الطاف حسین جنجوعہ
محکمہ قانون وانصاف حکومت ِ ہند اس بات کے لئے کوشاں ہے کہ عوام کو عدالتوں سے جلد انصاف ملے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے بھی بارہا ا س بات پرزور دیا ہے کہ مقدمات کا تصفیہ معیاد بند طریقہ سے کیاجائے اور عدالتوں کا رجوع کرنے والے عام شہریوںکی سہولت کے لئے ہرممکن اقدامات اُٹھائے جائیں۔تیز رفتار انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی جس نے زندگی کے ہرشعبہ میں انقلابی تبدیلیاں لائی ہیں، سے عدالتی نظام نے بھی بھر پور فایدہ اُٹھایا ہے۔اس حوالے سے عدالتوں میںای کورٹ سروسز ، ای فائلنگ کا نظام متعارف کرنا، آن لائن Virtual modeپرمقدمات کی سماعت جیسے اہم اقدامات قابل ِ ذکر ہیں۔
معمولی نوعیت کے فوجداری اور دیوانی مقدمات کے نپٹار ے کے لئے تسلسل سے لوک عدالتوں کا انعقاد بھی ہوتا ہے جہاںافہام وتفہیم سے معاملات حل کئے جاتے ہیں، لیکن جموں وکشمیر کی ریونیو عدالتیں اس پورے نظام سے مستثنیٰ نظر آتی ہیں۔ نائب تحصیلدار سے لیکر فائنانشل کمشنر تک ریونیو عدالتوں کا نظام انتہائی خستہ حال ،بدنظمی کا شکارہے جس وجہ سے عام افراد کے ساتھ ساتھ وکلاءبرادری کو بھی سخت مشکلات سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ ریونیو عدالتوں میں نان جوڈیشل افسران کو بطور ججوں کے فرائض انجام دینے کی جوذمہ داری دی گئی ہے، وہ اُس کی انجام دہی میں نہ صرف ناکام ثابت ہورہے ہیں بلکہ انصاف کا گلہ گونٹ رہے ہیں۔بہت سارے افسران ہیں جن کا کام قابل ِ ستائش بھی رہا ہے لیکن بیشتر ایسے ہیں جوکہ اپنے اِس فرض منصبی سے انصاف نہیں کرپارہے جس کی کئی اہم وجوہات ہیں ، جن کا درج ذیل تذکرہ کرتے ہیں۔
ریونیو عدالتوں میں نائب تحصیلدار، تحصیلدار، ایس ڈی ایم، اے سی آر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل صوبائی کمشنر، صوبائی کمشنر اور فائنانشل کمشنرشامل ہیں جنہیں ایکساتھ انتظامی امور کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی ہیں ، جس وجہ سے اُ ن کی پوری توجہ کورٹس میں نہ ہوکر دیگر معاملات میں رہتی ہے۔
ریونیو کورٹس میں کوئی باقاعدگی نہیں۔ریونیو افسران اپنی من مرضی کے حساب سے کورٹس میں بیٹھتے ہیں، کوئی وقت مقرر نہیں اور کورٹس میں بیٹھے بیٹھے لگاتار فون پر بھی باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات کسی افسر بالاکا اگر فون آیا تو فوری اُٹھ کر چلے جاتے ہیں ، واپسی کب ہوگی، کسی کو پتہ نہیں۔ یہ کیا بھدامذاق ہے۔ دور دراز علاقوں سے لوگ بشمول بزرگ حضرات ہزاروں روپے خرچ کر کے کئی مشکلات کے باوجود اپنے مقدمہ کی سماعت کا انتظار کرنا شروع کرتے ہیں اور تین چا ر بجے کلرک سے اگلی تاریخ لیکر تھکے ہارے گھر واپس لوٹنا پڑتاہے۔فریقین ِ مقدمہ کے ساتھ ساتھ وکلاءبھی پریشان حال۔ اگر ریونیو افسر خداخدا کر کے سماعت کے لئے بیٹھا بھی تو زیادہ کوشش یہی ہوتی ہے کہ اگلی تاریخ ہی ڈال دی جائے۔ وکلاءجو کہ تیاری کر کے آئے ہوتے ہیں کو سُننے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ افسر کی کوشش رہتی ہے 30-45منٹ کے اندر پوری Causelistکو ہی ختم کر دوں۔وکلاءکتنی ٹھوس دلائل اور قانونی نقطوں پر بحث کریں، بیشتر ریونیو افسران کو سمجھانا مشکل رہتا ہے ، اُس کی بڑی وجہ یہی بھی ہے کہ ریونیو کورٹس میں جن افسران کو جج کی ذمہ داری دی گئی ہے، اُن میں بہت کم تعداد لاءبیک گرائونڈ سے ہوتے ہیں ۔جس افسرسائنس، سماجیات، تاریخ یا اقتصادیات کالج یا یونیورسٹی سطح پر پڑی ہوگی اور بعد ازاں KASکا امتحان پا س کر لیا ہو یا ترقی پاکر اس عہد ے تک پہنچ گیا ہو، اُس کو تو قانونی امور پر اُتنی پکڑہونا مشکل ہے جتنی جوڈیشل افسران کو ہوتی ہے۔اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ذہین اور باصلاحیت افسران نہیں مگرایکساتھ کئی کام دیئے جانے کی وجہ سے وہ چاہ کر بھی اتنی توجہ نہیں دے پاتے۔
ریونیو افسران کی عجلت ،باقاعدگی کے ساتھ عدالتوں میں نہ بیٹھنے کی اہم وجہ یہ بھی ہے، اُنہیں ایک ساتھ کئی assignmentsدی گئی ہیں۔ ایک تحصیلدار پوری تحصیل کا مالک ہوتا ہے جس پر کئی اہم انتظامی و امن وقانون امور، فیلڈ دورے، اہم میٹنگوں وغیرہ کی بھی ذمہ داری رہتی ہے۔ ایسے میں ریونیو کورٹس پر توجہ مرکوز کرنا مشکل بھی ہوجاتاہے۔
رجسٹریشن کا کام بھی ریونیو افسران کو دیکر حکومت نے عوام اور وکلاءکی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ریونیو کورٹس کا کوئی ڈیکورم نہیں، وہاں پر بیٹھنے کا معقول انتظام نہیں ہوتا۔ وکیل جوکہ کورٹ افسر Law officer of Court ہوتا ہے کویہاں جاکر تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ریونیو افسران جان بوجھ کر اپنی انا اور افسری کی خاطر کئی سنیئر وکلاءکو بھی پریشان کرتے ہیں، کلریکل سٹاف کا رویہ ، طور طریقہ بھی نرالا ہے جس پر کتاب تحریر کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر سنیئر وکلاءنے اب ریونیو کورٹس میں جانا ہی چھوڑ دیا ہے اور اس کا نتیجہ راست مقدمات پر پڑ رہا ہے۔
ریونیو کورٹس میں آن لائن مقدمات کی تاریخ دیکھنے یا Causelistاپلوڈ کرنے کا کوئی نظام نہیں۔ اگر ایڈیشنل ڈویژنل کمشنر یا ڈویژنل کمشنر کے پاس کوئی مقدمہ اپیل یاRevision Petitionکی صورت میں زیر ِ سماعت ہے تو کسی دور دراز علاقہ سے تعلق رکھنے والے شخص جس کا وہ مقدمہ ہے۔ اگر کسی پیشی پر بعمل مجبوری نہ آسکا تواُس کو آئندہ تاریخ معلوم کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔کلریکل سٹاف کا رویہ اپنے افسران سے بھی دو قدم اوپر ہے، وہ فون اُٹھاکر راضی نہیں۔ لوگوں کو پھر خود ہزاروں روپے خرچ کر کے صرف تاریخ کا پتہ کرنے آنا پڑتا ہے۔جموں اور سرینگر جیسے بڑے شہروں میں ریونیو عدالتیں دور دور ہیں ۔ آن لائن کاز لسٹ نہ ہونے یا کوئی مقررہ وقت نہ ہونے کی وجہ سے فریقین اور وکلاءکو بہت مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے۔ جس روز ریونیو کورٹ میں کوئی کیس ہو، وہ پورا دن صرف ایک یا دو کیس کرنے میں ہی گذرجاتا ہے جس سے عدالتوں کا دیگر کام کاج متاثرہوتاہے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ ریونیو مقدمات کے نپٹارے کے لئے لوک عدالتوں کا قیام عمل میں نہیں لایاجارہا، حتیٰ کہ ایسا کرنے سے تیزی کے ساتھ معمولی معمولی نوعیت کے معاملات جو سالہا سال سے زیر التوہیں، کا نپٹارا ہوسکتا ہے۔جموں و کشمیر میں ریونیو کورٹس کا جو حال اس وقت ہے وہ انصاف کے نام پر بھدا مذاق ہے۔ انصاف کا گلہ گونٹے کے مترادف ہے۔ ریونیوکورٹس کے کام کاج میں اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ اِن پر لوگوں کا اعتماد بحال ہو اور وکلاءبرادری کو بھی مشکلات کا سامنا نہ کرناپڑے۔
حکومت کو چاہئے کہ ریونیو کورٹس کے کام کاج میں بہتری لانے کے لئے فوری چند اقدامات اُٹھائے جائیں، جن میں صرف اُنہیںافسران کو ریونیو مقدمات سُننے کی ذمہ داری دی جائے جنہوں نے گریجویشن پرقانون پڑھا ہو۔ جموں وکشمیر انتظامیہ کے پاس سینکڑوں کی تعداد میں ایسے افسران موجود ہیں جولاءبیک گرائو نڈسے ہیں،جنہیں وقتاًفوقتاًاورنٹیشن پروگرام کرانا بطور جج موثر طریقہ سے اپنی ذمہ داری انجام دینے کے اہل بنایاجاسکتا ہے۔یا ریونیو معاملات کی ذمہ داری جوڈیشل افسران کو دی جائے۔فائنانشل کمشنر سے لیکر نائب تحصیلدار سطح تک ریونیوکورٹس میں لوک عدالتوں کا اہتمام کیاجانا چاہئے تاکہ افہام وتفہیم سے معاملات حل کئے جائیں ۔ریونیو کورٹس کو بھی ای کورٹ سروسز کے ساتھ جوڑا جائے یا الگ سے مخصوص آن لائن ویب سائٹ تیار کی جائے۔ریونیو کورٹس کا وقت باقاعدہ مقرر کیاجائے اور اُس وقت کے دوران ہرحال میں کورٹس کے اندر ریونیو افسران بیٹھیں ۔فی الفور کم سے کم ہفتے میں کچھ دن ریونیو معاملات کے لئے مخصوص بھی کئے جاسکتے ہیں اور اس میں پورا دن وہ صرف یہی کام کریں۔
ریونیو کورٹس بہت اہم ہیں لیکن اِن کے نظام میں بہتری لاناناگزیر بن چکا ہے تاکہ فریقین ِ مقدمہ اور وکلاءکی مشکلات میں کمی آئے۔حکومت ِ ہند اور جموں وکشمیر یوٹی انتظامیہ جوکہ انصاف کی فراہمی کے لئے کوشاں ہے اور کئی اہم اقدامات کئے جارہے ہیں۔ توقع رکھتے ہیں کہ Revenue Courtsکو بہتر، موثر اور عوام دوست بنانے کے لئے ضروری اصلاحات کئےجائیں گے۔حکومت کو چاہئے کہ اِس کے لئے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جائے جوکہ اس بات کی بھی اسٹڈی کر کے ملک کے اندر دیگر ریاستوں میںریونیو کورٹس کا کام کاج کس طرح ہے اور جوڈیشل کورٹس کے اندر اس وقت کیا نظام متعارف ہے، اُس کو رائج کیاجائے۔
رابطہ۔7006541602
(کالم نویس جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے وکیل ہیں)
:[email protected]