نیوز ڈیسک
برکتوں اور سعادتوں کا یہ مہینہ اختتام پذیر ہورہا ہے۔رمضان کا مہینہ واقعی عملوں کاموسم بہار ہوتا ہے۔ مسلمان اس ماہ کے دوران روزوںکے علاوہ دیگر نیکیوں میں بھی ایک دوسرے پر سبقت لینا چاہتے ہیں۔ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق سماج کے سبھی حلقے فراخدلی سے محتاجوں ، مسکینوں اور مفلوک الحال لوگوں کے لئے نقدو جنس دیتے ہیں۔ یہ بلاشبہ قابل تحسین رحجان ہے لیکن زندگی کی تیز رفتاری نے زکواۃ کے بنیادی مقصد پر انجمنوں اور تنظیموں کا غبار چڑھا کے رکھ دیا ہے۔ زکواۃ کا مقصد جہاں مال کا تزکیہ ہے وہیں اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ آسودہ حال لوگوں کے دلوں میں غریب پروری کا جذبہ پروان چڑھے۔ یہ مقصد کسی تنظیم یا کسی انجمن کو چندہ دینے سے پروان نہیں چڑھتا۔ ہزاروں سال سے فلاکت زدہ طبقے نظروں سے اوجھل رہے ہیں۔ امیر لوگ غریبوں کے حال پر رحم کھا کر کچھ نہ کچھ دھان تو کردیتے ہیں، لیکن اِ ن کی دلجوئی کو عار سمجھتے ہیں۔ زکواۃ کے لئے خود کسی ضرورتمند کو تلاش کرکے اس کے ساتھ چند لمحے گزار کر اسکی مالی مدد کی جائے تو یہ واقعی تذکیہ کہلائے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں نیکیوں کے لئے ایک پراکسی نظام اُبھر چکا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض ادارے بغیر پبلسٹی کے محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، لیکن زکواۃ یا صدقات خیرات کسی گاڑی والے کو تھما کر یا کسی تنظیم کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کرنے کا یہ کلچر سماج کے اجتماعی شعور کو ہمدردی ، اخوت اور غمخواری کے جذبات سے خالی کررہا ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ زکواۃ جمع کرنے کی بے ہنگم دوڑپر روک لگائے کیونکہ اس طرح کے رجحان کے نتیجہ میں ایسے ادارے بھی وجود میں آچکے ہیں جن کیلئے زکواۃ کمائی کا ذریعہ بن چکا ہے اور وہ نام نہاد فلاحی اداروں یا یتیم خانوں کے نام پر بڑے بڑے اشتہارات دیکر یا گلی گلی محلہ محلہ گاڑیو ں پر لائوڈ سپیکر تان کر لوگوں سے زکواۃ و صدقات کے نام پر پیسے اینٹھتے ہیں اور عید ختم ہوتے ہی گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہوجاتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ کشمیر صد فی آسودہ حال ہے۔ ہر بستی ، ہر قصبہ میں ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جنہیں براہ راست زکواۃ دی جاسکتی ہے۔ اگر سب لوگ خود جائیں اور محتاجوں کے ساتھ دو پل بتاکر ان کی مدد بھی کریں تویہ اس سے لاکھ گنا بہتر ہے کہ انجمنوں اور تنظیموں کے کھاتے بھرے جائیں۔غریب اور مصیبت زدہ لوگوں کی روپے پیسے سے ضرورت تو پوری ہوجاتی ہے، لیکن انہیں اس کے ساتھ ساتھ تالیف قلب کی بھی احتیاج ہوتی ہے۔ اس ضرورت کو محسوس کرکے اس باپت کام کرنا ہوگا۔ یہ کام ائمہ اور خطباء حضرات بخوبی کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں سول سوسائیٹی کردار نبھاسکتی ہے۔ نوجوان نسل کو اس باپت متحرک ہونا پڑے گا۔ نوجوان بھی خواہ مخواہ ٹرسٹ اور انجمنیں بنانے لگے ہیں۔ انہیں دو دو چار چار کے گروپس میں غریبوں کے گھر جاکر ان سے بات کرنی چاہیے۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اسلامی فلاحی ریاست کا تصور سماج کی بنیادی اکائی یعنی گھر سے شروع ہوتاہے اور پھر محلوں تک جاتا ہے ۔اولین فرصت میں اگر ہم اپنے اڑوس پڑوس میں ہی ضرورت مندوں کا خود خیال رکھیں تو ہمیں غریبوں کی فلاح وبہبود کے نام پر نام نہاد ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جب ہماری بستیوں کے محتاجوں کا مقامی سطح پر ہی کفالت کا بندوبست ہوگا اور یتیموں وبیوائیوں اور دیگر ضرورت مندوں کی مقامی سطح پر ہی دادرسی کی جائے گی تو دور درواز کے یتیم خانوں کے نام پر کسی کو ہماری زکواۃ کا پیسہ ہڑپنے کا موقعہ نہیں ملے گا۔یہاں فی الوقت حقیقی معنوں میں زکواۃ اور صدقات کی ادائیگی ایک فیشن بن چکی ہے۔دراصل یہ ایک خفیہ عمل ہے اور اس کے لئے حکم ہے کہ اگر دائیں ہاتھ سے دیا جائے تو بائیں ہاتھ کو خبر تک نہ ہو۔ہم بنک کھاتوں میں زکواۃ کی رقم منتقل تو کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہماری زکواۃ ادا ہوگئی لیکن ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ زکواۃ کا عمل حقوق العباد سے جڑا ہوا ہے اور حقوق العباد زکواۃ کی رقم بنک کھاتوں جمع کرکے ادا نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ اس کیلئے ہمیں ضرورت مندوں اور محتاجوں کی خود دادرسی کرنا پڑے گی۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ اس سال پراکسی نیکیوں کایہ چلن ختم ہوجائے گااور ہم زکواۃ کے اصل فلسفہ کو سمجھ کر اس پر عمل کریں گے اور مقامی سطح پرضرورت مندوں ومحتاجوں سے براہ راست جڑ جائیں گے تاکہ سماج کا ہر فرد عید الفطر کی خوشیوں کی حقیقی معنوں میںشامل ہوسکے۔