جنوبی ایشیاء۔۔۔۔ مخدوش مستقبل

جب بھی بحران دوامی صورت میںسامنے آئے تو اس سے باہر نکلنے کےلئے غیر معمول کاوشوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ دائمی بحران میںجب بھی ایسا لگنے لگتا ہے کہ حالا ت بہتری کی طرف گامزن ہیں تو اچانک کسی نہ کسی سمت سے ایسا کچھ ہوتا ہے کہ صورتحال پھر بگڑ جاتی ہے اور حالات پھر مایوسی اور بے بسی کی جانب مڑ جاتے ہیں۔دنیا بھر میںموجود طویل العرصہ تنازعات کے حوالے سے یہ ایک حقیقت رہی ہے اور ان میں تب تک کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی جب تک کوئی نئی قیادت سامنے آکر بنیادی مواقف میں انقلابی تبدیلی لاکر عام لوگوں کو اسکے شدائید سے باز یاب نہ کرے۔ جنوبی ایشیا کا خطہ بھی اس وقت ایسے تنازعات میں گھرا ہوا ہے ، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ خطہ میں ان تنازعات کا حل تلاش کرنے کےلئے قیادت کا شدید فقدان ہے۔حالانکہ خطہ میں متعدد تنازعات موجود ہیں لیکن انکے فریقین کےدرمیان انہیں حل کرنے کا کوئی تصور یا خیال بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ ان تنازعات میں سرحدی جھگڑے ،فرقہ وارانہ صف بندیاں، اقتدار اعلیٰ پر متصادم دعوے، تاریخی اختلافات اور ہمچو قسم کے معاملات شامل ہیں، جنہیں باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ اسکا بدترین پہلو یہ ہے کہ انہیں عالمی سطح پر جاری ، اختیار و اقتدار کی کشمکش کے ساتھ جوڑنے سے کوئی احتراز نہیں کیا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر نئی طاقتوں کا فروغ، کمزور طاقتوں کی اُبھرنے کی کوشش اور طویل عرصہ سے دنیا پر مقتدر سُر پاوروں کی طرف سے نئے حالات کو قبول کرنے سے انکار ایک انتہائی خطرناک صورتحال پیدا کرنے پر مصر ہے اور یہ عمل زندہ رہنے کےلئے جنوبی ایشیاء کو خطرناک خطے میں تبدیل کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں سنجیدہ فکر اور انسان کےلئے درد دل رکھنے والے طبقہ کو یہ فکر ستائے جارہی ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟ اسکا جواب کسی بھی طور امید افزاء نظر نہیں آتا ۔ اس افسردگی اور درماندگی کی واضح وجوہات موجود ہیں۔جنوبی ایشیا ء کے بیشتر ممالک میں سیاست عمومی اعتبار کے مرتبے سے گرکر بحران کی نذر ہوچکی ہے۔ تاریخ ، جغرافیہ اور تمدن کے دائروں میںمختلف اور خطرناک قسم کی دعوے داریاں پیش کی جارہی ہیں جن کی وجہ سے ملکی سیاست اور خارجی پالیسیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ ایسےحالات میں جنوبی ایشیاء کے عوام کے درمیان تعلقات اور رشتے بُری طرح دبائو کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ عمل خطہ کے لوگوں کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ دریں حالات ہمارے بچائو کی ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے ایسی قیادت، جو مقامی سیاست کے تنگ و تاریک گلیاروں سے باہر نکل کر وسیع بنیادوں پر سوچنے اور معاملات سے نمٹنے کا حو صلہ اور صلاحیت رکھتی ہو۔ دوسری اہم بات ایسے تازہ خیالات و نظریات ہیں جو معاملات کے بارے میں مثبت سوچ کے فروغ کا ذریعہ بن سکیں۔ اس خطہ کے مفکرین اور دانشمندوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے نئے قابل عمل خیالات اور تصورات سامنے لائیں، جو اس خطہ میں موجود تنازعات کا حل تلاش کرنے کی راہ ہموار کرسکیں۔