تہذیبی جارحیت کا بدترین مظاہرہ

      جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں اس وقت حالات انتہائی دھماکو ہو گئے ہیں۔ مسلم لڑکیوں کے حجاب پہن کر کالجوں میں پڑھنے کے مسئلہ کو لے کر فرقہ پرست طاقتوں نے پوری ریاست میںایک وبال کھڑا کر دیا ہے۔ کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت ہے ۔ اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ جنونی عناصرمسلم طالبات کو اُن کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اب معاملہ عدالت تک پہنچ چکا ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ کی ایک رکنی بنچ اس کیس کی سماعت کررہی تھی۔ لیکن چہارشنبہ کے روز سنگل بنچ کے جج جسٹس کرشنا ڈکشت نے اس کیس کو وسیع تر بنچ سے رجوع کرتے ہوئے کہا کہ مقدمہ میں بہت سارے دستوری سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اس لئے دستوری بنچ کے فیصلہ کے ذریعہ مسئلہ کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔لوگوں کا خیال تھا کہ معزز جج صاحب عدالت کی جانب سے عبوری احکامات جا ری کر تے ہوئے مسلم لڑکیوں کو حجاب کے ساتھ اپنی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتے۔ لیکن انہوں نے اس ضمن میں کوئی آرڈر پاس نہیں کیا ، جس کے نتیجہ میں معا ملہ طول پکڑ سکتا ہے۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ریاستی حکومت نے تین دن کے لئے ریاست کے تمام تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا اعلان بھی کردیا۔ ریاست میں پُر تشدد واقعات کے نتیجہ میں بعض اضلاع میں کرفیو بھی نافذ کر دیا گیا ہے۔ ان سارے افسوس ناک واقعات کے رونما ہونے کی آخر وجوہات کیا ہیں؟ منافر طاقتوں کی آ نکھوں میں اب برقعہ یا حجاب کیوں کھٹک رہا ہے؟ کیا یہ لڑکیاں اچانک حجاب لگا کر کالجوں کو جا رہی ہیں ؟ پھر کیوں انتظامیہ کو راتوں رات یہ خیال آیا کہ ڈریس کوڈ کی آڑ میں مسلم طالبات کو حجاب لگانے سے منع کر دیا جائے۔ یہ بات بھی قابل ِغور ہے کہ مرکز ی حکومت ایک طرف’’ بیٹی بڑھاؤ ، بیٹی پڑھاؤ‘‘کا نعرہ لگاتی ہے اور دوسری طرف کرناٹک کی بی جے پی حکومت مسلم لڑکیوں کو برقعہ پہننے کی وجہ سے انہیں تعلیم سے محروم کرنے کا منصوبہ بناتی ہے۔ اپنے ایک سرکولر کے ذریعہ ریاستی محکمہِ تعلیم طلباء و طالبات کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ محکمہ کی جانب سے صراحت کردہ یونیفارم پہنیں اور ایسا کوئی کپڑا زیب تن نہ کریں، جس سے امن، ہم آہنگی اور نظم و ضبط کے مسائل پیدا ہوتے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ حجاب کے پہننے سے کون سے قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اس سے نظم و نسق کا کونسا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے؟ ملک میں رہنے والے ہر شہری کو مذہبی آزادی کا حق دستورِ ہند نے دیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہر شہری کو شخصی آزادی کا بھی حق دستور نے دیا ہے۔ ان دستوری حقوق کو استعمال کرتے ہوئے کوئی طبقہ اپنی پسند کا لباس پہنتا ہے تو اس سے دوسروں کو کیا پریشانی لاحق ہو سکتی ہے؟ ہندوستان میں ہمارے سکھ بھائی پگڑی باندھتے ہیں اور کِرپان بھی ساتھ رکھتے ہیں۔ اُن کے اس حق کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمان لڑکی برقعہ پہنتی ہے اور مسلم لڑکا داڑھی رکھتا ہے تو اس سے ملک کے امن یا یکجہتی کوکیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں فرقہ پرستی کا زہر گھول کر اکثریت اور اقلیتوں کے درمیان ایک دراڑ ڈالنے کی دانستہ کوشش کی جا رہی ہے۔ بچوں کے ذہن جو ان تمام خبا ثتوں سے پاک ہو تے ہیں، انہیں ان تمام گھٹیا کارستانیوں سے اس قدر آلودہ کر دیا جا رہا ہے کہ ملک کی دیرینہ روایات فرقہ پرستی کے ملبہ میں دفن ہو رہی ہیں۔ شمالی ہند کی ریاستوں میں جو مذہبی منافرت پھیلا کر سیاسی فائدےموجود ہ برسرِ اقتدپارٹی نے اٹھائے ہیں، اب جنوبی ہند کی ریاستوں میں بھی یہ کھیل اسی لئے کھیلا جا رہا ہے کہ آئندہ بھی کرناٹک اسمبلی الیکشن میں دوبارہ منافر طاقتوں کو اقتدار مل سکے۔     
       سب سے پہلے حجاب کا مسئلہ کرناٹک میں ضلع اوڈپی سے شروع ہوا۔ وہاں کے پری یونیورسٹی کالج میں مسلم طا لبات کو حجاب لگا کر کالج کے احاطہ میںآنے سے منع کر دیا گیا۔ طالبات نے کالج انتظامیہ کو یہ بات سمجھانے کی پوری کوشش کی کہ حجاب کا تعلق ان کے مذہب سے ہے۔ وہ اپنے مذہبی حق کو استعمال کرتے ہوئے با حجاب کالج میں پڑھائی کر رہی ہیں۔ ان سے اُن کے اس حق کو چھیننا دستور کی بھی خلاف ورزی ہو گی۔ مسلم طالبات کی ان ساری باتوں کاکالج کے ذ مہ داروں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ معاملہ  نےایک کالج سے نکل کر پوری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس میں ریاستی حکومت کی نااہلی بھی صاف طور پر نظر آ تی ہے۔ کرناٹک کے چیف منسٹر بسواراج بومئی چاہتے تو یہ مسئلہ مقامی سطح پر ہی حل کردیا گیا ہوتا۔ لیکن پارٹی قیادت کا منشاء یہی تھا کہ یہ آگ سُلگتی رہے تا کہ اس کے مفادات کی تکمیل ہو سکے۔ چناچہ ملک کے آئین نے جو حقوق تمام شہریوں کو دئے ہیں، اس کو سلب کرنے کی نیت سے قانون کا سہارا لیتے ہوئے مسلم لڑکیوں کو ان کے جائز حق سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہندتواطاقتوں کو میدان میں اُتاردیا گیا، اس کے نوجوان بھگوا کھنڈوا ڈال کر یہ باور کرارہے ہیں کہ اس ملک میں گیروا رنگ ہی چلے گا۔ ان تنطیموں سے وابستہ شدت پسندوں نے ایک کالج میں قومی پرچم کی بے حرمتی کرتے ہوئے زعفرانی پرچم لہرادیا۔ یہ پرچم ہندوتوا طاقتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس پر ریاست کی موجودہ حکومت کو کوئی غصہ نہیں آیا۔ حجاب کو لے کر جو ہنگامہ بپا ہے، اس کے محرکات کچھ دوسرے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ ریاست اور مرکز دونوں حکومتیں عوام کی توجہ کو اصل مسائل سے ہٹانا چاہتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ملک میں ایسے کئی مسائل سامنے آ ئے، جس کا جواب عوام حکومت سے چاہتی ہے۔بہار میں ریلوے امتحانات کو لے کر امیدواروں نے جس اضطراب کا اظہار کیا، اُس سے حکومت پریشان ہو گئی۔ کسانوں کے ساتھ جو وعدہ خلافی حکومت نے کی اسے بُھلانے کے لئے حجاب کے مسئلہ کو غیر ضروری طور پر طول دیا گیا۔ ایک کالج انتظامیہ کو یہ حق کس نے دے دیا کہ وہ اس کالج میں پڑھنے والی طالبات سے اچانک یہ مطالبہ کر دے کہ وہ کل سے بغیر حجاب کے کالج کو آئیں۔ جب طالبات با حجاب کالج کو آ تی ہیں تو ان کو کالج میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے، ان کے لئے گیٹ بند کردی جا تی ہے۔ اگر فی الوقت حکومت کوئی قانون حجاب پر پابندی کے بارے میں بناتی بھی ہے تو اس کا اطلاق تعلیمی سال کے آغاز پر ہونا چاہئے نہ کہ تعلیمی سال کے دوران ۔طالبات کو تعلیم سے دور کرنے کی نیت سے ایسے من مانی قوانین اور ضابطوں کو لاگو کیا جائے۔ جب تک ملک میں مذہبی آزادی کا قانون رہے گا، اُس وقت تک کوئی حکومت کسی بھی فرقہ کی مذہبی آزادی کو ختم نہیں کر سکتی۔ کرناٹک ، ہندوستان کی ایک ریاست ہے۔ کسی ایک ریاست کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی ریاست کے شہریوں کے لئے کوئی خاص قانون اُن کی مرضی کے بغیر ان پر مسلّط کردے۔ کرناٹک کہ برسرِ اقتدار حکومت ، دستورِ ہند سے آزاد کوئی ریاست نہیں ہے۔ وہاں کے چیف منسٹر نے دستور کا حلف لے کر اپنے فرائضِ منصبی کو ادا کرنے کا عوام سے وعدہ کیا ہے۔ وہ اس کے پابند ہیں کہ وہ ریاست میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں۔ ان کی حکومت کے نا عاقبت اندیش اقدامات سے اگر ریاست میں نظم و ضبط کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے تو ریاست کے گورنر کو اپنی دستوری ذ مہ داری نبھاتے ہوئے ریاست میں دستور کی دفعہ 356کے تحت صدر راج نافذ کردینا چاہئے۔ اس وقت کرناٹک میں نظم و نسق ٹھپ ہوچکا ہے۔ شرپسند عناصر حالات کو بگاڑ کر ریاست میں ایک ایسی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے مسلمان خوفزدہ اور دہشت زدہ ہوکر فرقہ پرستوں کے ہر حکم کو ماننے پر تیار ہوجائیں۔ یہی ان کے عزائم ہیں ۔
حالات کی اس سنگینی میں خاص طور پر کرناٹک کے مسلمانوں اور عام طور پر سارے ملک کے مسلمانوں کو کیا حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہئے ،یہ بات خوش آئند ہے کہ کرناٹک کی مسلم طالبات نے اپنی ایمانی حرارت کا بھرپور ثبوت دیتے ہوئے فرقہ پرستوں کو یہ وارننگ دے دی کہ وہ کسی بھی حال میں اپنے مذہبی شعار سے دستبردار نہیں ہوں گی۔ وہ پورے حجاب میں رہ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گی۔ ان کے لئے حجاب بھی عزیز از جان ہے اور وہ تعلیم کے زیور کو بھی چھوڑنے والی نہیں ہیں۔ اسی دوران کرناٹک کے منڈ یا ضلع کے مہاتما گاندھی میموریل کالج کی ایک بہادر طالبہ بی بی مسکان نے ہندو جنونیوں کے ہجوم کے جئے شری رام کے نعروں کے بیچ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اپنے ایمان پر جس استقامت کا ثبوت دیا اس سے منافر طاقتوں کی نیند حرام ہو گئی ہے۔ 17،18سال کی لڑکی کا یہ جذبہ رائیگاں نہیں جائے گا۔ قوم کی اس جیا لی بیٹی نے قوم کی لاج رکھ لی۔ اس طالبہ نے ان جنونیوں کے سامنے منت سماجت نہیں کی اور نہ ان سے رحم کی بھیک مانگی بلکہ اپنے اللہ پر توکل کرتے ہوئے مصیبت کی اس خطرناک گھڑی میں اپنے اللہ ہی کو مدد کے لئے پکارا۔ اللہ کی ذات پر اس غیر متزلزل یقین نے محمد حسین نامی شہری کی بیٹی کو شر پسندوں سے بچالیا اور وہ پورے عزم کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ بی بی مسکان کا شہرہ ساری دنیا میں ہورہا ہے اور ہر ایک کی زبان پر اس کے نام کے چرچے ہیں۔ یہ ہمت اور حوصلہ سارے مسلم لڑکوں اور لڑکیوں میںلانے کی ضرورت ہے۔ ماضی کے کئی تجربے ثابت کر چکے ہیں کہ فسادیوں کے حملے کے وقت مسلمان کی مدد کے لئے کوئی نہیں آتا۔ پولیس خاموش تماشائی بن کر مجرموں کا ساتھ دیتی ہے۔ بی بی مسکان بھی ہمت ہاردیتی اور ان شرپسندوں سے گھبرا جاتی تو اس کا کیا حشر ہوتا، وہ اللہ ہی جانتا ہے۔ یہ بھیڑئے اس کی تِّکا بوٹی کر دیتے اور اس کا ویڈیو بنا کر وائرل کرتے، جس کے بعدکوئی دوسری مسلم لڑکی حجاب کے ساتھ کالج میںداخل ہونے کی ہمت نہ کرتی۔لیکن بی بی مسکان کی جراتمندی کو سلام کہ اس کرناٹک کی  بیٹی نے ٹیپو سلطان کی یاد تازہ کر دی۔ اُس شہیدِ وطن نے انگریزوں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ "سوسال کی گیڈر کی زندگی سے ایک دن کی شیر کی زندگی بہتر ہے "۔بی بی مسکان نے بھی اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ملک کی منافر طاقتوں کو یہ پیغام دے دیا کہ مسلمان اپنی ہر چیز کھو سکتا ہے لیکن اپنے اسلامی اصولوں سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ جہاں مٹھی بھر فسطائی ذہنیت رکھنے والوں نے یہ سارا تنازعہ کھڑا کیا ہے۔ وہیں دلت طلباء حجاب کی تائید میں سامنے آ رہے ہیں۔ وہ یہ مانتے ہیں کہ جب دستورِ ہند نے ہر شہری کو شخصی آزادی دی ہے تو پھر کیسے کوئی کسی کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ مخصوص لباس ہی پہنے۔ دلتوں کے احتجاج میں شامل ہونے سے ہندتوا قوتوں کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں دلت ان کے خلاف ہو جائیں تو اقتدار ان کے ہاتھوں سے نکل جا ئے گا۔ اسی طرح انصاف پسند اور جمہوریت نواز حلقوں سے بھی ان حرکتوں کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے۔ لیکن منافرقوتوں کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے ،اس لئے وہ پوری ریاست میں ماحول کو گرما رہے ہیں۔ کرناٹک میں بھی اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں۔ اس لئے ابھی سے وہاں کی برسرِ اقدار پاٹی ریاست میں ہندتوا کا کارڈ کھیل کر دوبارہ اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے۔حجاب محض بہانہ ہے، اصل مقصد اقتدار حاصل کرنا ہے۔ کرناٹک کے بعد اب مدھیہ پردیش میں بھی یہ تنازعہ شروع ہوچکا ہے  اور تا حال یہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس لئے اس تہذیبی جارحیت کے خلاف مسلمانوں کو ڈرنے اور گھبرانے کے بجائے حکمت ،تحمل اور عزیمت کے ساتھ موثر اقدامات کرنے ہوں گے۔تاکہ پُر امن طریقے سے وہ اپنے اس جائز حق کو برقرار رکھ سکیں۔ ورنہ ’’تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں ‘‘۔
 ( رابطہ۔9885210770)