جذبات دروں رشحاتِ قلم

  ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال لازمی کیوں؟

ایک وقت تھاجب کہ چندکلومیٹر کی دوری پر بھی لوگوں کو ایک دوسرے کی خبر نہیں ہوتی تھی لیکن ماضی کی اس حقیقت نے آج جدید ٹیکنالوجی کی بدولت افسانے کاروپ اختیارکر لیا ہے ۔ ہمیں آج ماضی کے مقابلے میں زیادہ سہولیت وآسائش اوراطلاعات کاخزانہ میسرہوچکاہے ۔انسان نے ٹیکنالوجی کے میدان میں کمپیوٹرکوتخلیق کرکے بڑاانقلاب لایا جس کاآغازغالباً ۱۹۴۵؁ء سے ہوا، ۱۹۸۰؁ء تک برصغیرمیں بہت کم لوگ اسے استعمال کرتے تھے مگر۱۹۸۰ ؁ء کے بعدکمپیوٹراورانٹرنیٹ کواستعمال کرنے والوں کی تعدادمیں نمایاںاضافہ ہوا۔کمپیوٹرکے علاوہ دیگرکئی نئی ایجادات جن میں سے ایک موبائل فون ہے ،نے معاشرے میں جوتبدیلیاں لائی ہیں ان کودیکھ کرانسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔بے شک کمپیوٹر اورموبائل کی وساطت سے چلنے والاانٹرنیٹ بہت بڑی نعمت ہے مگرحضرت ِ انسان کے ہاتھوں ان کے غلط استعمال کے سبب یہ نسل انسانی کیلئے رحمت کے بجائے زحمت بھی ثابت ہورہاہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کے بھی دیگرچیزوں کی طرح دوپہلوہیں یعنی منفی اورمثبت۔جہاںکمپیوٹراورموبائل فون پرچلنے والے انٹرنیٹ کے مثبت استعمال نے انسان میں بے شمارصلاحیتوں ،سہولتوںاوراچھائیوں کوجنم دیاہے وہیںاس کامنفی استعمال انسان کے لیے اخلاقی بربادی کاپیش خیمہ بھی ثابت ہواہے۔ جہاںایک طرف موجودہ دورکوتیزرفتارترقی کے دورسے تعبیرکیاجارہاہے وہیںدوسری طرف ٹیکنالوجی کے غلط استعمال نے انسانی قدروں کوپامال کرکے رکھ دیاہے۔موجود ہ دورمیںاس پامالی کی انتہاکودیکھ کرسماج کاہرمہذب شخص بے راہ روی، بے قراری اورعدم اطمینانی کی کیفیت سے پناہ مانگتاہوا دکھائی دے رہاہے ۔شایدمعاشرے پرمنفی اثرات مرتب کرنے والی ویب سائٹوں کی تعداد مثبت اثرات مرتب کرنے والی ویب سائٹوں کے مقابلے میںبہت زیادہ ہیں۔فحش موادسے بھری ہوئی انٹرنیٹ ویب سائٹوں کے استعمال کے سبب اخلاقی قدروں کی پامالیاں دِن بدن عروج کوچھوتی چلی جارہی ہیں۔کُل ملاکریہی کہاجاسکتاہے کہ انٹرنیٹ کے سبب پھیل رہی بے راہ روی اورفحاشیت کی وجہ سے سماج کے عزت دارشخص کا جینادشوارہوگیاہے۔ہرمہذب شخص بے راہ روی سے بھرپورسماجی زندگی کے دورکے مقابلے میں دورماضی کوبہترسمجھ رہاہے کیونکہ پرانے وقتوں میں ٹیکنالوجی کی عدم موجودگی میںلوگ سکون سے زندگی بسرکرتے تھے مگرآج کے انسان کی زندگی ٹیکنالوجی کے سبب شدیدمتاثرہوئی ہے اوروہ ماضی کے کم ترقی یافتہ اورٹیکنالوجی سے مبرّادورکوبہتراورپرسکون تصورکررہاہے۔آج بھی کئی مقامات ایسے ہیں جہاں پرلوگوں کی زندگیوں میںٹیکنالوجی کاخاص عمل دخل نہیں ہے اوروہ ٹیکنالوجی کے استعمال اوراس کے مثبت ومنفی اثرات سے دورہیں وہاں آج بھی بے راہ روی اوربے اطمینانی کی دُنیاسے پرے لوگ اطمینان کیساتھ زندگی بسرکررہے ہیں۔وہ لوگ ٹیکنالوجی کے فوائدسے محروم رہنے کے باوجوداپنی سادھی اورپرسکون زندگی سے مطمئن ہیں۔ٹیکنالوجی کے ان ہی منفی رجحانات کومدنظررکھ کرعلامہ اقبال ؒ نے بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں کہاتھاکہ۔
؎ آنکھ جوکچھ دیکھتی ہے لب پہ وہ آسکتانہیں 
محوِ حیرت ہوں دُنیاکیاسے کیاہوجائے گی 
بے شک انٹرنیٹ کی وساطت سے چلنے والی سماجی رابطہ ویب سائٹوں اورموبائل ایپلی کیشنوں جن میں Facebook اور Whatsapp ودیگران نے دْنیاکوایک گلوبل ولیج بنادیاہے اورسماجی رابطہ ویب سائٹوںاورایپلی کیشنوںکے عام ہونے سے دْنیاکاہرشخص ایک دوسرے کواپنے قریب محسوس کررہاہے۔اِن دنوںسماجی رابطہ ویب سائٹ فیس بُک FacebookاورWhatsapp دونوںکااستعمال انتہاپرہے اس ویب سائٹ اورایپلی کیشن کا شکارزیادہ آج کانوجوان طبقہ ہے جواسے وقت گذاری کیلئے استعمال میں لارہا ہے اوراپنے مستقبل کوتباہ وبربادکرنے پرخودہی تلُا ہواہے۔فیس بک جیسی سماجی رابطہ ویب سائٹوں اورموبائل ایپلی کیشنوںکے غلط استعمال کے نتائج سے بھی ہمیں کئی باربھیانک خبریں موصول ہوتی ہیں۔انٹرنیٹ سے متعلق ایک معروف پاکستانی ادیب وشاعراورکالم نویس وصیؔ شاہ کہتے ہیں کہ  ؔ’’انٹرنیٹ ایک ایساجنگل ہے جس میں کسی بھی وقت کوئی خونخواربھیڑیابالخصوص سوشل میڈیاکی ویب سائٹوں مثلاً فیس بُک وغیرہ پرنمودارہوسکتاہے اوراپنے چنگل میں پھانس سکتاہے جس کے نتائج منفی ہوسکتے ہیں اورانسان معاشرے کی اصلاح کے بجائے ایسی راہوں پرچل نکلتاہے جس کے نتائج بھیانک ہوسکتے ہیںلہذاانٹرنیٹ کااستعمال کرنالازمی بن چکاہے مگراحتیاط اس سے بھی لازمی ہے‘‘ایسابھی نہیں ہے کہ سارے نوجوان انٹرنیٹ کی ویب سائٹوں اورموبائل ایپلی کیشنوں(Mobile Apps)کاغلط استعمال کررہے ہیں ۔ایسے نوجوان کمپیوٹراورموبائل صارفین کی تعدادبھی کم نہیں جواس کااستعمال مثبت طورکرکے معاشرے کے سدھاراوراچھی معلومات کوایک دوسرے کیساتھ شیئرکر کے نہ صرف خودفیض یاب ہورہے ہیں بلکہ دوسروں کیساتھ اپناعلم بھی تقسیم کررہے ہیںاورجدیدٹیکنالوجی کاسہارالیکراپنے مستقبل کوسنوارنے میں جٹے ہوئے ہیں۔اپنے علم میں اضافہ کی خاطربے شمارنوجوان فیس بُک اورگوگل سرچ انجن کواستعمال کرتے ہیں۔سماجی رابطہ ویب سائٹوں اورموبائل ایپلی کیشنوںکی مقبولیت اور رسائی کے سبب ماضی میں جن اطلاعات کوایک دیہات سے دوسرے دیہات، ایک شہرسے دوسرے شہر، ملک کی ایک ریاست سے دوسری ریاست تک پہنچانے کیلئے مہینوں کاوقت لگتاتھااب ان ہی اطلاعات کے کام کوچندہی سیکنڈوں میںممکن بنادیاگیاہے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ساتھیوں اوربالخصوص نوجوانوںسے اپیل ہے کہ وہ سائنسی دورکی چکاچوندترقی میں ہوش وحواس نہ کھوئیںبلکہ انٹرنیٹ اورموبائل کاجائز  استفادہ کریں ۔ جن لوگوں کوادب سے شغف ہے وہ ادبی ویب سائٹوں کاوزٹ(Visit) کریں،جنھیں اطلاعات اورمعلومات عامہ کی تلاش ہے وہ گوگل سرچ انجن کے ذریعے معلومات استعمال کریں۔ اخبارات نیزسماجی طورپرمعاشرے کی اصلاح سے متعلق ویب سائٹوںکاوزٹ کریں۔ انٹرنیٹ کااستعمال اتناہی کیاجائے جو آپ کی پرسکون زندگی میں خلل کاباعث نہ بنے ۔ٹیکنالوجی کووقت گذاری کیلئے استعمال کرناتباہی وبربادی کودعوت دینے کے مترادف ہے۔المختصریہ کہ جدیدٹیکنالوجی کااستعمال کرناہے تومعلومات کوحاصل کرنے اور علم کاخزانہ سمیٹنے کیلئے کریں تاکہ آپ کے ذریعے ہواٹیکنالوجی کامثبت استعمال معاشرے پربُرے اثرات مرتب کرنے کے بجائے اصلاح کاذریعہ ثابت ہوسکے۔آگ روشنی بھی دیتی ہے اورجلاتی بھی ہے اب فیصلہ آپکے ہاتھوں میں ہے کہ آپ نے آگ سے روشنی کاکام لیناہے یاجلنے کا۔
ایڈوکیٹ محمداکرم ،پیرکھوہ جموں
رابطہ نمبر۔7051111852
 
 
 

نوجوانوں کورہنمائی کی ضرورت 

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ملک ، قوم اورریاست کے مستقبل کاانحصاراُس کے نوجوانوں پرہوتاہے ۔ اگراُس ملک یاقوم کے نوجوان اپنی صلاحیتوں کوبرئوے کارلاکرملک کامستقبل سنوارنے کی کوششیں کریں تویقینااُس ملک یاقوم کامستقبل تابناک ہوسکتاہے ۔ کسی بھی ملک کیلئے نوجوان ایک قیمتی اثاثہ کی حیثیت رکھتے ہیں اورنوجوانوں کی مثال ایسے ہے جیسے کہ آسمان میں چمکتے ستارے۔آسمان میں بے شمارستارے ہوتے ہیں ،ان میں سے کچھ ستاروں کی چمک اتنی تیز ہوتی ہے جن کی روشنی سے زمین پربسنے والے انسان فیض یاب ہوتے ہیں جبکہ کچھ ستاروں کی چمک دھیمی بھی ہوتی ہے ۔اسی طرح ہرنوجوان کی صلاحیتیں الگ الگ نوعیت کی ہوتی ہیں ۔اکثروبیشتریہی سُنااورکہاجاتاہے کہ طلباء کواپناکیئریئراُسی میدان میں بنانے کاموقعہ فراہم کرناچاہیئے جس کی طرف اُن کارجحان ہو،تاکہ وہ اپنے اندرپنہاں صلاحیتوں کابھرپورمظاہرہ کرسکیں۔ کچھ نوجوانوں کارجحان تعلیم کی طرف بالکل کم ہوتاہے لیکن عملی زندگی میں وہ خود اپنے لیے ایسی راہیں تلاش کرکے ایساکام کرجاتاہے جس پربعض دفعہ انسان کی عقل دنگ ہوکررہ جاتی ہے اوراس کایقین کرنابھی مشکل ہوجاتاہے۔بعض اوقات ایسابھی ہوتاہے کہ طلباء کی منشاء کے برعکس یعنی جس شعبے ،مضمون یافیلڈکی طرف اُس کارجحان نہیں ہوتاہے اُس کی طرف اُسے زبردستی ڈال دیاجاتاہے جس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ وہ اس طرح کی کارکردگی نہیں دکھاسکتا جس طرح وہ اپنے پسندیدہ شعبے میں انجام دینے کااہل ہوتاہے۔ کہنے کامطلب یہ ہے کہ ہرنوجوان میں اللہ تعالیٰ نے صلاحیتوں کاخزانہ پوشیدہ رکھاہواہے لیکن اُس کی صلاحیتوں کی نشاندہی کرکے اُسے اُس کے رجحان سے مطابقت رکھنے والے شعبے کی طرف مائل کرنے سے ہی اُس کی صلاحیتوں کافائدہ ملک وقوم کوپہنچ سکتاہے۔ اب سوال اُبھرکرآتاہے کہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کی نشاندہی کون کرے ؟۔اس معاملے میں والدین، اساتذہ اورسماج کادانشورطبقہ اپنے باہمی روابط سے بہترسماج اورتابناک مستقبل کی راہیں ہموارکرسکتے ہیں۔اکثروبیشتریہ دیکھاگیاہے کہ کوئی بھی طالب علم جب چھوٹی جماعتیں پاس کرکے اگلی جماعتوں کی طرف بڑھ رہاہوتاہے تواُسے معلوم ہی نہیں ہوتاکہ اُسے کون سے مضامین رکھنے چاہیئے جواُس کے مستقبل کوسنوارنے میں مددگار ثابت ہوں گے ،اس کے لیے والدین ،اساتذہ اورسماج کے دانشوروں کوچاہیئے کہ وہ طالب علم کی صلاحیتوں کے عین مطابق اس کے لئے موزوں مضامین کے انتخاب میں رہنمائی کریں اورسب سے اہم یہ ہے کہ اس طالب علم کا Goal یعنی مقصد(منزل)کے تعین میں مناسب اورایماندارانہ رہنمائی کی جائے اوراسی کے مطابق اُس کوضروری معلومات فراہم کرنے کااہتمام کیاجائے۔یہ بھی خیال رکھاجائے کہ طالب علم پرکسی بھی قسم کابوجھ نہ ڈالاجائے تاکہ وہ اطمینان سے منزل کی جانب اپنے قدم بڑھانے کاباقاعدہ آغازکرسکے اوراسے منزل کاسفرطے کرنے میں کسی قسم کی پریشانی کاسامنانہ کرناپڑے۔جب ایک نوجوان اپنے سفرکاآغازکرلیتاہے تواُسے راستے میں مختلف نوعیت کے حالات سے گذرناپڑتاہے ۔دشوارگذارمرحلے بھی آتے ہیں اورآسان ترین لمحات بھی ۔دشوارگذارمرحلوں سے کس طرح گذرناہوتاہے وہ سب حالات خودسکھادیتے ہیں بشرطیکہ اُس نوجوان کے ارادوں میں پختگی ہو۔کوئی بھی شخص ہمت اورحوصلہ ماں کے شکم سے ساتھ لیکرپیدانہیںہوتا،حالات ہی انسان کے ارادوں کومضبوطی بخشتے ہیں اسی لیے اکثریہ دیکھاگیاہے کہ جونوجوان مصیبتوں میں رہ کرمستقبل کوسنوارتے ہیں وہ بخوبی حالات کامردانہ وارمقابلہ کرنے کاہنرسیکھتے جاتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں وہ نوجوان جو بچپن سے لیکرجوانی تک کے مراحل کوآسائشوں میں طے کرتے ہیں اکثر باہمت نہیں ہوتے۔نوجوانوں کوچاہیئے کہ وہ اپنے اوروالدین کے خوابوں کوشرمندۂ تعبیرکرنے کیلئے مشکل سے مشکل حالات سے نبردآزماہونے کاحوصلہ پیداکریں،مشکل حالات سے لڑنے سے کبھی نہ کترائیں،مزدورکی زندگی نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہونی چاہیئے ۔طلباء ایسے لوگوں کی کہانیاں بھی پڑھیں اورانٹرنیٹ سے تلاش کریں جنھوں نے نا مساعد حالات سے مقابلہ کرکے سرخروئی حاصل کی ہواوردُنیامیں منفردمقام پیداکیاہو۔نوجوانوں کویہ سمجھ لیناچاہیئے کہ بچپن اورجوانی میں جتنی زیادہ ذہنی  اورجسما نی مشقت کریںگے اتناہی ان کامستقبل بھی روشن ہوگا۔منزل کے حصول کے راستے میں سخت دشواریاں بھی آئیں گی مگرہمت نہ ہارناہی منزل ِمقصود تک پہنچنے کاذریعہ ثابت ہوسکتاہے۔جب کوئی بھی شخص منزل کوپانے کیلئے سخت جدوجہدکررہاہوتاہے تو اس وقت ایسے مرحلے بھی آتے ہیں جب اُسے لگتاہے کہ اب منزل نہیں ملے گی ۔ایسے میں اللہ تعالیٰ پرتوکل رکھتے ہوئے امیدکادامن نہیں چھوڑناچاہیئے کیونکہ ہوسکتاہے اس وقت اللہ تعالیٰ انسان کاامتحان لے رہاہو، جس میںکامیاب ہونے کے لیے صبرکادامن تھامناضروری ہوتاہے ۔اگرہم مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ پرتوکل نہیں رکھیں گے تواللہ تعالیٰ کویہ اداناگوارگذرے گی اورقریب پہنچی ہوئی منزل بھی ہاتھ سے جاسکتی ہے ۔سب سے اہم مسئلہ دسویں ،بارہویں اورگریجویشن لیول کے نوجوانوں کی رہنمائی کیلئے والدین،اساتذہ اوردانشورحضرات کوچاہیئے کہ وہ ان کے عادات میں پختگی لاکران کیلئے روشنی کی کرنیں ثابت ہوں   ؎
مٹادے اپنی ہستی کواگرکچھ مرتبہ چاہیئے 
کہ دانہ خاک میں مِل کرگُل و گلزارہوتاہے
؎  گرتے ہیں شہسوارہی میدانِ جنگ میں 
        وہ طِفل کیاگرِیں جوگھٹنوں کے بل چلے (اقبالؒ)
محمدعارف ،بھلوال جموں
رابطہ نمبر۔9797508684
 

الحاج فضل احمدمرحوم 

ریاست جموں وکشمیرمیں بے شمارایسی شخصیات ہوگذری ہیں جنھوں نے سماجی  خدمت کیلئے تندہی سے کام انجام دے کرلوگوںکے دِلوں میں جگہ بنائی۔ضلع جموں کے نواحی علاقہ دھمی بیڑاکے الحاج چوہدری ملّی کے گھرمیں ۱۹۵۵؁ء میں ایک بچہ تولدہواجس کانام فضل احمدرکھاگیاجوبعدمیں اپنی علمی اورعملی صلاحیتوں کی بدولت حاجی فضل احمدکے نام سے مشہور ہوئے۔سماج سدھارکے کاموں میں پیش پیش رہنے کے علاوہ دین کی سربلندی کیلئے ہمیشہ ہمہ تن مصروف عمل رہتے تھے۔حاجی فضل احمد نے پچھڑے وپسماندہ علاقہ جات میں خاص طورپرلوگوں کواللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام سے جوڑنے میں اہم کرداراداکیا،ان کے کرداروعمل سے آج بھی ضلع جموں اورریاسی میں دینی اداروں میں بچے درس قرآن حاصل کرکے اسلام کی خدمت کیلئے اپنی زندگی کووقف کرنے میں سرگرم عمل ہیں۔حاجی فضل احمد نے۶۲سال کی مختصرزندگی  پائی ۔ موصوف نے اپنی ساری زندگی سماج کے سدھاراوردین متین کی سربلندی اوراتباع سنت وفلاح انسانیت کیلئے بسرکی۔آپ نے ابتدائی تعلیم آبائی گائوں نگروٹہ سے حاصل کی اوربعدازاں ایم اے ایم کالج جموں سے بی اے کی ڈگری حاصل کی  ۔وہ جموں کے معروف عالم دین قاری عبدالنبی صاحب کواپنارہبرمانتے تھے ۔قاری عبدالنبی جموں کے جیدعالم دین گذرے ہیں اوردین متین کیلئے جوخدمات قاری عبدالنبی صاحب نے انجام دی ہیں انہیں کوئی فراموش نہیں کرسکتا۔اعلیٰ پایہ کے عالم دِین کی زیرنگرانی حاجی فضل احمد کی زندگی میں کافی تبدیلیاں رونماہوئیں اوران کے ہی زیرسایہ دینی تعلیم حاصل کی اورموصوف سماجی فلاح وبہبودکے مشن پرکاربندہوئے۔ ۱۹۸۲؁ء میں حاجی فضل احمدنے سرکاری محکمہ مال (ریونیو) میں پٹواری کی حیثیت سے ملازمت حاصل کی اور۲۰۱۳؁ء میں نائب تحصیلدارکے عہدے پرترقیاب ہوکرسبکدوش ہوئے۔موصوف نے اپنی خدادادصلاحیتوں کوبروئے کارلاکرجموں اورصوبہ کے دیگر اضلاع کے دوردرازاورپسماندہ دیہات میں تبلیغی خدمات انجام دیں ۔آپ کوتقریراورتبلیغ میں مہارت تامہ حاصل تھی ،وہ اکثرضلع جموں کے دوردرازاورپسماندہ علاجات کادورہ کرکے شمع اسلام فروزاں کرتے تھے۔آپ نے پل توی ،لکھداتابازار، رانجن ،بن تالاب ،جانی پور،سدھرا،دھمی بیڑہ اوردرابی کے مدارس کیلئے خدمات انجام دیں۔آپ نے قرآن واحادیث کی روشنی میں تبلیغ کے فریضے کوانجام دیکرلوگوں کواسلام کے قریب لانے کیلئے اپنی تمام ترتوانائیوں کوصرف کیا۔آپ کارابطہ نہ صرف ریاست جموں وکشمیرکے قدآورعلماء کرام سے رہابلکہ بیرونی ریاست کے علماء کرام بھی ان سے ہمیشہ رابطے میں رہاکرتے تھے۔حاجی فضل احمد،حضرت مولانااحمدمشہودرضاقادریؒ (پیلی بیت والے) سے  بیت تھے ۔موصوف ایک ہمدرد،غریب پروراورصاف گوشخص تھے وہ ہمیشہ ہرکسی کوراہ راست پرگامزن رہنے کی تلقین کرتے تھے۔دوردورسے لوگ حاجی فضل احمدکے پاس صلاح ومشورے لینے کیلئے پہنچتے تھے  اوروہ انہیں نیک مشوروں سے نوازتے تھے۔حاجی فضل احمد جہاں دینی خدمات انجام دے رہے تھے وہیں سماج میں اُن کاایک عظیم مرتبہ اُن کی سماجی خدمات کی بدولت بھی تھا،حاجی صاحب عوام کو درپیش مسائل کے ازالہ کیلئے ہمیشہ اپنے خوش اخلاق روئیے کی بدولت اعلیٰ پایہ کی سیاسی وانتظامیہ شخصیات میں کافی قابل قدرمرتبہ رکھتے تھے اوران کی جانب سے اُبھارے گئے مسائل کوانتظامیہ کے اعلیٰ حکام بلاتاخیر حل کرنے میں کوئی کوتاہی نہ برتتے تھے، موصوف سماج میں چھوٹے چھوٹے مسائل کوبڑی دلچسپی کیساتھ حل کرنے میں کوئی کسرباقی نہ چھوڑتے، حاجی فضل احمد کااِس دُنیائے فانی سے کوچ کرجانااہلیانِ جموں خاص کر صوبہ جموں کی اقلیت(مسلم )آبادی کیلئے ایک بڑاناقابل تلافی نقصان ہے ۔حاجی فضل احمد نہ صرف مسلم طبقہ بلکہ دیگرطبقوں میں بھی بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، انتہائی غیر متنازعہ شخصیت اوربلالحاظ مذہب و ملت وہ ہمیشہ ہر ایک کے کام آیاکرتے تھے اوراپنی دینی زندگی کی مصروفیات کیساتھ ساتھ سماجی مسائل میں بھی خود کوکافی مصروف رکھتے تھے،حاجی صاحب ہر کِسی کے دُکھ دردمیں شریک ہواکرتے تھے اوراُنہوں نے ایک طرح سے اپنی مختصر سی زندگی کا اکثر وقت مِلت وقوم کے نام ہی وقف رکھا۔حاجی صاحب نے اس دُنیامیںہرایک کادِل جیتا،دینی خدمات بھی انجام دیں اورسماجی خدمات میں بھی کوئی کسرباقی نہ چھوڑتے ہوئے عام وخاص کے دِلوں پر راج کیا،اُن کی غیر موجودگی میں آج سماج کاایک بڑاطبقہ خود کویتیم محسوس کرتاہے،اُن کے چاہنے والوں اُن کوعزت کی نگاہوں سے دیکھنے والے یقینابارگاہِ الٰہی میں دعاگوہونگے کہ مرحوم کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاہو۔حاجی فضل احمد کی ایک بیماری میں مبتلاہوگئے تھے اور۱۰؍فروری ۲۰۱۷؁ء کومالک حقیقی سے جاملے ۔وہ کیاتھے بس اتناکہناہی کافی ہے ۔
؎  ہے یہی دن وایمان کام آئے انسان کے انسان 
سرزمین دھمی بیڑا کے قبرستان میں ہزاروں کی تعدادمیں لوگوں نے حاجی فضل احمد کی نمازجنازہ میں شرکت کی ۔آپ کی نماز ِجنازہ آپ کے مرشدحضرت مولانااحمدمشہودرضاقادری کے فرزندارجمندحضرت مولاناشایان رضاقادری نے پڑھائی۔ہم سب اللہ تعالیٰ سے دعاگوہیں کہ مرحوم کے درجات بلندفرما ئے اور اُن کے فرزندان کو صحت وتندرستی کیساتھ آپ کے بتائے ومرتب کردہ راستے پہ چلنے میں مددفرما…آمین…!
طارق حسین جموں
رابطہ نمبر۔9107868150