ثناء ؔکی نظموں کا مجموعہ’’ستاروں سے آگے‘‘ تجزیاتی مطالعہ

مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی
’’ستاروں سے آگے ‘‘ نوجوان وحساس شاعر ثناء اللہ ثناؔء دوگھروی کی نظموں کا مجموعہ ہے، جوانہوں نے بچوں کے لئے کہی ہیں، جس کی وضاحت انہوں نے ٹائٹل پیج پر ’’بچوں کی نظمیں‘‘ لکھ کر کردی ہے۔ مذکورہ کتاب کا میں نےمطالعہ کیا، یہ کتاب ’’ اپنی بات‘‘ سے شروع ہوتی ہے ،اس میں ثناؔءبچوں کے ادب کی تخلیق کی دشواریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’کہا جاتا ہے کہ بچوں کا ادب تخلیق کرنا بچوں کا کھیل نہیں اور یہ بہت حدتک درست ہے، کیونکہ بچوں کا ادب تخلیق کرنے میں بچوں کی نفسیات سے واقف ہونا انتہائی لازمی ہے۔ جب تک کوئی فنکار بچوں کی نفسیات سے واقف نہیں ہوگا، اس کی رسائی بچوں کی پسند ناپسند تک نہیں ہوپائے گی۔اس سلسلے میں دوسری اور اہم بات یہ کہ شاعر یا ادیب کو بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے لئے اپنے آپ کو بچوں کی سطح پر لے جاکر سوچنا اور غوروفکر کرنا ہوتا ہے اور یہ ضروری بھی ہے اس کے بغیر بچوں کا بہتر ادب خواہ شعری ہو یا نثری، تخلیق نہیں کیا جاسکتا۔‘‘(ص:۵)
آگے مزید تحریر کرتے ہیں :’’ بچے قوم کا مستقبل ہیں، آنے والے دنوںمیں انہیں کے شانوں پر قوم کا بار گراں ہوگا، قوم کا زمام ان ہی کے ہاتھوں میں ہوگا، یہی بچے قوم کا مستقبل طے کریں گے، لہٰذا قوم کے روشن وتابناک مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت مفید خطوط پر کی جائے۔اس کے لئے لازمی ہے کہ بچوں کا بہتر ادب تخلیق کیا جائے، ان کی بہتر تربیت کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ شروع سے اب تک ادبا وشعرا نے بچوں کے ادب کی جانب توجہ دی اور بچوں کا معیاری ادب تخلیق کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔‘‘ (ایضاً)
’’ستاروں سے آگے‘‘ حمد، نعت کے علاوہ پیارا دین اسلام، آئو پیڑ لگائیں، پھول سی تتلی، میں بھی روزہ رکھوں گا، پھر سے وہ بہاریں آئیں گی، وہ دولت کون سی دولت ہے، بچہ اور ستارہ، کورونا، پانی کی اہمیت اور ایک غزل پر مشتمل ہے۔ اس طرح یہ کتاب گیارہ نظموں اور ایک غزل پر محیط ہے۔حمد میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور اس کے فضل واحسانات کا ذکر ہے۔ اس میں بچوں کے معیار کو پیش نظر رکھتے ہوئے سہل انداز اختیار کیا گیا ہے۔ نعت میں رسول اللہؐ کے اوصاف حمیدہ کو دلنشیں انداز میں روشناس کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے بعد نظم کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اس نظم کا عنوان ’’پیارا دین اسلام‘‘ ہے۔ اس نظم میں بچوں کو بنیادی باتیں اور ان کی ذمہ داریوں کے متعلق حقائق پیش کئے گئے ہیں۔ یہ نظم بچوں کے لئے سبق آموز ہے،نظم فنی معیارکے مطابق ہے۔ اشعار میں برجستگی، انداز عمدہ اور بچوں کی نفسیات کے مطابق ہے۔
بچوں کو پیڑ پودوں سے دلچسپی ہوتی ہے، وہ اس کو شوق سے لگاتے ہیں، دیکھ ریکھ کرتے ہیں، پانی دیتے ہیں، اس کی حفاظت کرتے ہیں ، پیڑ پودوں کا انسانی زندگی اور ماحولیات پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ شاعر اس کو موضوع بناتا ہے تو اس میں اسے بہت سے رنگ نظر آتے ہیں اور وہ بچوں کے لئے ایک سبق آموز انداز پر پیش کرتا ہے۔ ثناء اللہ ثناؔ نے اس مجموعہ میں ایک نظم شامل کیا ہے، جس کا عنوان ہے ’’ آئو پیڑ لگائیں‘‘ اس نظم میں جہاں بچوں کو پیڑ پودے لگانے کی ترغیب دی گئی ہے، وہیں بچوں کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پیڑ کیوں لگائے جاتے ہیں، پیڑ کی کیا اہمیت ہے، پیڑ پودےہمیں کیا دیتے ہیں اور ماحولیات پر اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں۔
ستاروں سے آگے میں ایک نظر کا عنوان ’’پھول سی تتلی‘‘ ہے۔ اس نظم میں ثناؔ دوگھروی کی حساسیت اور ان کے ذہنی تنوع کا عنصر نمایاں ہیں۔اس نظم میں رنگ برنگی حسین خوبصورت تتلیاں، ان کی دلکش ادا، انہیں پکڑنے کی کوشش میں بچوں کا ان کے پیچھے دیوانہ وار دوڑنا اور بچوں کی آہٹ پاتے ہی تتلیوں کا وہاں سے اڑجانا جیسے مناظر بہتر اور دلچسپ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس چھوٹی بحر میں حسن بھی ہے، برجستگی بھی اور نصیحب بھی ہے۔ ثناؔ نے اس کو اپنی شاعری میں حسین انداز میں پیش کرکے نظم کو دلچسپ بنادیا ہے۔
اس مجموعہ میں ایک نظم کا عنوان ہے ’’وہ دولت کون سی دولت ہے‘‘ اس میں شاعر کا انداز انوکھا ہے، انہوں نے دولت کا ذکر نہ تو نظم کے عنوان میں کیا ہے اور نہ ہی نظم کی ابتدا میں کیا ہے، بلکہ اس کو سوالات کے ذریعہ بچوں کو سمجھایا گیا ہے۔ بچوں سے مختلف سوالات پوچھتے ہوئے ان کے ذہن میں یہ بیٹھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ بڑی دولت ہے ،جسے کوئی چھین نہیں سکتا، جس پر کوئی ڈاکہ نہیں ڈال سکتا، وہ دولت علم کی دولت ہے،یہ نظم کافی دلچسپ ہے، اس میں بچوں کے ذہن کی پوری رعایت موجود ہے، انداز حسین اور اور عمدہ ہے، چھوٹی بحر میں بچوں کو علم سے رغبت دلانے کے لئے بہت بہتر ہے،اس نظم کی بڑی بات یہ ہے کہ اس میں بچوں کی نفسیات کی پوری رعایت موجود ہے۔
اس مجموعہ میں ایک نظم ’’بچہ اور ستارہ ‘‘ ہے، اس نظم کا انداز الگ ہے، اس میں بچہ اور ستارہ کے درمیان مکالمہ ہے، آسمان میں ستاروں کو دیکھ کر بچے کے ذہن میں کون کون سے سوالات پیدا ہوتے ہیں، وہ ستاروں کو دیکھ کر ان کو کیا سمجھتے ہیں، وہ کس طرح ستاروں کو چھونے اور ان کو اپنے دامن میں سمیٹ لینے کی خواہش کرتےہیں، ان تمام باتوں کو نظم میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کے بعد بچے کو ستارہ کی جانب سے جواب دیا گیا ہے،جس میں ستارہ بچہ کو اپنی حقیقت سے واقفیت کراتا ہے، پھر وہاں تک پہنچنے اور اس سے بھی آگے بڑھنے کی تدبیر بتاتا ہےاورآخر میںشاعر یہ بتاتا ہے کہ وہ تدبیر قلم ہے، جس کے ذریعہ آدمی ستاروں سے آگے سفر کرسکتا ہے، اس طرح بچوں کے اندر علم دوستی اور ان میںحوصلہ بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ثناؔ دوگھروی کی پیدائش دربھنگہ ضلع کے مردم خیز گائوں دوگھرا میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم  اپنی والدہ سے حاصل کی،اس کے بعد کچھ دن مدرسہ قاسم العلوم حسینیہ دوگھرا میں داخلہ لیا،تقریباً ایک سال یہاں تعلیم حاصل کی اس کے بعد دربھنگہ میں نیشنل انگلش اسکول میں چوتھی جماعت میں داخلہ لیا،وہاں کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدسرودے ہائی اسکول ،گنگا ساگر دربھنگہ میں آٹھویں جماعت میں داخلہ لیا اور ہیں سے ۱۹۸۳ میں میٹرک پاس کیا، آئی اے اور بی اے اور ایم اے ملت کالج لہیریا سرائے دربھنگہ(ایل این ایم یو) سے پاس کیا۔ انہیں شاعری کا ذوق زمانۂ طالب علمی ہی سے رہا۔ ابتدائی طور پران کے والد کے دوست شفیق احمد سلفی نے  ان کے اندر شاعری کا ذوق پیدا کیا۔ ابتدا میںبغیر کسی استاذ کے ہی شاعری کی اس کے بعدپروفیسر ابوالکلام قاسمی سے باضابطہ اصلاح لی(اصلاح کے حوالے سے انہو ںنے اپنی غزلوں کے مجموعہ ’ اڑان سے آگے ‘ میں اپنے مضمون ’اپنی بات‘  میں تفصیلی ذکر کیا ہے)۔ اس طرح ان کا ذوق بالیدہ ہوا، ان کے شعور میں پختگی پیدا ہوئی اور ایک اچھے شاعر بن کر ابھرے۔
’’ستاروں سے آگے‘‘ میں جن نظموں کو شامل کیا گیا ہے، ان کا انتخاب بہت مناسب اور بچوں کے نفسیات کے مطابق ہے، کتاب کا ٹائٹل بہت عمدہ ، خوبصوت اور بچوں کے ذہن سے ہم آہنگ ہے۔ کتاب معنوی حسن کے ساتھ ظاہری حسن سے بھی آراستہ ہے۔
ثناءاللہ ثناؔ دوگھروی کی یہ کاوش قابل ستائش ہے، امید ہے کہ یہ کتاب عوام وخواص کے درمیان قبولیت حاصل کرے گی اور بچوں کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرے گی۔دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ ثناؔء کی شاعری میں مزید نکھار اور جلا پیدا کرے، تاکہ وہ اپنی شاعری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچا سکیں اور اس کتاب کو قبولیت سے نوازے اور یہ بھی ستاروں سے آگے بڑھتے رہیں۔