سرینگر//جموں کشمیر میں اشیاء و خدمات ٹیکس قانون لاگو ہونے کے بیچ ریاست کے55 ہزار ،کروڑ روپیسے زاید قرضوں کے بوجھ تلے دبنے کا انکشاف کرتے ہوئے کمٹیولر اینڈ آڈیٹر جنرل نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر میں مجموعی طور پر مالی قرضداری کی وجہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بھاری سود کے بدلے رقومات حاصل کرنا ہے۔جموں کشمیرمیں مالی سال2015-16کے اختتام تک55ہزار358کرور روپے جو ریاست کے مجموعی گھریلوپیدوار سے60فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔ کمٹیولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ قرضہ ٹیکس اور نان ٹیکس آمدنی سے5گناہ زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قرضہ جات میں اضافہ کی وجہ سرکار کی طرف سے اخرجات کو پورا کرنے کیلئے بھاری سود پر بازاروں سے لئے گئے قرضہ کی وجہ سے ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے’’ جموں کشمیر پر 31مارچ2015تک مجموعی طور پر 48ہزار314کروڑ روپے کا قرضہ تھا جو مارچ2016تک 55ہزار358کرور روپے پہنچ گیا ہے‘‘۔رپورٹ میں قرضہ میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مجموعی گھریلو پیداوار کی شرح کی سطح پر قرضوںکو مالی سال 2014-15کے54.95کے مقابلے میں مالی سال2015-16میں60.27ریکارر کیا گیا۔رپورٹ کے مطابق سال2015-16 کے دوران ان قرضوں کے تناسب میں مجموعی گھریلوں پیداور میں3.27اچھال دیکھنے کو ملا،جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ مجموعی گھریلوں پیداوار کے ہر ایک فیصد کے اضافے میں قرضوں کی شرح3.27فیصد بر گئی۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال2011-12کے دوران عوامی قرضوں کے مقابلے میں بازاری قرضوں کی سرح61.05تھی جو سال 2015-16 تک 65.70تک پہنچ گئی۔آڈیٹر اینڈ کیموٹولر جنرل کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے’’یہ اس بات کی علامت ہے کہ حکومت کی طرف سے اپنے اخرجات کو پورا کرنے کیلئے بازاروں سے بھاری سود پر قرضے ھاصل کئے گئے جبکہ ریاست کے اپنے وسائل کو آمدنی کا ذریعہ بنانے اور رقومات حاصل کرنے کا معاملہ پس پردہ ڈالا گیا‘‘۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو نئے قرضے حاصل کئے گئے ان میں سے70فیصد سے زیادہ رقم پرانے قرضوں کی ادائیگی میں خرچ کئے گئے جبکہ صرف30فیصد رقومات جائیداد کی تعمیر کیلئے اصل سرمایہ کے طور پر مختص رکھے گئے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ امسال ریاست کا خسارہ21ہزار832کروڑ روپے سے32ہزار606کروڑ روپے تک پہنچ گیا،جس سے ریاست مزید مرکزی مالی معاونت اور بازار سے قرضے حاصل کرنے کے در پر پہنچ گئی۔