سرینگر //ہندپاک کے درمیان جنگ بندی معاہدہ پر عمل درآمد کا ایک سال مکمل ہونے کے بیچ اب یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ جموں وکشمیر کے سرحدی علاقوں کو باڈر ٹورازم کے دائرے میں لایا جائے کیونکہ ان علاقوں میں سیاحت کے کافی امکانات ہیں ۔معلوم رہے کہ فروری 2019میں ہندوپاک حکام کے بیچ جنگ بندی معاہدہ پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد اب سرحدی علاقوں میں امن ہے اور لوگ آرام سے اپنا کام کاج کر رہے ہیں بلکہ سرحدی علاقوں میں اب بندوقوں کے دہانے نہیں کھلتے بلکہ ہندوپاک افواج ایک دوسرے کو عید ،دیوالی اور دیگر تہواروں پر مٹھائیاں پیش کرتے ہیں ۔ یاد رہے کہ محبوبہ مفتی کی سربراہی میں سابق ریاستی سرکار نے 2016میں یہ علان کیا تھا کہ جموں وکشمیر کے سرحدی علاقوں میں بارڈ ٹورازم کو بڑھاوا دیاجائے گا اور اس کیلئے محبوبہ مفتی کی سربراہی والی سابق سرکار نے 50کروڑ روپے کا ایک منصوبہ مرکزی سرکار کو پیش کیا تھاجس میں کہا گیا تھا کہ جموںوکشمیر کے سرحدی علاقوں میں سیاحت کے کافی مواقع ہیں اور اس کو بڑھاو ادینے اور نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے ان علاقوں میں سرحدی سیاحت کو منظوری دی جائے ۔ریاستی سرکار نے اس دوران اوڑی ، راجوری ، چکندہ باغ اور کرناہ ٹیٹوال اور کیرن علاقوں کی نشاندہی کی ،اگرچہ اس دوران مرکزی سرکار نے باڈر ٹورازم کو بڑھاوا دینے کی منظوری دی اور سابق ریاستی سرکار نے فسٹ فیز کے تحت 2018میں کام مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا ، تاہم سرکار کے گرنے اور سرحدی علاقوں میں حالات کشیدہ ہونے کے بعد یہ منصوبہ تشنہ تکمیل رہا ،لیکن اب جیسے ہی حالات بہتر ہوئے ،سرحدوں پر امن ہے ،تو سرحدی علاقوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں باڈر ٹورازم کو فروغ دیا جائے ۔ سرحدی علاقوں میں باڈر ٹورزم کوفروغ دینے سے نہ صرف وہاں کی 70فیصد آبادی کو روزگار کے مواقع فراہم ہو سکتے ہیں بلکہ اس سے ان علاقوں کی تعمیر وترقی بھی ہو سکتی ہے ۔معلوم رہے کہ ٹیٹوال اور کیرن کے سرحدی علاقوں میں سرکار کی جانب سے باڈر ٹورازم کی منظوری دی گئی تھی ۔ ٹیٹوال میں ٹورسٹ سنٹر کی تعمیر اور زمین کی حصولیابی کیلئے ایک کروڑ 45لاکھ روپے کی رقم پرائم منسٹر ڈیولپمنٹ فنڈس کے تحت منظور بھی ہوئی جبکہ ٹیٹوال میں اس کیلئے چار کنال اراضی کی نشاندہی بھی کی گئی اور وہاں ایک کیفٹیئریا بھی تعمیر ہوا ۔اسی طرح دیگر سرحدی علاقوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ٹیٹوال اور کیرن وہ واحد سرحدی علاقے ہیں، جہاں سے پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے نیلم وادی کی بستیاں قریب سے دکھائی دیتی ہیں اور اگرخوبصوت سرحدی علاقوں کو باڈر ٹورازم کے طور پر ترقی دی جائے، تو یہاں کے لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے، وہیں سرکاری خزانہ کو بھی فائدہ ہو گا ،کیونکہ ان علاقوں کے اُس پار نیلم وادی کا خوبصورت سیاحتی مقام بھی ہے اور ان سرحد ی علاقوں کی خوبصورتی بھی کسی سے کم نہیں ہے ۔سرحدوں پر امن لوٹ آنے کے بعد گذشتہ ایک سال کے دوران بڑے تعداد میں سیاحوں نے ان سرحدی علاقوں کا دورہ کیا ہے، یہ وہ سیاح تھے جنہیں فوج کی خدمات حاصل تھیں ،عام لوگوں ک سرحدی علاقوں میں جانا اتنا آسان نہیں ہے ۔محکمہ سیاحت کے کمشنر سکریٹری سرمد حفظ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ محکمہ نے کچھ ایک نئے علاقوں کو سیاحتی نقشے پر لانے کا پروگرام بنایا ہے، اس میں کچھ ایک سرحدی علاقے بھی شامل ہیں ۔انہوں نے کہا کہ محکمہ نے گزشتہ سال گریز میں ایک ایونٹ کیا تھا جس میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی تھی اور مستقبل میں موسم کے سازگار ہونے کے بعد ٹیٹوال کیرن اور دیگر باڈر علاقوں میں بھی سیاحتی پروگرام منعقد کرائے جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ کچھ ایک علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ بھی تعمیر کیا گیا ہے ۔
جنگ بندی معاہدہ پر عملدآمد کا ایک سال مکمل | سرحدی علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینے کا مطالبہ زورپکڑنے لگا
