شیخ سعدی شیرازی کا نام شرف الدين لقب مصلح الدین اور والد كا نام عبداللہ تھا۔انہیں’حکیم مشرق ‘کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اور سعدی ان کا تخلص ہے۔ ان کی صحیح تاریخ پیدائش معلوم نہیں ہے،البتہ ایران کے جدید تاریخ نگاروں کا کہنا ہے کہ شیخ سعدی کی پیدائش ۱۱۸۴ ء میں ایران کے شہر شیراز میں ہوئی اور ان کی وفات سن ۶۹۱ ہجری سے سن ۶۹۴ ہجری کے درمیان ہوئی۔ آپ ایک بہت بڑے معلم مانے جاتے ہیں اسلئے ’’معلمِ اخلاق‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔آپ کے والد عبداللہ ، شیراز کے حکمران سعد بن زنگی کے ملازم تھے۔شیخ سعدی شیرازی کا تعلق شیراز کے ایک پڑھے لکھے گھرانے سے تھا جو اپنے علم اور قابلیت کی وجہ سے مشہور تھا۔سعدی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی،پھر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا کیونکہ بچپن میں ہی ان کے والد صاحب انتقال کرگئے۔والد کی وفات کے بعد شیخ سعدی شیرازی نے شیراز کے مشہور و معروف علماء سے تحصیل علوم کی اور پھر مزید تعلیم کیلئے جامعہ بغداد آئے۔آپ نے المدرسة التظامىيه میں داخلہ لیا اور شیخ شہاب الدین سہروردی سے مزید تعلیم حاصل کی۔
شیخ سعدی نے طویل عمر پائی اور زندگی گا بیشتر حصہ سیروسیاحت میں گزارا، آپ کو سیروسیاحت کا بے انتہا شوق تھا۔ایک انگریزی مورخ لکھتا ہے کہ شیخ سعدی ابن بطوطہ کے بعد مشرق کے دوسرے بڑے سیاح ہے۔ آپ نے فلسطین،شام،مصر،عراق،مكہ مکرمہ،مدینہ،ایشیا،شمالی افریقہ،ہندوستان اور ترکستان کا سفر کیا ۔کہا جاتا ہے کہ آپ نے چودہ حج کئے۔ سفر کے دوران شیخ سعدی نے بہت سے مشکلات کا سامنا کیا۔لیکن انہوں نے اپنے اخلاق،اعمال، ہمت اور بہادری سے زندگی کے تمام مشکلات کا مقابلہ کیا۔
شیخ سعدی شیرازی نے فارسی اور عربی دونوں زبانوں میں مہارت حاصل کی،اور دونوں زبانوں میںشاعری کی اور نثر بھی لکھا۔شاعری میں ان کی مثنوی ’’بوستان ‘‘شائع ہوئی اور نثری کتابوں میں ’’گلستان ‘‘شائع ہوئی اور دونوں کتابوں کو بہت زیادہ شہرت اور اہمیت ملی۔ ’’گلستان‘‘ اپنی فکری تازگی اور دانش و حکمت کے بنا پر ادبِ عالیہ میں شمار کی جاتی ہے۔دُنیا میں پائی جانے والی تمام زبانوں میں اس کے تراجم (translation) ہو چکے ہیں۔بوستان میں سعدی نے قناعت پسندی،احساس مندی،فیاضی اور عاجزی جیسے مضامین کے بارے میں بیان کیا ہے۔جبکہ گلستان میں خاموشی،تاثیر و تربیت،آداب،اخلاقیات،بوڑھاپے کی آزمائشوں،قناعت کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ حکمت و دانش سے بھر پور ان کے اقوال شامل ہیں۔آپ کو ان اقوال زریں کی وجہ سے بہت شہرت حاصل ہے۔ایک جگہ وہ کہتے ہے كتا دُنیا کی ذلیل ہستی شمار ہوتا ہے،مگر حق شناس کتا نا شکر انسان سے بہتر ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ انسان کے پاس ہے اس کیلئے اُسے مشکور ہونا چاہئے اور اس کی قدر کرنی چاہئے۔ ان کا کہنا ہے کہ حاسد کیلئے بددُعا کرنے کی ضرورت نہیں،کیونکہ وہ پہلے ہی حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے۔
سعدیؒ اپنا واقعہ یوں بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میرے پائوں میں جوتا نہ تھا اور جیب میں کوئی پیسہ بھی نہ تھا کہ اس سے جوتا خرید سکوں۔ ننگے پاؤں جا رہا تھا اور دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ خدا نے میرے نصیب کتنے خراب بنائے ہیں۔ اسی حالت میں چلتے چلتے کوفہ کی جامع مسجد میں جا پہنچا، وہاں ایک آدمی کو دیکھا، جس کے پاؤں ہی نہ تھے۔ میں فوراً خدا کے حضور سجدے میں گر گیا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ جوتا نہ سہی، خدا تعالیٰ نے مجھے پاؤں تودے رکھے ہیں۔
اپنے بچپن کا ایک اور واقعہ شیخ سعدیؒ کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ایک شب کو میں اپنے والد صاحب کے ساتھ مسجد میں گیا، میرے والد ساری رات وہاں عبادت کرتے رہے، ان کے ساتھ میں بھی نماز میں مشغول ہو گیا۔ ہمارے نزدیک چند آدمی گہری نیند سورہے تھے۔ میں نے والد صاحب سے کہا کہ یہ لوگ ایسے سو رہے ہیں، جیسے مر گئے ہوں۔ کسی نے نماز پڑھی اور نہ دعا کی۔ والد نے کہا بیٹے اگر تو بھی نوافل نہ پڑھتا، ذکر نہ کرتا اور ان لوگوں کی طرح سو جاتا تو اس سے بہتر ہوتا کہ تو ان کی برائی بیان کر رہا ہے (یعنی غیبت کررہا ہے وغیرہ)
جہاں تک شیخ سعدی کی غزلوں کا تعلق ہے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان میں جدت پسند تھے، ان میں سب سے زیادہ تخلیقی جذبات شامل ہیں ، صوفیانہ جذبے کے ساتھ، ان میں وہ جس حد تک پہنچے ہیں، کوئی دوسرا شاعر نہیں پہنچا۔ اگرچہ شیخ سعدی کی کہانیوں اور اس کے حکم سے یہ بات واضح ہے کہ وہ صوفیوں گروہ میں شامل ہو گئے تھے، لیکن وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جنہوں نے زندگی کے معاملات سے ہاتھ توڑے اور نہ ہی ان لوگوں میں سے جنہوں نے رہبانیت کا سہارا لیا۔ ان کے خیالات کی مہربانی، ان کی روح کی چمک، ایک معتدل زندگی اور ایک متوازن کام تھا۔اخلاقی اور ادبی دونوں سطحوں پر شیخ سعدی کا اثر نہ صرف فارس بلکہ پوری دنیا میں بے حد ہے۔خطے کے نامور شاعر ہونے کے باوجود شیخ سعدی نے محسوس کیا کہ انھوں نے اپنی زندگی ابھی تک ضائع کی ہے اور کوئی خاطر خواہ قابل ذکر کام نہیں کیا۔ اس وجہ سے انھوں نے اپنی باقی ماندہ زندگی خاموشی کے ساتھ گزارنے کا عہد کر لیا۔لیکن پھر ایک دوست کے اصرار پر انھوں نے اپنی قسم توڑ دی۔ وہ شیراز میں موسم بہار کا زمانہ تھا اور دونوں دوست باغ بہشت میں سیر کے لیے نکلے تھے۔حیرت انگيز طور پر پھول اور جڑی بوٹیاں جمع کرنے کے بجائے سعدی نے شاعر اور فلسفی خیام کے انداز میں ان اشیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا اور اپنے دوست سے کہا کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھيں گے جو تعلیمی بھی ہو اور دلچسپ بھی ہو، اس کا نام گلستاں ہوگا جس کے صفحات ہمیشہ رہیں گے۔سعدی نے لکھا:
بنیآدم اعضای یک پیکرند که در آفرينش ز یک گوهرند
یعنی 'انسان ایک جوہر سے تخلیق ہوا ہے اور وہ ایک ہی جسم کے اعضا ہیں۔ یہ آج نہ صرف ان کی سب سے زیادہ نقل کی جانے والی نظم ہے بلکہ یہ فارسی زبان بولنے والی دنیا کی سب سے مشہور نظم بھی ہے۔ اس کے آگے وہ کہتے ہیں:
چو عضوى بهدرد آورَد روزگار
دگر عضوها را نمانَد قرار تو کز محنت دیگران بیغمی
نشاید که نامت نهند آدمی
یعنی 'اگر کسی عضو کو تکلیف ہو تو باقیوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ جو دوسروں کی تکلیف پر کوئی رنج و غم محسوس نہیں کرتے انھیں انسان نہیں کہا جاسکتا۔ان کا کہنا ہے کہ جو برُی صحبت میں بیٹھتا ہے،اس کی سوچ کبھی اچھی نہیں ہوگی۔اسی طرح سعدی نے گلستان میں لکھا’’علم حاصل کرنے کے لیے خود کو شمع کی مانند پگھلائو۔‘‘
درحقیقت شیخ سعدی کے یہ چھوٹے چھوٹے واقعات اپنے اندر اخلاقی تربیت کا بہت بڑا خزانہ رکھتے ہیں۔ ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں برُی صحبت میں بیٹھنے سے بچنا چاہیے، فضول باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے، ہم سب کو غیبت جیسے گناہ کبیرہ اور خدا تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کی ناشکری سے بچنا چاہئے اور اپنے بڑے بزرگوں کی باتوں پر عمل کرنا چاہئے۔ شیخ سعدی نے قریباً ۶۹۱ ہجری کو شیراز میں داعی اجل کو لبیک کہا اور شیراز میں ہی سعدیہ کے مقام پر مزار شریف مرجع خلائق ہے۔اللہ ربّ العزت ہمیں شیخ سعدی شیرازی کے نصیحت آموز اقوال پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے