جماعت اسلامی پر ۵ سالہ پابندی!

ستر کی دہائی میں زلزلوں سے متاثر ہ علاقہ بڈگام کے عوام کی باز آباکاری ہو یا یاری پورہ میں آتش زدگی سے متاثر ہ پنڈت برادری کی راحت کاری ہو، سرینگر ہو یا جموں ، کپواڑہ ہو یا کشتواڑ ، مفلوک الحال اور محتاجِ امداد لوگوں کی کماحقہ خدمت میں اوروں کے ساتھ ساتھ جماعت بھی پیش پیش رہی ہے ۔2014ء میں کشمیر میں قیامت خیز سیلاب کے دوران دیگر رضاکاروں کے دوش بہ ودش جماعت کے عام کارکن سے لے کراعلیٰ سرکاری مناصب پر فائز ارکان،ڈاکٹروں اور انجینئروںنے سیلاب زدگان کی راحت رسانی میں اپنا تعاون پیش کیا اور سرینگر شہر میں گلی گلی جا کر صفائی مہم میںحصہ لیا، یوں اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق خدمت خلق کا روشن باب رقم کر دیا ۔ تعلیم وتدریس کے میدان میں بھی جماعت کاکام سراہا جاتارہاہے ، تین سو سے زائد اسکولوں میں نہایت کم معاوضے پر کام کر نیو الے اساتذہ ناخواندگی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ ر ہے ہیں، ان اسکولوں میں زیر تعلیم ہزاروں یتیم بچوں بچیوںکوبلامعاوضہ تعلیم کے ساتھ ساتھ وردی اور کتابیں بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں ، سماج کو آج تک ان تعلیم گاہوں کی بدولت ہزاروں قابل ڈاکٹر ،انجینئر ،وکیل ، تاجر ، بڑے عہدیدار،سیاست دان عطا ہوئے جو اپنے اپنے شعبے انسانیت کی خدمت میںپیش پیش ہیں ۔بھلا جس جماعت کا ٹریک ریکارڈ یہ ہو اور جو اول تا آخر ایک تحریری د ستور کی پابند ہو ، بالائے زمین ہو ، اس کو بلا کسی ثبوت وشہادت کے زبان کے چٹخارے میں عسکریت کے ساتھ نتھی کر نا کیا معنی رکھتا ہے؟ بلاشبہ جماعت کا کشمیر مسئلہ پر ایک جچا تلا حقیقت پسندانہ سیاسی موقف ضرورہے ، مگروہ کیوں کر کسی ملکی سا  لمیت کے لئے خطرہ ہو سکتا ہے ؟ جو جماعت امن کی داعی ہو ، دنیا کے مظلوم انسانوں کے درد و غم میں شریک وسہیم ہو ،وہ انسانیت کے لئے خطرہ کیسے ہو سکتی ہے ؟ 
جماعت پر پابندی کے خلاف حریت کانفرنس سمیت مذہبی تنظیموں اور مختلف الخیال لوگوں کے مذمتی بیانات مسلسل منظر عام پر آرہے ہیں ۔ سماج کے ایک حساس طبقے کا  تبصرہ یہ ہے کہ کسی نظم کو قید و بند کی بیڑیوں میںجکڑا جا سکتا ہے لیکن کسی معقول ومبنی برحق نظریے کو قید کرنا کسی کے بس کاروگ نہیں اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ شاید اسی حقیقت کو ادراک کر تے ہوئے جماعت کے نظریاتی حریف اور سیکولر ازم کے داعی ڈاکٹر فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی ، غلام بنی آزاد نے مودی سرکار کی طرف سے جماعت پرعائد ممانعت کی مخالفت کی ہے ،آزاد کا یہ کہنا بالکل دُرست ہے کہ اگر جماعت اسلامی کے خلاف کسی غیر قانونی کام میں ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت مرکز کے پاس ہے، تواسے فوراً سے پیش تر منظرعام پر لایا جانا چاہیے، ورنہ اس پابندی کا کوئی تُک نہیں ۔ واضح رہے جماعت ایک نظریاتی تحریک اور اسلامی فکر کانام ہے ، یہ ایک سوچ ہے جس کو قید کرنا نا ممکنات میں سے ہے ۔ تاریخ کا فتویٰ ہے کہ غیر جمہوری اور غیر اخلاقی حربوں سے کوئی نظریہ دبتا ہے نہ مٹتا ہے ، علی الخصوص جب نظریے کی پشت پر دین ِ خدواندی کی مہر ثبت ہو تو اس کے دوامِ ابدی میں کوئی دورائے نہیں ہوسکتیں۔ کشمیر کے ایک سیاسی طبقے کا یہ ماننا ہے کہ اس طرح کی پابندی اور قدغن کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں جیسا کہ ماضی میں بھی ہوا کہ اسمبلی الیکشن میں تحاشہ انتخابی دھاندلیوںنے محمد یوسف شاہ کو صلاح الدین بنادیا ۔ جمہوری نظام میں کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی جمہوری جماعت کی political space ختم کر کے اپنے نظریہ کو بزور ِبازو پھیلانے یا غالب کر نے کی کوشش کرے ۔ پابندی تو ان تنظیموں پر لگنی چاہے جو نیشنل از م اور دیش بھگتی کے نام پر انسانیت کی مار کاٹ کر رہے ہیں ،جو ہاتھوں میں ننگی تلواریں اور ترشول لے کر سر عام گھوم پھر کر شریفوںکا قافیہ ٔ حیات تنگ کر رہے ہیں۔دلی سرکار کو یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ کشمیر میں امن کی راہ بے انصافی سے نہیں نکل سکتی، اس لئے عقل ودانش کا تقاضا ہے کہ مرکز بغیر کسی تامل کے جماعت سے پابندی ہٹا کر اس کے تمام قیدیوں کو رہا کر دے تاکہ یہاں سیاسی گھٹن اور دباؤ کا کلچر کلی طور ختم ہو اور توازن ومعقولیت کی سوچ پروان چڑھے تا کہ یہ سرزمین ظلم و تشدد کی تاریکیوں سے نجات پاسکے۔