جموںوکشمیر تب ریاست ہی تھی جب یہاں بجلی محکمہ کی نجکاری شروع کرکے باضابطہ طور نیم خود مختار کارپوریشنوںکاقیام عمل میں لاکر محکمہ بجلی کے ملازمین کو ان کارپوریشنوں کے ساتھ منسلک کردیاگیاتھا۔گوکہ اس حکومتی پالیسی کے خلاف احتجاج بھی ہوا تھا لیکن بات بن نہیں پائی تھی اور حکومت اس پالیسی پر تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتی رہی ۔5اگست2019کو جب جموںوکشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کرکے اس ریاست کی تنزلی عمل لاکر اس کو مرکز کے زیر انتظام دیاگیا تو لیفٹنٹ گورنر انتظامیہ نے بھی سابق پالیسی کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے نفاذ میں مزید سرعت لائی اور پھر ایک دفعہ ملازمین احتجاج کی راہ پر نکل پڑے لیکن پھر ایک دفعہ ملازمین کو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگا اور بجلی شعبہ کی نجکاری جاری رہی ۔
اس سارے عمل میں کورونا کا بحران شروع ہوا اور اب امید کی جارہی تھی کہ شاید یہ بحران ختم ہوکر اس فیصلہ پر نظر ثانی کی جائیگی لیکن اب ساری امیدوںپر پانی پھیر گیا ہے کیونکہ اب مرکزی حکومت نے باضابطہ اعلان کیا ہے کہ مرکزی زیر انتظام علاقوں میں بجلی کے ترسیلی نظام کی نجکاری کی جائے گی اور اس کے بعد اس سلسلے کو ریاستوں میں بھی دہرایا جائے گا۔اس بات کا اعلان مرکزی وزیر خزانہ نے گزشتہ دنوں کیا۔گوکہ نرملا سیتھا رمن نے اس فیصلہ کیلئے بجلی ترسیل و تقسیم کاری نظام کی غیر اطمینان بخش کارکردگی کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ نجکاری سے نہ صرف بجلی سپلائی کانظام بہتر ہوگا بلکہ صارفین کوبھی راحت ملے گی تاہم عملی طور یہ فیصلہ صارفین کیلئے کوئی راحت نہیں لائے گا بلکہ اس سے صرف اور صرف حکومت اور اُن کمپنیوں کا فائدہ ہوگا جنہیں یہ ٹھیکے ملیں گے۔
اس سے قبل مرکزی وزیر بجلی آر کے سنگھ نے انڈسٹری نمائندوں سے کہاتھا کہ وہ ٹینڈرنگ کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ساتھ ہی کہا تھا کہ آنے والے دنوں میں نظر ثانی شدہ بجلی فیس پالیسی سامنے لائی جائے گی ،جس میں صارفین کے حقوق ،نجی شعبہ کے فروغ اور بجلی سیکٹر کی پائیداری پر توجہ دی جائے گی۔نئی پالیسی کے تحت بجلی پیدا کرنیوالے اور اس کی ترسیل یقینی بنانے میں ماہر نجی کمپنیوں کو ٹینڈرنگ کے ذریعے منتخب کیاجائے گا اور انہیں سبسڈی اور سمارٹ میٹروں کی تنصیب کے فوائد بھی دئے جائیںگے۔معلوم ہوا ہے کہ نئی پالیسی بہت جلد مرکزی کابینہ میں پیش ہوگی اور آئندہ ایک ماہ میں پورے ملک میں نافذ ہوگی۔
وزیر خزانہ اور وزیر بجلی کے بیانات چشم کشا ہیں کہ حکومت بجلی سیکٹر کی نجکاری کا فیصلہ لے چکی ہے اور اب اس کو صرف عملی جامہ پہنانا باقی ہے ۔یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے ۔ہم نے دیکھا ہے کہ آج تک جتنے بھی شعبوںکو نجی سیکٹر میںدیاگیا ،بھلے ہی ان شعبوں کی مالی صحت بہتر ہوئی ہو تاہم عوام کو اس کا فائدہ نہیں ملا بلکہ نجی سیکٹر کے کھلاڑیوںنے پھر لوگوںکاخون سوچنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔بجلی سیکٹر کی نجکاری کہنے کو تو اچھی لگتی ہے لیکن چونکہ بجلی ملک کے ہر گھر کی ضرورت ہے تو اس کو نجی ہاتھوں میںدینے کا فیصلہ عوام دوست نظر نہیںآرہا ہے ۔بادی النظر میں لگ رہا ہے کہ حکومت بجلی سیکٹر کے بھاری خسارہ سے تنگ آچکی ہے اور وہ اب اس مصیبت سے دامن چھڑانا چاہتی ہے ۔بے شک بجلی سیکٹر میں خسارہ معمول بن چکا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ خسارہ کیوں ہورہا ہے ؟ ۔اپنی نااہلی اور کوتاہیوں کیلئے صارفین کو ذمہ دار ٹھہرانا جائز نہیں ہے۔پورے ملک میں بجلی سیکٹر میں زیادہ تر نقصان ترسیلی و تقسیم کاری نظام میںہوتا ہے ۔اگر بجلی کے ترسیلی نظام میں زیادہ نقصان ہورہا ہے تو اس کیلئے لوگ ذمہ دار نہیںہیں۔ظاہر ہے جب ڈھانچہ ہی معیاری نہ ہوتو ترسیلی نقصانات کو روکا نہیں جاسکتا ہے ۔بجلی کی ترسیل کے دورا ن جتنی بڑی مقدار میں توانا ئی ضائع ہوجاتی ہے ،وہ اصل میں ناقص ڈھانچہ کی وجہ سے ہورہا ہے۔ملک میں کئی سکیمیں رائج ہوئیں ۔کھربوں روپے خرچ کئے گئے لیکن ترسیلی سیکٹر کی حالت بدلنے کانام نہیںلے رہی ہے ۔اگر حکومت اتنا ہی تنگ آچکی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ تھرڈ پارٹی آڈٹ کرائے اور غیر جانبدار اور غیر سرکاری لوگوں کی خدمات مستعار لیکر اس بات کا پتہ لگوائیں کہ آخر یہ کھربوں روپے اگر خرچ کئے گئے تو ڈھانچہ کی حالت بہتر کیوں نہ ہوئی۔کاغذوں میں بے شک سب کچھ ٹھیک ٹھاک نظر آئے گا لیکن زمینی سطح پر خدا ہی حافظ ہے۔
اسی طرح تقسیم کاری نظام کا حا ل بھی بے حال ہی ہے ۔یہاں بھی کھربوں روپے صرف ہوئے لیکن عملی طور کچھ نہیں بدلا ۔بجلی چوری کا جہاں تک تعلق ہے تو عین ممکن ہے کہ کچھ معاملات میں ایسا ہورہا ہے لیکن بحیثیت مجموعی لوگ فیس ادا کررہے ہیں۔اگر میٹر وں کی صد فیصد تنصیب ملک اور جموںوکشمیر میںنہیں ہوئی ہے تو اس کیلئے صارفین نہیں بلکہ حکومت ہی ذمہ دار ہے ۔اگر حکومت کو لگتا ہے کہ بجلی فیس کی وصولی سے زیادہ خرچ ہورہی ہے تو انہیں میٹروںکی تنصیب سے کس نے روکا ہے ؟ لوگ میٹر لگوانے کیلئے تیار ہیں لیکن یہ قطعی جائز نہیں کہ آپ صارفین پر سارا ملبہ گرا کر اپنی نااہلی کو چھپاتے چلے جائیں۔نجی سیکٹرہر مرض کی دوا نہیںہے اور بجلی کی نجکاری یقینی طور پر آنے والے وقت میں ایک غیر مقبول فیصلہ ثابت ہوگا جو حکومت پر ہی بھاری پڑ سکتا ہے ۔