اعلیٰ تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کے حکومتی دعوے یاتو عملی شکل ہی اختیار نہیں کرپاتے اور اگر ایسا ہوبھی جائے توپھر نئے قائم کردہ اداروں کا حال پونچھ کے یونیورسٹی کیمپس جیسا بن جاتاہے جہاں صرف ایک شعبے میں پوسٹ گریجویٹ تعلیم دی جارہی ہے اور اس پر طرہ امتیاز یہ کہ کیمپس کیلئے عمارت کی تعمیر کاکام ایک سال سے بند پڑاہے اورطلباء ،اساتذہ ودیگر عملہ دو کمروں میں سمٹ کر رہ گیاہے ۔مقامی طلباء کو اعلیٰ تعلیم کی سہولت مقامی سطح پر ہی دینے کے مقصد سے 2008میں اس کیمپس کے قیام کو منظوری دی گئی جس کے بعد 2012میں ڈگری کالج پونچھ کی عمارت میں اس کیمپس کادو کمروں میں باضابطہ آغاز کرکے کلاسیں بھی شروع کی گئیں تاہم اس کے بعد مزید کوئی پیش رفت نہ ہوئی اور یہ اہم ادارہ برائے نام بن کر رہ گیاہے ۔فی الوقت یہ ادارہ ایک شعبہ تک محدود ہوکر رہ گیاہے اور اس طرح سے اس کے قیام کا مقصد فوت ہوتاجارہاہے۔یونیورسٹی کیمپس میں زیر تعلیم طلباء کےلئے نہ بیٹھنے کی جگہ ہے اورنہ لائبریری و لیبارٹری سمیت دیگر سہولیات میسر ہیں ۔اگرچہ حکومت کی جانب سے پونچھ قصبہ سے چند کلو میٹر کی دوری پر ڈینگلہ میں اراضی حاصل کرکے عمارت کی تعمیرکا کام شروع بھی کیا گیا لیکن کچھ عرصہ تک نہایت ہی سست روی سے چلنے والے اس کام کو ایک سال قبل بالکل ہی بند کردیاگیاجسے پھر دوبارہ شروع کرنے کی زحمت گوارہ نہیںکی گئی۔مذکورہ بالا حقائق کی وجہ سے اس کیمپس میں زیر تعلیم طلباء کو سخت مشکلات کاسامناہے اورجہاں انہیں بیٹھنے کیلئے جگہ نہیں ملتی وہیں رہنے کاکوئی بھی انتظام نہیں اورانہیں مجبوراًکرایہ کے کمروں میں رہنا پڑتا ہے ۔ایسے میں طالبات خود کو غیرمحفوظ سمجھتی ہیں ۔اس کیمپس میں اس وقت صرف سیریکلچر کے شعبے میں تعلیم دی جارہی ہے اور حکام کیمپس کے ذریعہ مقامی طلباء کو وہ فائدہ پہنچانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں جس کی لوگوں کو توقع تھی ۔یونیورسٹی کیمپس کی انتظامیہ بھی اس بات پر شدید پریشان ہے کہ طلباء کو بیٹھنے کی جگہ میسر نہیں اور نئی عمارت کاتعمیری کام ایک سال سے بندپڑاہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2003میں بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد پونچھ میں جموں یونیورسٹی کیمپس کا قیام خطہ پیر پنچال میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے حوالے سے بہت بڑا اقدام تھا لیکن جہاںراجوری میں یونیورسٹی بہت کم عرصہ میں قومی سطح پر اپنانام بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے وہیں پونچھ کا یہ کیمپس محض برائے نام بن کر رہ گیاہے جس سے وہ مقاصد پورے ہی نہیں ہوپائے جن کے حصول کیلئے اس کو قائم کیاگیاتھا۔ ضلع میں یونیورسٹی کیمپس ہوکر بھی طلباء کو پوسٹ گریجویٹ کورسز کیلئے بیرون ضلع ہی نہیں بلکہ بیرون ریاست جاناپڑتاہے اور پونچھ کے طلباء کو وہی مشکلات درپیش ہیں جو انہیں اس کیمپس سے قبل تھیں ۔ غریب گھرانوںسے تعلق رکھنے والے طلباء کے پاس اس قدر وسائل نہیںہوتے کہ وہ بیرون ریاست یا جموں میں کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں، اس لئے ایسے طلباء کیلئے پونچھ کا یونیورسٹی کیمپس بہت معنی رکھتاتھا تاہم اس کو عدم توجہی کاشکار بنادیاگیاہے جس پر مقامی آبادی حکام کے تئیں سیخ پانظرآرہی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سرحدی خطے میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کی خاطر اس کیمپس کی طرف توجہ مبذول کی جائے اور نئی عمارت کاکام شروع کرکے اُسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ سیریکلچر کے علاوہ مزید شعبوں میں پوسٹ گریجویٹ اور ڈاکٹریٹ کورسز شروع کئے جائیں تاکہ طلباء کا مقامی سطح پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے ۔
!جموں یونیورسٹی کا پونچھ کیمپس……کب مرادیں بر آئیں گی
