جموں و کشمیر میں 17323سرکاری سکول قائم | 848میں کوئی زیر تعلیم نہیں ۔ 17916میں 50سے کم طلاب، 2413میں صرف ایک استاد تعینات

بلال فرقانی

سرینگر//جموں و کشمیر میں تعلیمی نظام کے حوالے سے حال ہی میں حق اطلاعات قانون کے ذریعے حاصل کی گئی تازہ ترین معلومات نے چشم کشا حقائق کو اجاگر کیا ہے۔ اگرچہ سرکاری سکولوں کی تعداد نجی اسکولوں سے زیادہ ہے لیکن تعلیمی معیار، بنیادی ڈھانچہ اور طلبہ کی تعداد میں نجی اسکولوں کی برتری واضح طور پر سامنے آئی ہے۔ آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل کردہ ان تازہ ترین معلومات نے یہ بات عیاں کر دی ہے کہ سرکاری اسکولوں کی کثرت کے باوجود تعلیمی معیار میں کمی اور سہولیات کی عدم دستیابی جیسے مسائل موجود ہیں۔ دوسری جانب نجی سکولوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کے معیاری وسائل کے فرق نے تعلیم میں طبقاتی فرق کو مزید اجاگر کیا ہے۔Unified District Information System for Education Plus(UDISE+) کے اعداد شمارکے مطابق وادی کے اضلاع میں سرکاری اور نجی سکولوں کی تعداد میں واضح فرق ہے۔ سرکاری سکولوں کی مجموعی تعداد 7705 ہے، جن میں 2975 پرائمری، 3548 مڈل، 803 ہائی اسکول اور 379 ہائر سیکنڈری سکول شامل ہیں۔ ضلع بارہمولہ میں سب سے زیادہ 1338 سرکاری سکول ہیں جبکہ گاندربل ضلع میں صرف 451 اسکول ہیں۔اسی طرح نجی سکولوں کی تعداد 2696 ہے، جن میں 705 پرائمری، 1137 مڈل، 744 ہائی اسکول اور 110 ہائر سیکنڈری سکول شامل ہیں۔ ضلع سرینگر میں سب سے زیادہ 415 نجی سکول فعال ہیں جبکہ ضلع شوپیان میں سب سے کم 139 نجی اسکول ہیں۔UDISE+ کے اعداد و شمار کے مطابق تعلیمی سال 2022-23اور 2023-24کیلئے اندراج کے تجزئے میں ایک سال میں طلبہ کے اندراج میں 61,451 کی کمی ہوئی ہے۔سرکاری دستاویزات کے مطابق ایک سال میں جموں و کشمیر کے 554 سکولوں میں طلباء کے داخلے میں کمی کی نشاندہی کی گئی ہے۔سرکاری سکولوں کی تعداد اگرچہ جموں کشمیر میںکل سکولوں کی تعداد میں20فیصد ہے تاہم ان اسکولوں میں اندراج کی شرح45فیصدہے اور سرکاری سکولوں کی شرح جہاں80فیصد ہے وہاں اندراج کی شرح54فیصد ہے۔ 2019-20میں جموں و کشمیر میں پرائمری سے دسویں جماعت تک 1832140 طلباء میں سے 48.15 فیصد نے پرائیویٹ سکولوں میں داخلہ لیا تھا۔ یہ شرح 2020-21میں 48.63 فیصد تک پہنچ گئی لیکن 2021-22میں گر کر 46.49 فیصد رہ گئی۔ جموں و کشمیر میںاول تا دسویں جماعت (پری پرائمری کو چھوڑ کر) کیلئے مجموعی طور پر داخلہ 1852745 تھا۔ کشمیر میں کچھ ایسے اضلاع ہیں جہاں سرکاری اسکولوں میں بمشکل 40 فیصد نئے داخلے ہوتے ہیں۔سالانہ اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ نے 2022 میں ایک اور دلچسپ تفصیل کا اضافہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر کے تعلیمی شعبے کو سنبھالنے والے انسانی وسائل میں ایک طرح سے جمود ہے اور اس کے مقابلے میں نجی شعبہ مضبوط پایا جارہا ہے۔ 2018-19میں سروے میں 170449 اساتذہ تدریسی عمل سے جڑے تھے جن میں 104184 سرکاری شعبے میں اور 66031 نجی شعبے میں،جس میں سرکاری سکولوں میں38672 کے مقابلے پرائیویٹ سیکٹر میں خدمات انجام دینے والی خواتین اساتذہ 40826 پائی گئیں۔ یہی اعداد و شمار 2021-22تک بہت زیادہ تبدیل ہوئے اورسرکاری سکولوں میں صرف 36785 خواتین اساتذہ رہ گئیں تھیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر نے مزید بھرتی کیے تھے، جن کی کل تعداد 43190 تک پہنچ گئی۔اخراجات کا کوئی موازنہ نہیں ہے جبکہ حکومت نجی شعبے سے کئی گنا زیادہ خرچ کرتی ہے تاہم نتیجہ ایک دلچسپ عکاسی پیش کرتا ہے۔ جموں و کشمیر میں نجی سکولوں میں تعینات40.89 فیصد اساتذہ 19.25 فیصد بنیادی ڈھانچے کا استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ 45.60 فیصد پری پرائمری سے سیکنڈری سطح کے طلباء کی آبادی کو پڑھائیں اور انکا نتیجہ 92 فیصدہے۔محکمہ تعلیم کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق پورے جموں و کشمیر میں کل 23 ہزار 173 سکول ہیں جن میں848 سکولوں میں ایک بھی طالب علم زیر تعلیم نہیں ہے۔اسی طرح 16 ہزار 179 اسکولوں میں 50 سے کم طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ مزید 2413 ایسے سکول ہیں جہاں صرف ایک ہی استاد تعینات ہے۔پرائمری سطح پر 18.43 فیصد اسکولوں میں طلباء کے مقابلے میں اساتذہ کی تعداد کم ہے۔محکمہ تعلیم کے حکام کا کہنا ہے کہ پہلے جہاں 23 ہزار 117 سرکاری سکول تھے، وہ اب کم ہو کر 18 ہزار 820 رہ گئے ہیں۔اس حوالے سے بتایا گیا ہے کہ تقریباً 4300 سرکاری سکولوں میں 5 سے کم یا بالکل بھی طالب علم نہیں تھے۔ تاہم اب ایسا کوئی سکول نہیں ہے جہاں ایک بھی طالب علم زیر تعلیم نہ ہو۔واضح رہے کہ تعلیمی محکمہ نے 2022 میں 1200 سے زائد ایسے سکولوں کا پتہ لگایا تھا جہاں طلباء کی تعداد بہت کم تھی۔آر ٹی آئی کارکن ڈاکٹر ایم ایم شجاع کا کہنا ہے کہ سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات کی کمی، اساتذہ کی کمی اور ناقص معیار تعلیم جیسے مسائل موجود ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے تعلیمی معیار متاثر ہو رہا ہے۔ دوسری جانب نجی سکولوں میں جدید تعلیمی وسائل اور سہولتوں کی فراہمی بہتر تعلیمی نتائج کی طرف اشارہ کرتی ہے، مگر ان کی فیس معاشی طور پر کمزور طبقے کے لئے قابل رسائی نہیں ہے۔