جمہوری ملک کی اقلیتیں ۔مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت!

ہندوستان کے عہد ماضی اور حاضر پر غور کیجئے تو ایک نہیں،دس نہیں،سو نہیں،ہزار نہیں بلکہ ہزاروں ہزار بے گناہوں پر ظلم وتشدد،بربریت اور قتل و غارت کے وہ سارے پہاڑ توڑے گئے، جن کا تصور بھی انسانی دماغ برداشت نہیں کر سکتا۔ سیکڑوں نہیں ہزاروں بار جگہ جگہ یک طرفہ حملے ہوئے۔جانیں،عصمتیں،عزتیں،والدین کی شفقتیںاور محبتیں لوٹی گئیں،پھر آسام جیسے حالیہ فساد میں سربراہان مملکت نے وہ ننگا ناچ ناچا ہے کہ ہم جیسے ناتواں اور کمزور دل اس روح فرسا خبر سننے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ہزارہا انسانوں کا کسی جنگ میں شہید کیا جانا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں لیکن ایک باقاعدہ حکومت کسی اسکیم کے تحت ہزارہا انسانوں پر سفاکی اور بربریت کے یکطرفہ پہاڑ توڑنا ایسا غیر معمولی واقعہ ہے کہ اگر امن و تحفظ اور عدل وانصاف کا ایک بھی ذرہ باقی رہتا تو ایسا واقعہ رونما نہیں ہوتا، جو آسام میں ہوا۔ظلم و زیادتی کا یہ  طوفان پہلی بار نہیں ہوا،اور یہ طلاطم خیز طوفان آخری طوفان نہیں دکھائی دیتاہت۔جو لوگ غایت منظم طریقے پر مسلمانوں کی نسل کشی کو اپنا مقصدِ زندگی تصور کئے بیٹھے ہیں،اُن کی پیاس دس ہزار بیس ہزار پچاس ہزار مسلمانوں کے خون سے نہ بجھے گی بلک وہ صاف طور پر اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ جو سلوک ہٹلر نے یہودیوں سے کیا تھا وہی سلوک مسلمانان ہند پر بھی کرنا چاہیے۔
آج ہماری حیثیت سبھی مذہب سے کم سمجھی جارہی ہے،آج ہمارے خون کی قیمت پانی سے بھی کم ہے،آج ہم پر طرح طرح کے مصائب توڑے جارہے ہیں۔ظلم و اذیت کی لامحدود راہوں سے گزارے جارہے ہیں، ہماری بہنوں کی عزتیں پامال کی جارہی ہیں۔ ہم دہشت و ہراس اور ہلاکت و انتشار کی چلتی پھرتی مخلوق نظر آرہے ہیں۔ مسلمانوں کے بچوں کو ماں کی ممتا سے جدا کیا جارہا ہے اُن کی مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے، عبادت گاہوں پر حملے کئے جارہے ہیں۔آج ہماری حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہےلیکن یہ سب تلاطم خیز طوفان آخری طوفان نہیں آنے والے لمحات اسے بھی مات کردیں گے۔کب مسلمان پر حملہ ہوگا، کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ اس حملے کا مقابلہ ہم اتحاد و یکجہتی ہی سے کرسکتے ہیں لیکن ملک کا فسطائی طبقہ جس کا مقصد ہی افتراق پیدا کرنا ہے،برابر اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ ہندو اور مسلمان میں منافرت کی خلیج اتنی بڑھ جائے کہ کبھی نہ مٹ پائے۔لیکن ہمارا کہنا ہے کہ اے ہندوستان والو! سنُو اور غور سے سنو کہ ہندوستان میں ایک سیکولر دستور نافذ ہے۔یہ کسی خاص طبقہ یا مذہب والوں کا ملک نہیں ہےبلکہ ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں سکھوں، بدھوں،پارسیوں اور سب ہی کا ملک ہے،لیکن منافر ذہن کے متبعین اپنے آپ کو نہ صرف اس ملت کا واحد ٹھیکدار تصور کرتے ہیں،بلکہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس ملت میں کوئی غیر ہندو بھی نہ دکھائی دےاور یہ ملک خاص ہندو راشٹر بن جائے مگر حیف صد حیف !اُن قائلین پر جو نہ شاید اس ملک کے ہندوؤں سےواقف ہیں اور نہ مسلمانوں سے۔اُنہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جس طرح ہندوستان کی سرزمین ہندوؤں کے لئے مقدس اور پوتر استھان ہے،اُسی طرح مذہبی اعتبار سے مسلمانوں کے لئے بھی مقدس ہےکیونکہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام نےسب سے پہلے اسی مقدس ملک کی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔چنانچہ مسلمان اس ملک کی سرزمین پر بھی اپنی عقیدت کے نذرانے پیش کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور اس سرزمین کے لئے اپنی نقوش کی قربانیاں بخوشی گوارہ کر سکتے ہیں۔اگر ہندوؤں کے لئے ہردوار،کاشی،بدری ناتھ اور دیگر چند مقامات پوتر استھان ہیںتو مسلمانانِ ہند کے لئے سیکڑوں وہ مقامات باعثِ احترام ہیں ،جہاں اس ملک کے اولیاء کرام آرام فرما ہیں۔
مگر افسوس صد افسوس! فرقہ پرست ذہنیت کے حامل لوگ جو نہ صرف ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں سے ناواقف ہیںبلکہ ملک کی تاریخ سے بھی نابلد ہیںاور عقل و فہم سے بھی پیدل ۔انہیں سوچنا چاہئے آج اگر ہم یہاں مسجدوں،گردواروں، گرجاوں اور دوسری اقلیت کے عبادت خانوں کومندر بنانے کا مشورہ دیتے ہیں تو ہو سکتا ہےکہ کل کسی اور ملک میں اس کی وجہ سے تمام مندروں کو مسجد،گردواروں اور گرجاوں میں تبدیل کردے۔اگر اس ملک میں یہی ذہنیت ترقی کرتی رہی تو نہیں کہا جاسکتا کہ پوری دنیا کا انجام کیا ہوگا؟ ان سب مصیبتوں کے پہاڑ گرانے کے باوجود ملاحظہ فرمائیں کہ کتنی سادگی کے ساتھ اکثریتی طبقہ کو بے قصور اور مجبور بتایا جارہا ہے اور اقلیت کو جابر و ظالم ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اکثریتی طبقہ کے فرقہ پرستوں کے ہاتھوں اقلیتوں پر طرح طرح کے مظالم ہوں، ان کے خلاف منظم طریقے پر ہنگامے برپا کئے جائیں،ان کے گھروں اور دوکانوں میں آگ لگائی جائے لیکن اس کے باوجود اکثریتی طبقہ بے قصور ہے اور اقلیت کے رحم و کرم پر زندگی کے ایام گزار رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کس قدر حیرت انگیز ہے کہ اقلیتی طبقہ کے عبادت خانوں کو مندروں میں کردیا جائے۔ان کو لسانی اور تمدنی حقوق تک سے محروم کردیا جائے،پھر بھی اکثریتی طبقہ بے گناہ ہے بے قصور ہے اور اقلیت ہی سب سے بڑا قصوروار ہے۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
کوئی قتل بھی کرتا ہے تو چرچا نہیں ہوتا
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو خصوصاً اور اس ملک کی دیگر اقلیتوں کو عموماً اکثریتی طبقہ کے ظلم و بربریت برداشت کرتے ہوئے کئی سال گذر چکے ہیں۔ان نام نہاد محب وطن نے ہندوستانی جمہوریت کی چولیں ہلاکررکھ دیں ہیںاور ان کے رویے سے یہ بات صاف طور پر عیاں ہے کہ یہ اس جمہوریت کے قائل نہیں ہیں،جس میں کہ اکثریت اور اقلیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہو،بلکہ سب کو یکساں حقوق حاصل ہوں۔ایسی حالت میں ہندوستانی اقلیتوں کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اکثریتی طبقہ کی جمہوریت کش پالیسی کو ختم کرنے کا اپنا مشترکہ محاذ قائم کریں،اس ملک کی اقلیتوں کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے ،جس میں کہ اقلیتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ اس ملک کی بعض اقلیتوں کی تعداد دوسرے بعض ممالک کی آبادی سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ظاہر ہے کہ جس ملک کی اقلیتوں کی تعداد اتنی کثیر ہوں تو وہ اگر متحد ہو جائیں تو کیا کچھ نہیں کر سکتیں۔لیکن اس ملک کی اقلیتی طبقوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان میں بعض تو اکثریتی طبقہ میں مدغم ہو کر رہ گئے ہیں، بعض بے عمل کے مرض مہلک کے مریض ہیں،اور بعض آپسی انتشار و افتراق کے پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں۔کیونکہ آج کے سربراہان قوم و ملت قاضی کی طرح پھر ایک جزوی و فروعی اختلاف کے باعث کئی طبقوں میں انقسام قبول کئے ہوئے ہیںاور عامتہ المسلمین بھی اپنے اپنے سربراہ کی انفرادی طور پر تقلید کر رہی ہے۔اس طرح سے طاقت و توانائی اور عظمت حکومت کی نظر میں گرتی جارہی ہے۔حالانکہ جس ملک میں اقلیتوں کی اتنی بڑی تعداد ہو ،وہاں کی کوئی طاقتور سے طاقتور پارٹی بھی اقلیتوں کی رضا کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی ،نہ صرف مسلم اقلیت بلکہ ہندوستان کی جملہ اقلیتوں خواہ آج محسوس کریں یا نہ کریںلیکن حالات واقعات ان کو بتا رہے ہیں کہ اگر ان کو اس ملک کی اکثریتی طبقہ کی ظلم و بربریت سے نجات حاصل کرنی ہےاور عزت کی زندگی گذارنی ہےتو تمام اقلیتوں کو متحد ہونا پڑے گا، اقلیتوں کا یہ اتحاد نہ صرف اقلیتوں کے لئے مفید ہےبلکہ اس ملک کے نظام کو بھی بہت بڑا فائدہ پہونچے گا کیونکہ تمام اقلیتیں متحد ہو کر ملک کے دفاع استحکام اور ترقی میں بہت بڑا حصہ لے سکتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے اتحاد سے اکثریتی طبقہ کے ان فرقہ پرستوں کا قدرتی طور پر خاتمہ ہوجائے گا، جنہوں نے اس ملک جمہوریت کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے ۔ہماری ایمان داری کے ساتھ یہ رائے ہے کہ اگر کسی نہ کسی طرح اس ملک کی تمام اقلیتیں متحد ہو جائیں تو ایک طرف تو اکثریتی طبقہ کے ان فرقہ پرستوں کا خاتمہ ہوجائے گا جو اس ملک میں کئی سالوں تک اپنی حیوانیت اور بربریت قائم رکھنا چاہتے ہیںاور دوسری جانب اقلیتوں کی وہ تمام شکایتیں دور ہو جائیں گی جن سے وہ نالاں ہیں۔لہٰذا میں جماعتوں کے متعلقین و مبلغین،مقررین خصوصاً عمامدین و قائدین ملت سے مؤدبانہ گزارش کروں گا کہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر تمام اقلیتوں کو پستی و انحطاط اور انتشار کے دہانے سے بچانے کی سعی بلیغ فرمائیں۔