میڈیا اور صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔یہ ستون اب کھوکھلا ہوتا جارہا ہے،اور کھوکھلی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی چیزیں پائیدار نہیں ہوتی بلکہ گرنے کے در ہوتی ہیں۔ ملک کی ترقی اور جمہوریت کی کامیابی کیلئے امن وسلامتی نہایت ضروری ہے۔ اسی امن سلامتی کے خلاف اِن دِنوں ہندوستانی میڈیا کے چند بکاؤ نیوز چینل کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ مخصوص میڈیا ادارے کورونا سے متعلقہ ایشوز کا نہ صرف مکمل ادراک رکھتے ہیں بلکہ ان کے اظہار کیلئے زبان و بیان کا ڈھنگ بھی جانتے ہیں مگر افسوس جاہلانہ حرکتوں کے ساتھ پھکڑ پن سے کام لیتے ہوئے انتہائی عامیانہ زبان استعمال کررہے ہیں۔ سنجیدگی اور متانت انکے چہروں سے نظر بھی نہیں آتی۔ اصل مدعا پر آنے کے بجائے عوام میں مذہبی بنیادوں پر پھوٹ پیدا کر رہے ہیں۔ سیکولر بھارت میں ہندو مسلم کی دیواریں کھڑی کر رہے ہیں اور منافرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ عام لوگوں کے ذہن میں بھی یہ بات سرایت کر چکی ہے کہ کورونا اور مسلمان گویا کہ لازم ملزوم ہیں۔ اس سب کا ذمہ دار میڈیا اور اسکی سنسنی خیزی ہے۔ دراصل یہ بِکاؤ اینکرز کی رگوں میں چلنے والی وفاداری کے نمک کا اثر ہے ، کیونکہ اس وقت پورا ملک کورونا وائرس سے متحد ہوکر لڑرہا ہے لیکن میڈیا کے کچھ لوگ اس اتحاد کو توڑنے کے لئے مستقل کوشش کر رہے ہیں۔
اب حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ کئی ہندوستانی نیوز چینلز اور ان کے زرخرید صحافیوں کے نام سامنے آتے ہی ملک کے بیشتر افراد بھڑک اٹھتے ہیں کیونکہ یہی لوگ ملک کے اصل دشمن ہیں۔ایسے تمام نیوز چینل جو ایک خاص مذہب کے خلاف دن رات جعلی خبریں، جھوٹ، نشر کرتے ہیں وہی سب سے بڑے غدار ہیں۔ ان نیوز چینلوں نے ہندوستان میں کورونا سے بھی زیادہ خطرناک فرقہ واریت کی وبا پھیلانا شروع کردی ہے،جو ہندوستان کے لئے بہت خطرناک ہے ۔یہ مخصوص میڈیا لاک ڈاؤن کا سہارا لیکر اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ پر رکھا ہوا ہے۔۔جتنا میڈیا کو نفرت پھیلانا تھا وہ پھیلا چکے ہیں اب اسکے نتائج آنے لگے ہیں، ہندو مسلم نفرت پوری طرح پنپ گئی ہے ،مسلمانوں کے خلاف نفرت ہی اتنی بھر دی گئی ہے کہ لاک ڈاؤن ہو یا نہ ہو مسلمانوں پر حملہ ہوتا ہی رہے گا، ہمارا مخالف ہمیں ہر پلیٹ فارم سے چیلینج دے رہا ہے۔ مرکز نظام الدین کو لیکر گودی میڈیا کا انتہاہی مکروہ کردار نظر آیا ہے ایسا لگتا ہے کہ گودی نیوز چینل ایسے موقع کی تلاش میں ہی رہتے ہیں جو ملک میں ہونے والے ہر بڑے حادثہ یا واقعہ کا ٹھیکرا کسی نہ کسی طرح مسلمان یا ان سے وابستہ دینی جماعت یا تنظیمی ادارہ کے سر پھوڑا جائے اور مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ بڑی تعداد میں ایسے نیوز چینلوں کو سبسکرائب کرتے ہیں یا فالو کرتے ہیں جو ان کے خلاف دن رات تیز مہم چلاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے حقوق انسانی شعبہ کے ساتھ ساتھ بین لااقوامی ایجنسیوں کی ان رپورٹس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جِس میں ہندوستانی میڈیا کو اِن دِنوں آڑے ہاتھوں لیا جارہا ہے۔ تعصب و یک طرفہ خبروں کی وجہ سے ہندوستانی میڈیا پر عالمی طور سے تنقیدیں ہورہی ہیں۔
بہرحال اب وزیراعظم نے لاک ڈاؤن تین مئی تک بڑھا دیا ہے، بغیر تیاری کے لاک ڈاؤن کو مزید آگے بڑھاتے رہنا دراصل غریبوں کیلئے مشکلات بڑھانا ہے ، کئی لوگ اس غیر منظم لاک ڈاؤن کی مخالفت کررہے ہیں اسلئے کہ بھوک سے غریب مزدور کی جان تک جارہی ہے ، لوگ فاقوں سے دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کررہے ہیں، مجبوراً اپنے آبائی وطن پیدل سفر کررہے ہیں، عام خیال یہی ہے کہ اچانک لاک ڈاون کی توسیع کی وجہ سے جو حالات پیدا ہیں یا مزید ہورہے ہیں وہ کورونا جیسی جان لیوا بیماری سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں اور سرکار و میڈیا تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
مخصوص میڈیا والوں کو یہ مدعا نہیں چاہیے ، ترقی کی خبریں، کسانوں کی خبریں، آدیواسی اور محروم طبقوں کی خبریں، غذائی قلت، غریبی، استحصال سے جڑی خبروں سے اِنہیں کوئی سروکار نہیں ہے۔سماج کے مختلف طبقوں کے مدعے، ان کے مسائل اور آواز کے لئے ان کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں میڈیا اپنے فرائض سے جیسے غافل ہوچکا ہے۔اس کی پہچان حکومت حامی میڈیا اور میڈیا وائرس کے طور پر ہو رہی ہے۔ ہم اس دور میں ہیں جہاں میڈیا خود جمہوریت کے لئے خطرہ بن گیا ہے،وہ عوام کے خلاف کھڑا ہے۔ شہریوں کے خلاف سازشیں کر رہا ہے، مخصوص مذہب کو نشانہ بناکر مذہبی منافرت کا کھیل کھیل رہا ہے۔ میڈیا کا ایک بڑا مخصوص حصہ اپنا فرض، اپنی ذمہ داری سے منہ موڑ کر سماج میں زہر گھولنے میں لگا ہوا ہے جو ملک کیلئے سخت ترین خسارہ کاباعث ہوگا۔
، مالیگاؤں