جموں میں بجلی کا بحران مزید سنگین ، 8 سے 12 گھنٹے طویل غیر اعلانیہ

سید امجد شاہ
جموں//جموں میں بجلی کا بحران مزید گہرا ہو گیا ہے جس نے ان گرمیوں میں خطے کے میدانی علاقوں میں بڑھتی ہوئی گرمی کے درمیان 8 سے 10 گھنٹے طویل غیر اعلانیہ کٹوتیوں کے بعد لوگوں میں متعلقہ حکام کے خلاف غصہ پیدا کر دیا ہے۔ایک عہدیدارنے بتایا کہ ان کے پاس بجلی بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔انہوںنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا’’ہم بجلی کی فراہمی فراہم کر رہے ہیں جو ہمارے پاس دستیاب ہے اور اس کے مطابق ہر علاقے کو بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کٹوتی کی جا رہی ہے اور کٹوتیوں سے کسی خاص علاقے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘‘۔انہوں نے کہا ’’ہمیںجموں و کشمیر میں تقریباً 3000 میگاواٹ بجلی درکار ہے یعنی کشمیر میں 1700 میگاواٹ اور جموں میں 1300 میگاواٹ بجلی درکار ہے۔تاہم ہم تقریباً 3000 میگاواٹ (فی گھنٹہ) کی ضرورت کے برعکس 1500 میگاواٹ کی سپلائی کرکے کل طلب کا 50 فیصد پورا کر رہے ہیں۔ ریاستی سیکٹر کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹوں سے جموں و کشمیر میں 425 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے اور سنٹرل سیکٹر ہائیڈرو پاور کے تحت 12 فیصد بجلی یونین ٹیریٹری کو فراہم کی جاتی ہے۔ لیکن دستیاب بجلی طلب کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے‘‘۔انہوںنے کہا کہ انہیں جموں و کشمیر سے 600 سے 700 میگاواٹ بجلی خریدنی پڑتی ہے جو کہ طلب کا صرف 50 فیصد ہی کافی ہے کیونکہ پیداوار سے سپلائی کی کمی کی وجہ سے اسپاٹ مارکیٹ میں فی یونٹ قیمت 12 روپے ہے۔ اسٹیشنوں اور بجلی کی خریداری کے بل میں تیزی سے اضافہ دیکھا جائے گا جو بجٹ کی رقم میں پورا نہیں کیا جا سکتا۔دریں اثناعہدیدارکہا “تھرمل پاور پراجیکٹوں میں کوئلہ بھی مناسب مقدار میں دستیاب نہیں ہے اور اس نے بجلی مہنگی کردی ہے اور اس نے حکام کو زیادہ نرخوں پر خریدنے میں بے بس کردیا ہے”۔افسر نے مزید کہا”کوئلے کی مناسب فراہمی کی کمی نے تھرمل پاور پلانٹس میں بجلی کی پیداوار کو متاثر کیا ہے۔ لہٰذا، اس نے مجموعی طور پر نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی بجلی کے منظر نامے کو متاثر کیا ہے‘‘۔اس صورتحال میں متعلقہ حکام اشتہارات اور دیگر ذرائع سے حکومت کی پوزیشن کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ پاور سیکٹر کی موجودہ صورتحال سے عوام کو آگاہ کرنے کے لیے عوام کا تعاون حاصل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

 

 

جموں چیمبر بھی سیخ پا،فوری اقدامات کرنے پرزور

سید امجدشاہ

جموں// شدید بجلی بحران کے بیچ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (سی سی آئی) جموں کے صدر ارون گپتا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ صنعتوں اور عام گھرانوں کو بحران سے نجات دلانے کے لئے چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے۔ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گپتا نے کہا کہ “جہاں تک بجلی کی فراہمی کا تعلق ہے جموں خطہ کا موجودہ منظر نامہ انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ جدید ترین سمارٹ میٹر والے علاقوں میں بھی بجلی کی غیراعلانیہ کٹوتی سے نہیں بچایا جا رہا ہے جس سے پرانے میٹر رکھنے والے صارفین کی صورتحال ایک طرف ہے “۔انہوں نے کہا “سمارٹ میٹر لگانے کے باوجود جموں کے لوگوں کو باقاعدہ بجلی کی سپلائی نہیں مل رہی ہے اور انتظامیہ سے سوال کیا کہ اگر متعلقہ ادارے بار بار بجلی فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں تو اسمارٹ میٹر لگانے کا کیافائدہ ہے”۔ان کا کہناتھا”بجلی کے بحران نے صنعتی علاقوں میں کام کو روک دیا ہے جو کہ UT کے لیے اچھاہے کیونکہ یہ اس خطے میں ترقی کے بارے میں جو اندازہ لگایا جا رہا ہے اس کے برعکس ہے۔ خطے میں بجلی کا کوئی مناسب شیڈول نہ ہونے کے باعث عام آدمی کو خوفناک تجربے کا سامنا ہے جو کہ ناقابل قبول ہے کیونکہ لوگ ایل جی انتظامیہ کے تحت چوبیس گھنٹے سپلائی کی توقع کر رہے تھے‘‘۔ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں مزید کہاکہ ماضی میں حکومت بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے دوسری ریاستوں سے بجلی لاتی تھی، ایل جی کو صنعت کو بلاتعطل سپلائی فراہم کرنے اور عام لوگوں کے لیے بجلی کی کٹوتی کو یقینی بنانے کے لیے شمالی گرڈ سے بجلی تک خصوصی گرانٹ طلب کرنی چاہیے کیونکہ موجودہ غیر یقینی صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے اور لوگوں کے لیے غیر ضروری مسائل پیدا کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ بجلی کے بحران نے جموں خطہ کے طور پر بجلی، پانی اور دیگر شہری عمارتوں کے مسائل کو جنم دیا ہے۔

 

 

‘بجلی دو، کرایہ لو’ ،ڈوڈہ سیول سوسائٹی برہم

 حکومت و محکمہ کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیا 

اشتیاق ملک

ڈوڈہ //یوٹی کے دیگر حصوں کی طرح ڈوڈہ ضلع میں بھی بجلی کی شدید بحران پیدا ہوا ہے جس کے نتیجے میں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سرکاری و نجی اداروں میں کام کاج پچھلے کئی ہفتوں سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے جبکہ افطاری و سحری کے اوقات میں بھی بجلی غائب رہتی ہے۔ بجلی کی غیر اعلانیہ کٹوتی و ناقص کارکردگی پر سیول سوسائٹی نے حکومت کی بے رخی و متعلقہ اداروں کی نااہلی پر غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے ‘بجلی دو کرایا لو، بجلی نہیں تو کرایا نہیں’ کی مہم شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔سابق سرپنچ و سماجی کارکن لیاقت علی شیخ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کہ جہاں رمضان المبارک کے مہینے میں انتظامیہ کے دعوؤں کی پول کھل گئی وہیں بجلی کی عدم دستیابی سے سرکاری دفاتر و باالخصوص ہسپتالوں میں بھی مریضوں و عام لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نجی کاروباری اداروں کا کام کاج ٹھپ پڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ چوبیس گھنٹوں میں سے بیس گھنٹے بجلی گل ریتی ہے اور باقی چار گھنٹوں میں بھی بجلی آتی جاتی رہتی ہے۔ڈی ڈی سی کونسلر کاہرہ معراج الدین ملک نے بجلی کے بحران پر حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ چناب خطہ سے سینکڑوں میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاں کی آبادی کو گھپ اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔انہوں نے کہا سبھی سیاسی جماعتوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ستر برس انہوں نے جموں و کشمیر کی عوام کا استحصال کیا اور نفت بجلی و پانی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان حکمرانوں نے عوام کو شروع سے ہی اندھیرے میں رکھا۔معراج ملک نے کہا کہ بجلی نہیں تو کرایا نہیں کی مہم وہ عنقریب شروع کریں گے۔انہوں نے کہا کہ بجلی کے بغیر کرایا وصول کرنا ناانصافی ہے جو وہ برداشت نہیں کریں گے۔