اشفاق سعید
سرینگر //وادی میں ان دنوں گرمیوں کا سیزن ہے اور باغات میں بھی میوہ اُتارا جا رہا ہے۔ اس بیچ ریچھوں کے حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔محکمہ جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ریچھوں اور تیندئوں کو تب تک بستیوں میں آنے سے نہیں روکا جا سکتا جب تک نہ لوگوں میں شعور پیدا ہو گا اور لوگ اپنے گھروں سے نکلنے والے کوڑا کرکٹ کو جھاڑیوں اور گلی کوچوں میں پھینکنے سے گریز نہ کریں۔گذشتہ تین برسوں میں جنگلی جانوروں کے بستیوں کی طرف رخ کرنے کے واقعات میںاضافہ درج کیا گیا ہے اور روازنہ کی بنیادوں پروائلڈ لائف محکمہ کے کنٹرول روم کو 5کالز موصول ہوتی ہیں ۔
جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور جنگلات میں انسانی موجودگی میں اضافہ سے ان کے رہنے کے مقامات میں خلل پڑا جس کی وجہ سے وہ بستیوں کی طرف آنے لگے۔کشمیر میں انسانی اور جنگلی حیات کے تصادم میں مسلسل اضافہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2006 سے اگست 2023 تک جنگلی جانوروں کے حملوں میں242 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور2976ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ا عداد وشمار کے مطابق وادی میں سال2011-12کے دوران 28لوگوں کی موت ہوئی اور312زخمی ہوئے۔2012-13میں 11لوگوں کی موت اور 189زخمی ہوئے ۔2013-14میں 28لوگ ہلاک اور 333زخمی ہوئے۔2014-15میں 11لوگ ہلاک اور 189زخمی ہوئے ۔2015-16میں 10ہلاک اور 225زخمی ہوئے ۔2016-17 میں 7افراد ہلاک اور 127زخمی ہوئے۔2017-18میں 7افراد ہلاک اور 120زخمی ہوئے۔2018-19میں6افراد ہلاک اور 83زخمی ہوئے۔2019-20میں11شہری ہلاک اور 85زخمی ہوئے۔2021 میں 9افراد ہلاک ہوئے،جن میں ایک بڑی تعداد 4-15 سال کی عمر کے بچوں کی تھی اورسال2022میں 10ہلاکتیں اور89زخمی ہوئے ۔امسال2023میں اب تک اگست تک 8لوگوں کی موت واقع ہوئی ہے جبکہ 58دیگر زخمی ہوئے ہیں۔مرنے والوں میں 6کا تعلق شمالی کشمیر اور 2جنوبی کشمیر سے ہیں۔پچھلے 10روز کے دوران کولگام میں ریچھ کے حملہ میں ایک 12سالہ نوجوان اور ایک خاتون سمیت 4افراد زخمی ہوئے جبکہ حیات پورہ لولاب میں ریچھ کے حملے میں ایک 45 سالہ شخص زخمی ہوا ۔22 اگست کو ہندوارہ کا ایک شہری جو ریچھ کے حملے میں زخمی ہوا تھا زخموں کی تاب نہ لا کر ہسپتال میں دم توڑ بیٹھا۔31اگست کو ویری ناگ میں غلام رسول راتھر نامی شہری ریچھ کے حملے میں شدید زخمی ہوا ۔25اگست کو ٹنگمرگ میں ریچھ کے حملے میں شہری زخمی ہوا ۔جنگلی حیات کے تحفظ کی ماہر اوروائلڈ لائف کنزرویشن ایوارڈ یافتہ عالیہ میر نے بتایا کہ بستیوں میں زیادہ تر سالڈ ویسٹ یعنی کوڑا کرکٹ اور گندگی کے زیادہ پھیلائو کی وجہ سے جنگلی جانوروں کا رخ بستوں کی طرف ہو رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ گندگی پر کتے آتے ہیں اور انہیں اپنا شکار بنانے کیلئے تندوے بستیوں کا رخ کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جولائی، اگست ،ستمبر کے مہینے میں یہاں میوہ تیار ہوتا ہے، تو اس وقت ریچھوں کے متعلق کالز موصول ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور سردیوں میں تیندوے کے بارے میں اطلاعات دی جاتی ہیں۔محکمہ جنگلی حیات کے آفیسرسہیل احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ محکمہ اپنی طرف سے جنگلی جانوروں اور انسانوں کے درمیان ہونے والے ٹکرائو کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے، لیکن اسکے باوجود بھی بستیوں کی طرف جنگلی جانوروں کا رخ انسانی مداخلت کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ماہر جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ جنگلات اور باغات کے درمیان خالی علاقہ نہ ہونا اور زرعی زمین کے استعمال کی تبدیلی ، دیہی اور نیم شہری علاقوں میں روایتی فصلوں (دھان) باغبانی(میوہ، زیادہ تر سیب) میں تبدیل ہونا شامل ہے کیونکہ یہ ریچھوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے جن کو جنگل کے بجائے باغات میں اچھے معیار اور بڑی مقدار میں کھانا ملتا ہے۔