بھارت نے چین کیساتھ لگنے والی حقیقی کنٹرول لائن پر لداخ میں پیش آئے حالیہ واقعہ کے بعد پیٹرولنگ کے دوران لاگو قواعد و ضوابط کو تبدیل کرتے ہوئے فوج کوچین کی طرف سے کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی کیخلاف ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دیدی ہے۔یہ فیصلہ بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کے دورۂ روس سے ایک دن قبل لیا گیا۔ابھی تک دونوں ممالک کے مابین وہ معاہدہ نافذ العمل تھا جس کے مطابق اس بات پر اصولی طور اتفاق کیا گیا تھا کہ پیٹرولنگ کے دوران غلطی سے ایک دوسرے کے علاقے میں جانے کے وقت طرفین میں سے کوئی بھی ہتھیاروں کا استعمال نہیں کرے گا اور حقیقی کنٹرول لائن کے دونوں طرف دو کلو میٹر کی دوری پر کوئی بھی فائرنگ نہیں کریگا۔لیکن اب ذرائع ابلاغ میں شائع اطلاعات کے مطابق فوج نے ان قواعد و ضوابط کو تبدیل کردیا ہے اورفیلڈ کمانڈروں سے کہا گیا ہے کہ وہ انتہائی غیر معمولی صورتحال کے پیش نظر ہتھیار استعمال کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔
روس روانگی سے قبل راجناتھ سنگھ نے حقیقی کنٹرول لائن کی صورتحال کا جائزہ لیا اور خاص کر گلوان وادی کی صورتحال پر تفصیلی غور و خوض کیا ۔انہوں نے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت ، آرمی چیف جنرل ایم ایم ناراوانے ، نیوی چیف ایڈمرل کرم بیر سنگھ اور ایئر چیف مارشل آر کے ایس بھدوریا کے ساتھ تفصیلی میٹنگ کی۔ اطلاعات کے مطابق راجناتھ نے اعلی فوجی کمانڈروں کو زمینی سرحد ، فضائی اور اسٹریٹجک سمندری حدودمیں چینی سرگرمیوں پر کڑی نگرانی برقرار رکھنے کے لئے کہا اور چینی افواج کی کسی بھی قسم کی کارروائی سے نمٹنے کیلئے سختی سے جواب دینے کو کہا ۔
قابل ذکر ہے کہ لداخ خطے میںگزشتہ پانچ مئی سے فوجی تنازع برقرار ہے۔ مشرقی لداخ کے متعدد علاقوں میں ہندوستان اور چین کی فوجیں چھ ہفتوں سے آمنے سامنے ہیں۔ 15 جون کو وادی گلوان میں پرتشدد جھڑپ میں چینی فوج کے ہاتھوں20 بھارتی فوجی اہلکاروں کی ہلاکت اور 76 کے قریب زخمی ہونے کے بعد دونوں ممالک کے مابین تعلقات سخت کشیدہ ہوگئے ہیں۔چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کو پہنچنے والے جانی نقصان کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع موجود نہیں ہے تاہم بتایا جاتا ہے کہ چینی فوج کو بھی ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
دفاعی ماہرین کا ماننا ہے کہ بھارتی فوجیوں کو چینی فوجیوں کے ہاتھوں اس لئے بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ باہمی معاہدے کے مطابق اُن کے ساتھ کوئی خاص ہتھیار نہیں تھے اور جو تھوڑے تھے، اُن کے استعمال کی اجازت نہیں تھی ۔اب جبکہ بھارتی افواج کو حقیقی کنٹرول لائن پر کسی بھی قسم کی جارحیت سے نمٹنے کے لئے ہتھیاروں کے استعمال کی پوری آزادی دی گئی ہے،تو دفاعی ماہرین اس اجازت کو خطے کی سلامتی کیلئے ایک سنگین خطرہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کے عدم استعمال پر صرف بھارت ہی نہیں بلکہ چین بھی سختی کے ساتھ کاربند تھا اور یہی وجہ ہے کہ1975کے بعد سے دونوں ممالک کی افواج کے مابین ایک بھی گولی نہیں چلی تھی۔اب اگر بھارتی فوجی حکام نے اپنے اہلکارو ں کو ہتھیار استعمال کرنے کی چھوٹ دیدی تو صاف ظاہر ہے کہ چینی فورسز بھی اسی زبان کا استعمال کریں گے اور یوں خون انسان کی ارزانی کا ویسا ہی سلسلہ شروع ہوجائے گا جیسا کہ کنٹرول لائن پر دہائیوں جاری ہے۔ تاہم بعض ماہرین اور تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ بھارتی حکام کی طرف سے اپنی افواج کو ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت کی باتیں محض ذرائع ابلاغ تک ہی محدود ہیں اور زمینی سطح پر فیلڈ کمانڈروں کو اس بات کی سخت ہدایات دی گئی ہیں کہ کہ وہ چین کے ساتھ کشیدگی کم سے کم کرنے کے عملی اقدامات کریں۔مبصرین کے اس تجزیہ میںکافی وزن معلوم ہوتا ہے کیونکہ اگر واقعی بھارت نے حقیقی کنٹرول لائن پر اپنی افواج کو ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دی ہوتی تو بیجنگ کی طرف سے ضرور اس کے رد عمل میں کچھ نہ کچھ سامنے آتا۔
کچھ بھی ہو، نئی دلی اور بیچنگ کے مابین کشیدہ صورتحال نے جنوب ایشیائی خطے کی بارودی صورتحال میں کئی گنا کااضافہ کیا ہے۔اب بیجنگ کی سرگرمیاں کٹھمنڈو اور ڈھاکہ تک اتنی بڑھ گئی ہیں کہ نئی دلی تشویش میں مبتلاء ہوگئی ہے۔جو نیپال کل تک بھارت کی سیٹی پر پانی پیتا تھا وہ آج اُسی بھارت کو آنکھیں دکھانے لگا ہے اور ڈھاکہ نے تو اسی کشیدگی کے ماحول کے بیچ چین کے ساتھ ایک بہت بڑا تجارتی معاہدہ عمل میں لاکر نئی دلی کو واضح پیغام دیا کہ بھارت کی طرح ہی بنگلہ دیش کو بھی اپنے مفادات ہی پیارے ہیںاور ان کی حفاظت کیلئے وہ بھی دوست بدلنے میں تاخیر نہیں کرسکتا ہے۔نیز اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ بیجنگ خطے کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے کتنی تگ و دو کررہا ہے۔
براعظم ایشیا کے دو بڑے ہمسائے اور دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دو سب سے بڑی جوہری طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ سینگ پھنسائے بیٹھی ہیں۔ خطے میں ویسے بھی کشیدگی کی حالت گذشتہ برس سے بڑھ رہی ہے جب ماہ اگست میں بھارت نے ایک متنازع اقدام کے ذریعے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو یکطرفہ اقدام کے ذریعے تبدیل کردیا تھا۔ اس کے بعد بھارت نے اپنی سرحدوں کا ایک نیا نقشہ بھی جاری کیا جس میں چین کے زیر کنٹرول اکسائی چِن کو بھارتی حصہ قرار دیا گیا۔جموں کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن ختم کرکے اس کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے کی پاکستان نے شدید مخالفت کی یہاں تک اسلام آباد اور نئی دلی کے درمیان اقوام متحدہ کے مختلف شعبوں میں بھی اس معاملے کو لیکر گرم گفتاری ہوئی۔اس کشیدگی کی عملی شکل جموں کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے مابین تقسیم کرنے والی کنٹرول لائن پر بھی صاف نظر آئی ۔اور تو اور رواں برس کے اوائل میں جب پوری دنیا کورونا وائرس کی وباء کی گرفت میں آئی تو نئی دلی اور اسلام آباد ایک دوسرے پر الزامات و جوابی الزامات میں مصروف تھے۔یہاں تک کہ ماہ مارچ کے آخری ہفتے سے جب دونوں ممالک کے صحت شعبے ننگے ہوگئے، دونوں نے کنٹرول لائن پرآگ و آہن کا کھیل اس قدر بڑھادیا کہ نہ صرف فوجی بلکہ دونوں طرف کے متعدد شہریوں کی زندگیاں اس کی نذر ہوگئیں اور درجنوں زخمی ہوگئے۔
بھارت نے طبی بحران کے باوجود کشمیر میں جنگجوئوں کیخلاف آپریشنوں میں اس قدر تیزی لائی کہ 4اپریل سے 22جون کے دوران78جنگجوئوں کو مختلف آپریشنوں کے دوران جاں بحق کیا گیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق رواں برس کے دوران ابھی تک مجموعی طور پر105جنگجوئوں کو جاں بحق کیا گیا ہے۔بالفاظ دیگر موت کا رقص ہر سو جاری ہے جاری ہے۔
اس وقت خطے کی جو صورتحال ہے اُس کے مطابق نئی دلی، بیجنگ کے ساتھ ساتھ اسلام آباد اور کٹھمنڈو کے ساتھ بھی نبرد آزما ہے۔افغانستان میں طالبان کا بڑھتا اثر و رسوخ بھی بھارتی پریشانیوں میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔افغانستان چونکہ ایک ایسا تنازع ہے جس میں پاکستان کے علاوہ دنیا کی سپر طاقت امریکہ بھی ملوث ہے، جو خطے کی کشیدگی کو کئی گنا بڑھانے کی بڑی وجہ ہے۔ سابق سویت یونین گوکہ سکڑ کر روس بن کے رہ گیا ہے لیکن خطے کے اندر اپنے مفادات کی حفاظت کیلئے وہ کسی بھی حد تک جاسکتا ہے اور اس کی موجودہ بظاہر خاموشی کو دفاعی ماہرین بھی اہم قرار دے رہے ہیں۔روس ابھی ماضی قریب تک بھارت حمایتی رہا ہے ۔اُسی کی مہربانیوں سے بھارت کشمیر سے متعلق کئی اہم ویٹو حاصل کرانے میں کامیاب ہوا ہے۔ لیکن بے شک سرد جنگ کے بعد عالمی حالات نے کروٹ بدلی ہے اور بیجنگ خطے میں اپنا اثر کافی حد تک بڑھانے میں کامیاب ہوا ہے۔مبصرین کہتے ہیں کہ اس وقت چین اور روس کے مابین امریکہ ایک مشترکہ حریف کی صورت اختیار کرگیا ہے جہاں ماہ نومبر میں ہونے والے انتخابات دونوں کیلئے اہمیت کے حامل ہیں۔اس صورتحال کو لیکر روس نے حالیہ ایام میں چین کیخلاف زیادہ بیان بازی نہیں کی ہے لیکن جب اُسے لگے کہ خطے میں بیجنگ کا نفوذ بڑھ رہا ہے تو روس اپنی خاموشی ضرور توڑے گا۔روس کا وہ قدام کس حد تک بھارت کے حق میں ہوگا اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔
ایک شائع ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا کے اپنے دیگر ہمسائیوں کے ساتھ بھی علاقائی تنازعات موجودہیںجن میں میانمانر، بھوٹان بھی شامل ہیں۔قابل ذکر ہے کہ بھارت اور نیپال کے درمیان 400 مربع کلو میٹرکالا پانی کا ایک خطہ ہے جو اس وقت بھارت کے زیرانتظام ہے، لیکن نیپال اس خطے پر دعویٰ کرتا ہے۔اسی طرح 140 مربع کلو میٹر کا ایک اور خطہ جو ’سوستا‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے، وہ نیپال کے زیر انتظام ہے لیکن بھارت اس رقبے پر دعویٰ کرتا ہے۔
میانمار کا علاقہ سگینگ کے گاؤں تامو کا ایک خطہ ہے جس کا نام 'نمفالانگ' اور دوسری جانب انڈیا کی ریاست منی پور کے علاقے موڑ کے درمیان ایک 'وادی کبو' ہے۔ اس وادی پر دونوں ملکوں کا دعویٰ ہے اور تاحال اس تنازعہ کا تصفیہ ہونا باقی ہے۔اسی طرح بھارت اور بھوٹان کے مابین 'سربھنگ' نامی اور ’گائیلگ پھْگ‘ نامی خطوں پر علاقائی تنازع برقرار ہے۔
خطے کے دو اہم ممالک بھارت اور پاکستان دہائیوں سے ایک دوسرے کیخلاف بر سر پیکار ہیں۔دونوں سفارتی محاذ کے ساتھ ساتھ سرحدوں پر بھی نبر آزما ہیں۔ 1947سے دونوں کے درمیان جموںکشمیر ایک ایسی ہڈی کی صورت اختیار کرگیا ہے جو کسی کے گلے نہیں اُتررہی ہے۔ نئی دلی اور اسلام آباد کے مابین کشیدگی کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پورے خطے کو بھسم کرنے کی قوت رکھتی ہے، اب تو بیجنگ بھی میدان میں ہے، جس سے صورتحال بے شک دھماکہ خیز بن گئی ہے۔ امن پسند عوام کی خواہش ہے کہ بھارت کی ٹیلی ویژن چینلوں پر لڑی جانے والی جنگ فوج تک وسیع ہونے سے بچ جائے۔عوام کی اس خواہش کو پورا ہونے کیلئے ماسکو اور واشنگٹن کو سرگرم ہونا پڑے گا جس کا عندیہ ابھی حال ہی میں صدر ٹرمپ نے یہ کہتے ہوئے دیا کہ’’امریکہ کشیدگی کم کرنے کیلئے بھارت اور چین کے رابطے میں ہے‘‘۔وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا ماسکو دورہ بھی معنی خیز ہے جس کے دوران وہ ضرور اپنے ملک کے پرانے دوست کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔