئلے کا ایک آبرومندانہ حل نکال کر نہ صرف کشمیر  بلکہ کرہ ٔ ارض پر رحم کھائیں ۔
فو ن نمبر9419514537