جب سے دونوں نے اپنا سیاسی سفر شروع کیا ، تب سے وہ ناگزیر موازنہ کا نشانہ بنتے رہے ، کچھ منصفانہ اور کچھ غیر منصفانہ۔ عوامی نمائندوں،اپوزیشن لیڈروں اور یوتھ آئیکنز کے طور ان کے اقدامات اور کارکردگی پر کافی سوالات اٹھائے گئے ۔ ان میں سے کس نے دوسرے کو پچھاڑ دیا،یاان میں سے کون سا آگے نکل آیا، یہ سوچ کے زاویوں کی بات ہے یاجہاںتک اس کہانی کا تعلق ہے تو شایدابھی بھی بہت سارے ابواب باقی ہیں۔ صرف وقت ہی بتائے گا۔
یہ ناگزیر موازنے اُس وقت شدت اختیار کر گئے جب محبوبہ مفتی نے 1999 میں لوک سبھا کے انتخاب کے دوران عمر عبداللہ سے سری نگر پارلیمانی نشست سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ گوکہ نتیجہ بہت سوں کو حیران نہیں کرسکا ، محبوبہ پھر بھی ایک بات منوانے میں کامیاب ہوگئی ، جو شاید اُن کے والد کے ذہن میں تھی ، جب انہوں نے محبوبہ کو شیخ محمد عبداللہ کے پوتے کے خلاف اُس نشست سے چنائو لڑنے کیلئے کھڑا کیاجہاں ہمیشہ عبد اللہ خانوادے کا دبدبہ رہا تھا جبکہ مفتیوں کی جو بھی موجودگی تھی ،وہ بنیادی طور پر جنوبی کشمیر تک ہی محدود تھی۔گوکہ عمر الیکشن جیت گئے ، محبوبہ نے پھر بھی ایک پوائنٹ سکور کیا۔ اُنہیں اچانک شیخ عبداللہ کے پوتے کے ایک ممکنہ حریف اور متبادل کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ زمین زرخیز تھی اور مفتی محمد سعید نے بیج بویا تھا۔ جہاں عمر نے ایک ہیلی کاپٹر لینڈنگ کی تھی جس کیلئے ا ُنہیں ذمہ دار بھی ٹھہرایانہیں جاسکتا، محبوبہ نے بھی اپنا کام شروع کردیا تھا۔
کئی سارے اسمبلی انتخابات ہوئے ، پارلیمنٹ کے بہت سے انتخابات آئے اور چلے گئے ، عمر اور محبوبہ دونوں ہی وزیر اعلی بھی بن گئے اوردونوںکوسیاسی طور پر حساس ریاست،جو اب سکڑ کر مرکزی زیر انتظام علاقہ رہ گیا ہے، سے نمٹنے کے دوران کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
برسراقتدار بی جے پی ، جو ان دونوں کی اتحادی رہی ہے ،کو اچانک ہی پتہ چلا کہ یہ دونوں (دوسرے رہنماؤں کے علاوہ) عوامی تحفظ کے لئے خطرہ ہیں لہٰذا انہیں نظربند رکھنے کی ضرورت ہے۔یہ وہی بی جے پی تھی جو کچھ عرصہ قبل محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کے ساتھ حکومت میں تھی اور یہ وہی جماعت تھی جس کے ساتھ عمر عبد اللہ 2002 میں وزیررہے تھے۔
جب مرکز میں بی جے پی کی حکومت نے جموں و کشمیر کوحاصل تمام مراعات چھیننے کا فیصلہ کیا ہے ، اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ایک زبر دست اور بھاری دھچکا مار کر ریاست کو یونین ٹریٹری تک محدود کیاجائے،گویا کسی طویل عرصے سے بدلہ لینے کا یہ کوئی حتمی عمل ہو۔ عجیب وجوہات دی گئیں ، سب سے عام وجہ یہ دی گئی کہ جموں و کشمیر کو پچھلے کئی برسوںسے بہت زیادہ بدعنوانی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور یہ کہ ’دو خاندانوں‘ نے ریاست کو تباہ کردیا تھا۔ سیاسی تقسیم کے کسی بھی طرف آپ کھڑے ہوں ،یہ دوخاندان‘ صرف جائز ذرائع کے ذریعہ ہی ریاست پر حکمرانی کرتے رہے ہیں ۔حکومت ہند اس سچائی کی تردید کرے اور یہ کہے کہ وہ ریاست جموں و کشمیر میں مضحکہ خیز اور دھاندلی شدہ انتخابات کے طفیل حکومت کرتے رہے اور ہم پھر بحث کو آگے لے جائیں گے۔ جہاں تک بدعنوانی اور رشوت ستانی کی بات ہے ، اس کے ساتھ موجودہ قانونی فریم ورک کے تحت نمٹا جانا ہے ، جیسا بہار یا اتر پردیش میں کیا جاتا ہے۔ اگر ہم بدعنوانی کے الزامات کے تحت ریاستوں کو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں گھٹاتے رہے تو ہندوستان کے پاس ایک بھی ریاست باقی نہیں رہ جائے گی۔
عمر اور محبوبہ ، دونوں کو نظربند کردیا گیا۔ ان کی نظربندی کی سرکاری وجوہات مضحکہ خیز اور مضحکہ خیز کے درمیان جھولتی رہیں۔ جہاں محبوبہ کو’والد کی فخریہ اور لاڈلی بیٹی‘ ہونے کی وجہ سے نظربند کیا گیا ، وہیںعمر عبد اللہ کو اس وجہ سے نظربند کردیا گیا کیونکہ وہ بظاہر عوام پر کچھ اثر ونفوز رکھتے تھے ،اور یہ ایسا الزام ہے جس پر ہر عوامی لیڈر کو فخرہوناچاہئے۔ یہ بات بڑے پیمانے پر سمجھی گئی تھی کہ مرکزی حکومت کو خدشہ ہے کہ یہ دونوںمرکزی حکومت کو بے آرام کرنے کیلئے کافی عوامی حمایت حاصل کرسکتے ہیں۔
دفعہ 370 میں ترمیم،دفعہ35-Aکا خاتمہ اور ریاست کو ایک مرکزی زیر انتظام خطہ کے طور پرتنزلی کرنا اگست 2019 میں ہوا تھا اور اس کے فورا ًبعد ہی وادی کے متعدد سیاسی رہنماؤں کو یا تو حراست میں لیا گیا تھا یا وادی میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ تقریباًآٹھ ماہ کے بعد ہی عمر عبداللہ کو رہا کیا گیا۔ ان کی رہائی کے ڈیڑھ ماہ بعد بھی ہمیں محبوبہ مفتی کے رہا ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔گوکہ دونوںکی نظر بندی کی وجوہات اب تقریباً سبھی کو کم وبیش معلوم ہیںتاہم عمر عبداللہ کی رہائی کی کیا وجہ بنی اور محبوبہ مسلسل نظر بند کیوں ہیں،اس کا جواب ملنا باقی ہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔
اگر ہم حکومت کی دلیل ہی مانیں تودونوں کو جرم کے ممکنہ یامتوقع ارتکاب سے قبل ہی نظر بندکیاگیا اور یہ ممکنہ یا متوقع جرم 5 اگست 2019 کو مرکزی حکومت کی جانب سے اعلان شدہ اقدامات کے خلاف بولنا اور حمایت حاصل کرنا تھا۔اب جبکہ عمر عبداللہ نظر بند سے آزاد ہیں جس کا پہلی فرصت میں انہیں سامنا ہی نہیں کرنا چاہئے تھا،اب کوئی اس کے منظر اورپس منظر کو جاننے سے نہیں رہ سکتا ہے۔ حکومت کا موقف ابھی تک سخت رہا ہے۔ کیا انہیں اچانک یقین ہوگیا ہے کہ عمرعبداللہ عوام کو گرویدہ بنانے کا اپنا ’جادو‘ گنوا بیٹھے ہیں؟ اب اُن کی خاموشی کے بارے میں انہیں اتنا یقین کیسے ہے؟ اگر کسی کو شبہ تھا کہ عمردفعہ 370 کا معاملہ اجاگرکرنے کا فیصلہ نہیں کریںگے تو ان کی رہائی کے فوراً بعد ہی معاملہ آئینہ کی طرح صاف ہوگیا۔ عمر عبداللہ ہندوستان کے ان چند سیاستدانوں میں سے ایک ہیں جوٹویٹر پر ہرچھوٹے بڑے معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے باہر آکرہی ٹویٹ کیا کہ دفعہ 370 اور 35-Aکے معاملے میں کس طرح غیر منصفانہ سلوک کیا گیا۔ اُن سے یہی موقف اختیار کرنے کی امید تھی لیکن جلد ہی انہوںنے سرینڈر کیا جب انہوںنے ایک اور ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ انہوںنے دفعہ370معاملہ پر ٹویٹ کرکے غلط کیا اور ٹویٹر ایسے معاملات پر بحث کرنے کیلئے معقول فورم نہیںہے۔عمر عبداللہ کے ایسا کہنے کی کوئی تُک نہیں بنتی تھی کیونکہ وہ سوشل میڈیا کے عشق میں گرفتار ہیں اور قومی بین الاقوامی معاملات پر اُن کی رائے عمومی طور میڈیا میں اُن کے بیانات یا پریس بریفنگس سے نہیں ،بلکہ اُن کے ٹویٹس سے رپورٹ ہوتی ہے۔ ہم حیرت زدہ ہے کہ سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبد اللہ کے بیٹے اور شیخ محمد عبداللہ کے پوتے کس فورم کا انتظار کر رہے ہیں۔ عمر عبد اللہ لوگوں کو ایک وضاحت کرنے کے پابند ہیں کیا کہ وہ ابھی خود کو عوامی زندگی یا سیاست کیلئے تصور کرتے ہیں۔’ایک معقول فورم‘کے انتظار کی آڑ میں اُن کی مسلسل خاموشی صرف اس عقیدہ کو ہی مضبوط کرے گی کہ انہوںنے اپنی پارٹی کی جانب سے وہ سب کچھ بھول جانے اور فراموش کرنے کا فیصلہ لیا ہے ،جو یہاں ہوا اورایسا موقف اختیار کرنے کا اُن کی پارٹی کو حق حاصل ہے ۔عوام کے لئے ان کا جو قرض ہے وہ شفافیت ہے۔ انتظار کا کھیل کھیلنا فائدہ نہیںدے گا، ہم جانتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے۔
اس میں ایک امتیازی عنصر ہونا پڑے گا جس کی وجہ سے عمر عبد اللہ کی رہائی ہوئی اور محبوبہ مفتی کی مسلسل نظربندی جاری ہے۔ چونکہ عمر عبداللہ نے خاموش رہنے کا انتخاب کیا ہے ، لہٰذا ایک شخص اس بات پر یقین کرنے کی طرف مائل ہوجاتا ہے کہ امتیازی عنصریہی ہے،’’ان کی خاموشی‘‘۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آج وہ آزاد آدمی ہوسکتا ہے ،لیکن اُن کے خیالات مسلسل ’نظربند‘ ہیں۔
( وسیم بیگ جموںوکشمیر کے سابق ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل ہیںاور ان سے [email protected]پر رابطہ کیاجاسکتا ہے)