تھرڈ فرنٹ ؟؟؟

ریاست میں سیاست کی ہانڈی میں کب کیا اُبال آئے،اس بارے میں پیش گوئیاں کر نا دشوار ہوتاہے ۔ یہی ایک نادر نمونہ ہفتہ عشرہ پہلے ریاست میں سیاسی ہلچل کے حوالے سے  دنیا کے سامنے آیا۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دیر سے ہی سہی سیاسی تھیلی سے بلی بالآخر سے باہر آ ہی گئی اور ہم نے سر کی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ سیاسی حریف جو ایک دوسرے کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے، حالات کے دباؤ میں باہم دگر ہاتھ ملانے پر مجبور ہوئے۔ اس سے ریاست کے سیاسی منظر نامے میں سب کچھ تلپٹ ہوگیا ۔ ویسے بھی سیاست میں کوئی بھی چیز مستقل نہیں ہوتی، وقتی تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق سیاسی فیصلے لئے اور بدلے جاتے ہیں ، یہاں دوستی اور دشمنی کی لکیریں بھی تغیر پذیر ہو نے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ۔ ان حقیقتوں کے آئینے میں پیش آمدہ حالات پر اُچکتی نگاہ ڈالئے جو بالآخر اسمبلی کی تحلیل پر منتج ہوئے تو ہماری اقتداری سیاست کے بہت سارے سر بستہ راز بے نقاب ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ اس بار شروعات پی ڈی پی کے باغی یا روٹھے ہوئے ممبر پارلیمنٹ مظفر حسین بیگ نے کی۔انہوں نے اقتداری سیاست کے تالاب کے ساکت پانی میں ایک ٹھیکرا پھینکا تو سطحِ آب پر وہ دائرے بن گئے جو چلتے چلتے تاریخ کا ایک دلچسپ ورق قلم بند کرگئے ۔ بیگ نے مجوزہ تھرڈ فرنٹ کا شگوفہ چھوڑ کر پیپلز کانفرنس کو اپنا گھر، سجاد لون کو بیٹا اور تیسرے محاذ کو اپنا ممکنہ ٹھکانہ بتاتے ہوئے پی ڈی پی سے ناطہ توڑنے کا اشارہ دیا ۔اس سے سیاسی حلقوں میں تلاطم مچ گیا اور جو افواہیں کئی دن سے گشت کرہی تھیں کہ حکومت سازی کے تعلق سے اندر ہی اندر کوئی کھچڑی پک رہی ہے،ان کی تصدیق ہو تی نظر آئی ۔ اسی پس منظر میں دفعتاً ڈرامائی انداز میں جب این سی ، کانگریس اور پی ڈی پی نے جموں و کشمیر میں اگلی ملی جلی حکومت تشکیل دینے کا جوابی شگوفہ چھوڑا تو معاملہ راج بھون تک پہنچا۔ سچ میںاین سی اور پی ڈی پی کی پولٹکل کیمسٹری میں کوئی زیادہ فرق نہیں، یہ دونوں جماعتیں نظریات وترجیحات کے لحاظ سے ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں ۔ ایک پارٹی نے کرسی کے لئے خود مختاری کا نعرہ بیچ کھایا ،دوسری جماعت نے سیلف رول کا سودا سلف زخموں کا مرہم اور باعزت امن کے برانڈ سے بازارِ سیاست میں نیلام کیا۔ان میں قدر مشترک ہندنواز ی، دلی کی جی حضوری اور کرسی کی پرستش ہے جس میں دونوں پارٹیاں ایک دوسرے پر سبقت لینے میں کوئی عارمحسوس نہیں کرتیںبلکہ سچ پوچھئے تو اقتدار کی رسہ کشی کے بغیر انہیں کوئی دوسری چیز ایک دوسرے سے جدا نہیںکرتی ہو، اُن کی پرورش اور پر داخت بھی ایک ہی دہلوی ماں کی چھاتی کے دودھ پہ ہوئی ہے ۔ ہاں ، ان دو جماعتوں کے برعکس کانگریس بہرحال ایک ملکی پارٹی ہے،اس کا اپنا ایک قومی ایجنڈا ہے جس کے حصول کے لئے یہ علاقائی سیاست کو کہیں اپنی پرموشن کا زینہ بناتی ہے اور کہیں قومی مفاد کے نام پر اسے بلّی کا بکرا بناتی ہے۔
 بہر صورت پی ڈی پی ، این سی ، کانگریس نے ہنگامی حالات میں جلدی جلدی مفاہمت کرکے ریاست میں حکومت سازی کے لئے اپنا مشترکہ دعویٰ سابقہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی سے مکتوب بنام گورنر کی صورت میں کروایا ۔اب گیند گورنر ستہ پال ملک کے پالے میں تھی۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ راتوں رات این سی اور پی ڈی پی کا ملن چونکہ دلی کے گیم پلان سے متصادم تھا کیونکہ دلی کبھی چاہے گی کہ ریاست کی سیاسی جماعتیں مرکز میں برسراقتدار پارٹی کی آشیرباد کے بغیر اپنے بل بوتے پر کوئی اتحاد بنائیں یاتوڑیں ، ا س لئے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور راج بھون کا فیکس بھی بٹھایا گیا اور موبائیل بھی سوئچ آف کیاگیا ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ دورُکنی پی سی کے سربراہ سجادلون نے بھی محبوبہ مفتی کی طرف سے گورنر ستیہ پال ملک کے نام حکومت سازی کا دعویٰ پیش کرنے والا مکتوب بذریعہ ٹوئٹر چند منٹ  میں ارسال کر کے سیاست کو ڈرامائیت کا رنگ دیا۔ گورنر کے نام اپنے خط میں انہوں نے حکومت سازی کادعویٰ پیش کر تے ہوئے’’ انکشاف‘‘ کیا کہ بی جے پی کے ۲۶ اور پی ڈی پی کے’’ پندرہ باغی ممبران اسمبلی ‘‘ کی حمایت انہیں حاصل ہے ۔ گورنر ملک نے ان دو متصادم دعوؤں کی اصلیت جانچے بغیر سو سنار کی ا یک لوہار کے مصداق اسمبلی کو بنگ کئے جانے کا اعلان کر دیا،اس اقدام سے سارا قصہ میڈیا کی سرخیوں میں سمٹ کر رہ گیا، اللہ اللہ خیر صلاہ ۔ گورنر کی کارروائی کی سوائے بھاجپا کسی بھی پارٹی نے پذیرائی نہ کی ۔ غور طلب ہے کہ پی ڈی پی ،این سی ا ور کانگریس کا کچھ روز پہلے تک یہی مشترکہ موقف تھاکہ اسمبلی توڑ دی جائے تاکہ ’’ ہارس ٹریڈنگ ‘‘ کے دروازے یکسر بند ہو ں، لیکن گورنر اسے ٹالتے رہے، اور پھر جب تھرڈ فرنٹ کا بے ہوا غبارہ فضا میں چھوڑا گیا تو ان تین پارٹیوں کو fire fighting مشن کے طور اپنے بچاؤ سوچنا پڑا ۔ بھاجپا نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں ،اس نے ’’سرجیکل اسٹرائیک ‘‘ کرکے اس سہ جماعتی سیاسی اتحاد کو عملی شکل پانے سے پہلے ہی اسے زمین بوس کردیا ۔ واضح رہے کہ فرقہ پرست قوتوں کو چھوڑ کر ریاستی عوام کے لگ بھگ تمام طبقاتِ خیال نے اس نئے نویلے سیاسی اتحاد کو بہت سراہا تھا ۔
 اب ایک اور پہلو سے ان ڈرامائی حالات پر غورکیجیے۔ مبصرین کی نگاہ میں مجوزہ تھرڈ فرنٹ در حقیقت اُن سیاسی منصوبوں کی نشاندہی کر تا ہے، جنہیں موٹے طورجے بی جے پی مشن کشمیر کا نیا روڑ میپ مانا جاسکتا ہے۔اس میں ساؤتھ کشمیر کے بجائے اب بھاجپا کا فوکس نارتھ کشمیر پر ہو گا ۔ ہوا کا رُخ بتا تا ہے کہ بھاجپا حامی سجاد لون اس کے ہراول دستے میں شامل ہوں گے بلکہ اگر گورنر ملک کی مانیں کہ مرکز کا اُن پر یہ دباؤ  تھاکہ سجاد کو وزارتِ عالیہ کے مسند پر بٹھایا جائے ، تو تھرڈ فرنٹ ایک بڑی کہانی کا ایک چھوٹا خاکہ ہے۔اس خاکے یا منصوبے کی عملی شکل ممکنہ طور یہ ہے کہ وادیٔ کشمیر سیاسی طور مزید بکھر کر رہ جائے ، یہاں کے لوگ بانت بانت کی بولیاں بولیں، یہ سیاسی طور متحد نہیں بلکہ منقسم رہیں ، جنوبی کشمیر میں ایک سیاسی پارٹی ہو ، وسطی کشمیر میںدوسری اور شمالی کشمیر میں تیسری ، پھر ان پارٹیوںکی گھر گھر اورگاؤں گاؤں بٹوارہ ہو تاکہ کوئی بھی پارٹی مرکزیت حاصل نہ کر سکے اور کنگ میکر مرکز بنارہے۔ مجوزہ تھرڈ فرنٹ اسی خاکے کا ایک نمونہ ہے ۔ اگر بالفرض بھاجپا میڈ تھرڈ فرنٹ کی یہ سیاسی کھیر پک نہیں جاتی تو متبادل کے طور بھاجپا مابعد الیکشن این سی سے ہاتھ ملاکر گزارہ چلائے گی ۔ چونکہ این سی کیڈر بیسڈ ہے اور ایک طویل مدت تک جموں و کشمیر کی واحد علاقائی پارٹی کے طور متحرک رہی ہے ، اس لئے دلی اسے زیادہ دیر نظر انداز نہیں کر سکتی۔ تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ نہ صرف اسی سیاسی پارٹی نے بھارت کو کشمیر میں مدعو کیا اور پھر سنگھ پریوار کو مدتوں اُچھوت ماننے، شیاما پرشاد مکھرجی کی اتفاقی موت کاخمیازہ اُٹھانے اور پر جا پریشد ایجی ٹیشن کی کڑواہٹیں یاد رکھنے کے باوجود ا ین سی نے پی جے پی کا اتحادی بننے میں کوئی باک نہ سمجھی اور جس طرح نہروکوفوقیت دیتے ہوئے شیخ عبداللہ نے نومبر ۴۷ء میں تین لاکھ سے زائد مسلمانان ِ جموں کے قتل عام، لوٹ مار اور عصمت ریزیوں پر مکمل چپ سادھ لی،اُسی طرح گجرات میں مسلم آبادی کی بدترین نسل کشی کے باوجود این ڈی اے کاحصہ بنے رہنے کو اولیت دے کر فاروق عبداللہ نے اپنے فرزند عمر عبداللہ کی مرکز میںکرسی ٔ وزارت کو دودوہاتھوں پکڑے رکھا ۔ لہٰذا آج کی تاریخ میں این سی اور بی جے پی اگر پھر ایک بار پھر سیاسی پارٹنر شپ قائم کر تی ہیں تو اچھنبے کی کوئی بات نہیں ہوگی۔ البتہ یہ انتظام مابعد انتخاب اسی طرح ممکن ہو سکتا ہے جیسے مفتی سعید نے بھاجپا کا مارچ ریاست میں روکنے کے نام پر لوگوں سے ووٹ لیا مگر پھر بعدازانتخاب’’ قطبین کاا تحاد‘‘ جیسی موقع پرستانہ اصطلاح وضع کر کے چوں چوں کا سیاسی مربہ ایجنڈا آف الائینس کے نام سے تیار کیا ۔
ہمارے یہاں یہ سیاسی روایت دہرا ئی جاتی رہی ہے کہ چاہے ریاست کی اندرونی خود مختاری کا جنازہ اٹھتا رہے یا چاہے بار بار مر کز کے مفادات کے لئے کشمیر کے وسائل تک نیلام کر نے یا گروی رکھنا پڑے، و ہ سب قابل قبول ہوسکتاہے مگر کرسی سے دوری نا قابل برداشت ہے ۔ اس حمام میں اقتدای پارٹیاں  سب کی سب ننگی ہیں ۔ یہ بھی ایک ناقابل ِتردید حقیقت ہے کہ بھارت کی تھنک ٹینکس نے ہمیشہ این سی کے مد مقابل ایک اور مقامی پارٹی تشکیل دلوائی جو بوقت ضرورت این سی کی متبادل ثابت ہوسکے ۔ انڈین نیشنل کانگریس ، جنتا پارٹی، پی ڈی پی کا جنم انہی کرشموں کارہین ِمنت رہاہے۔ اس سے این سی کا اثر ونفوذ بتدریج گرتا اور سمٹتا گیا، نتیجہ یہ کہ اب یہ پارٹی بشمول دوسری پارٹیوں کے اس پوزیشن میں ہے ہی نہیں کہ جموں کشمیر میں اپنی قوت کی بنیاد پر حکومت بناسکے۔ این سی۔ کانگریس اور پی ڈی پی ۔ بی جے پی کی مخلوط حکومتیں اسی سیاسی بازی گری کا لیکھا جوکھا ہے۔ ستم ظریفی یہ کہ مرکز کی مرہون ِ منت ہر ریاستی حکومت کواپنی تمام وفاداریوں، پیالہ برداریوں اور غلامانہ کورنشوں کے صلے میںدلی سے آخرکار طلاق ہی ملتی رہی ۔ خیز بھاجپا یہاں اب ایک دوسرے ہی طرز کا سیاسی میچ کھیلنا چاہتی ہے۔ا س کی خواہش ہے کہ ریاست میں انتخابی سیاست کا پانسہ کچھ ایساپلٹا جائے کہ وہ کنگ میکر نہیں بلکہ خود کنگ ہو اور ریاست کی  دیگرعلاقائی پارٹیاں اور حاشیہ بردار اپنی درباری پوزیشن تک گنوا بیٹھیں۔اس دن کا ا نتظار زیادہ طول نہ پکڑے ، اس کے لئے سنگھ نے مجوزہ تھرڈ فرنٹ گیم کا میدان ہموار کر نا شروع کیا ہے۔ تیسرے محاذ کی تعمیر میں اپنی وفاداریوں اور اپنی خدمات کا کندھا کرسی کے عوض کہیں اے ٹیم اور کہیں بی ٹیم بھاجپا کو پیش کرے گی۔اس کے لئے سنگھ کو خزانوں کے ڈھکن کھولنے کے علاوہ کچھ اور نہ کر نا ہوگا ۔ چونکہ بی جے پی آج کی ڈیٹ میں انڈین پالٹیکس کی مالک ِکل بنی ہوئی ہے،اس نے آنے والے اسمبلی انتخابات میں بلدیاتی ، اور پنچایتی الیکشن کا تجربہ دہرانے کا من بنالیا ہے ۔ اس ضمن میں وادی میں خاص کر اس کے پراکسی امید وار میدان میں آکر پہلی بار جموں کشمیر میں بلا شرکت غیرے بی جے پی سرکار کو جنم دینے کی سعی کریں گے ۔ مجوزہ تھرڈ فرنٹ اسی پلاٹ کا جلّی عنوان ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس گیم پلان کا کوئی موثر توڑ این سی اور پی ڈی پی کے پاس ہے ؟ کیا وہ انتخابی گٹھ جوڑ کر کے مجوزہ تھرڈ فرنٹ کاروڑ بلاک کرسکیں گے جس طرح جنتاپارٹی کو مرارجی ڈیسائی، جگ جیون رام، مولانا مسعودی اور میرواعظ مرحوم کی زوردار انتخابی مہم کو بیمار وعلیل شیخ عبداللہ نے بغیر کسی جوابی مہم چلائے محض اپنے شخصیاتی جادو سے بلاک کیا اور اسمبلی انتخابات میں قطعی اکثریت حاصل کر کے دلی کی تھنک ٹینکس کو لاجواب وششدر کر کے رکھ دیا تھا ۔ فی الوقت ان حوالوں سے حالات یکسر مختلف پائے جاتے ہیں کیونکہ یہاں اول شیخ جیسی شخصیت کا وجود خواب وخیال کی بات ہے، دوم این سی اور پی ڈی پی کا مقصد وحید اقتدار ہے نہ کہ خداوندان ِ دلی کو اپنے سے خفاکرنا، سوم اغیار کے لئے حریت کی بائیکاٹ کال نعمت ِغیر مترقبہ ثابت ہوتی رہی ہے۔اس لئے عالم ِ وجود میں نظر نہ آنے والے تھرڈ فرنٹ کے نام سے پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون، پی ڈی پی کے سابق وزیر خزانہ اور موجوہ ممبر پارلیمنٹ مظفر حسین بیگ اور شیعہ لیڈر عمران انصاری فی الحال وہ چہرے ہیں جن پر وقتی طور بی جے پی کا دست ِ کرم ہے ۔ اس میں دورائے نہیں کہ کشمیر کی آبادی کو تقسیم در تقسیم کرنے کا کام کئی برس سے جاری وسا ری ہے۔ البتہ جس طرح یہاں الیکشن میں پاکستانی نمک، سبز رومالوں اور آزادی کے نعروں کا مال بیچ کر لوگوں کا اعتماد حاصل کیا گیا ، اُسی طرح مجوزہ تھرڈ فرنٹ کو اپنے پاؤں یہاں جمانے کے لئے یقینی طور پر کچھ نئے جاذب ِ نظر نعرے اور کچھ عمدہ باتیں ضرور وردِ زبان رکھناہوں گی ۔ تھرڈ فرنٹ کے نمائندہ چہرے یہ کہہ کر کہ خاندانی سیاست کے پروردہ لوگوں اور پرانے سیاست کاروں کو باہر کے دروازے دکھایا جائے، خالی ہاتھ رہیں گے کیونکہ یہ لوگ وہی ہیں جنہوں نے یاتوخود سیاسی گھرانوں میں جنم لیا ہے یا اپنی نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے سے لے کر بڑھاپے تک کی دہلیز پر آنے تک سیاسی میدان میں ہمیشہ اپنا سیاسی قبلہ اَدلتے بدلتے رہے ہیں۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ مجوزہ تھرڈ فرنٹ میں ابھی تک وہ ’’باغی‘‘ کہیں آگے پیچھے نظر نہیں آرہے ہیں جن کے بارے میں یہ کہاجاتا رہاکہ یہ اپنی آبائی پارٹی سے فرنٹ ہیں ۔   
فون نمبر9419514537