جس طرح کی خوشی ،مسرت ،شادمانی یا جس طرح کا لگاؤ ہم پہلے دن کسی پرائے شہریا پرائے ملک میں جاتے ہوئے محسوس کرتے ہیں کاش وہ خوشی تا دیر رہتی ،لیکن ایسا کہاں ممکن ہے ۔ساتھ ہی جس طرح ہم سانپ یا بچھو کے ساتھ اچھا سلوک کر کے اُس کی خصلت تبدیل نہیں کر سکتے عین اسی طرح ہم اپنے مسکن یا اپنے اپنوں کا درجہ کسی دوسرے کے گھر یا کسی پرائے کو عطا نہیں کر سکتے ۔یہی حقیقت ہے اور یہی صداقت ہے ۔ایسا ہی کچھ خالد کے ساتھ بھی ہوا ۔خالددیو ہیکل تھا۔اس کے کالے بال،نیلی آنکھیں ،چہرے کی تازگی سے ہر کوئی اس کی تعریف کرنے کے لیے مجبور ہوتا۔خالد کا اس سے پہلے اس طرح کی تبدیلی سے کبھی بھی سروکار نہ پڑا تھا۔دلی جاتے وقت اُسے اس بات کا بالکل بھی علم نہ تھا کہ اس کی زندگی اس درجہ تبدیل ہونے والی ہے ۔ویسے بھی وہ لمحے بڑے قیمتی ہوتے ہیں جو ہمیں دکھوں سے نکال باہر کر کے چند لمحوں کے لیے فرحت کا سامان مہیا کرتے ہیں ۔آپ اس شہر میں کب سے رہ رہی ہیں۔ ایک دوشیزہ نے خالدسے آکے یہ سوال کر دیا ۔کسی اجنبی سے اس طرح کا سوال سن کے پہلے تو وہ ہکا بکا رہ گیا لیکن پھر جلد ہی اس کے سوال کو اپنے آپ پر حاوی نہ کرتے ہوئے اُس نے جواب دیا ’’جس دن سے تم نے مجھے یہاں دیکھا ہے ‘‘۔خیر اسے شاید خالدکا جواب پسند نہ آیا ۔’’لیکن میرا جواب کہاں اتنا بھی مشکل تھا جو اس نے اس طرح کی بے اعتنائی دکھائی‘‘۔ خالد من ہی من میں کہنے لگا۔اس دوشیزہ کے جانے کے بعد خالد اپنے آپ سے یہ سوال پھر سے دہرانے لگا کہ آخر میں اس اجنبی شہر میں کب سے ہوں۔’’ارے چاچو آپ آگے کیوں آئے میں احمد کو آئوٹ کرنے والا تھا ۔۔۔۔آپ نا ہمیشہ غلط وقت پر آن پرتے ہیں ۔۔۔۔۔‘‘احمد اور نیاز دونوں اسی گارڑن میں آکر کھیلا کرتے اور میں بھی اپنے غم بھلانے کے لیے اور ان کی خوشی میں شامل ہونے کے لیے روز کچھ وقت اس باغ کی نذر کرتا ۔
’’چاچو آپ کیوں ہمیشہ اپنے آپ میں ہی مگن ہوتے ہیں ۔پہلے پہلے جب آپ یہاں آئے تو آپ بہت مسکرایا کرتے تھے لیکن اب نہ جانے وہ ہنسی کہاں چلی گئی ۔ اب آپ صرف ضرورت کے مطابق باتیں بھی کرتے ہیں ‘ہنسنا تو دور کی بات ہے ۔‘‘خالدنے اس بچے کے سوالات کو نظر انداز کر کے اپنی ہی دنیا میں مگن رہنے کو ترجیح دی ۔لیکن کبھی کبھی بچے نادانی میں کوئی ایسی بات کہتے ہیں جو سیدھے کلیجے میں پیوست ہو جاتی ہے۔انسان اگر چہ دوسرے سے اپنے احساسات کو چھپائے لیکن انسان اپنے آپ سے کبھی بھی جھوٹ نہیں بول سکتا ۔خالد اس باغ سے نکل کر اپنے کمرے ،جو کہ یہاں آنے کے بعد اُس کی محدود سی کائنات تھی، میں سوچنے لگا کہ ہمارے دیس کی صبح کتنی پر کشش ہو تی ہے ،نا ہی گاڑیوں کا شور اور نا ہی دیگر طرح کے معاملات ۔وہاں تو ہمیں بیدار کرنے کے لیے قدرت نے ایک الگ طرح کا اہتمام کر رکھا ہے ۔لیکن اس طرح کا اہتمام یہاں کہاں تھا۔’’ویسے مجھے اس طرح کی تبدیلی کا کئی سالوں سے ارمان تھا۔اب کیوں میں اچانک اس طرح کی تبدیلی سے تنگ آنے لگتا ہوں ‘‘۔ وہ پھر سے من ہی من میں بڑبڑایا۔’’آخر میں کیوں اپنے فیصلوں کی لاج نہیں رکھ پا رہا ہوں ‘‘۔اسی اثنا میں خالدنے سونے کی کوشش کی لیکن نیند آج بھی اُسکی آنکھوں سے کوسوں دور رہی۔’’آخر میری اس نیند کو ہوا کیا ،گاؤں میں تو پلک جھپکنے کی ہی دیر ہوتی تھی۔یہاں ۔۔۔۔۔آخر یہاں کیا ہوجا تا ہے میری نیند کو۔۔۔۔۔۔‘‘خالد سوچنے لگا۔ صبح جاگ کر بھابھی کے ہاتھ کی بنی چائے نوش کی ۔’’یہ تمہاری آنکھیں سرخ کیوں ہیں۔‘‘بھابھی کا سوال آج بھی وہی تھا جو پچھلے کئی دنوں سے تھا۔خیرآج بھی بغیر کوئی جواب دئے خالد اپنے کام پر نکل گیا ۔
روز اپنے کمرے سے نکلتے وقت میں کمرے کا بلب بجھا کر جایا کرتا تھا لیکن پتا نہیں آج میں نے بتی بجھا دی کہ نہیں۔خیر اب کون سا طوفان آجائے گا ۔اس خیال کوذہن سے نکال کر خالد کام میں مگن ہوگیا ۔واپسی پر خالد جوں ہی گھر میں داخل ہوگیا تو اُس کی بھابھی جو کہ کل تک اُس سے اونچی آواز میں بات بھی نہ کرتی تھی اُس پر برس پڑیں ۔یہ اچانک سے کیا ہوگیا۔کل تک تو بھابھی مجھ سے اونچی آواز میں بات بھی نہ کرتی تھی آج یہ کیا ہوگیا۔’’دیور جی آپ کو اس بات کا ہوش کیوں نہیں رہا کہ کمرے کا بلب بجھا دیتے۔۔۔۔۔۔یہ اتنا سارا بجلی کا فیس کون بھرے گا۔ہم گاؤں میں نہیں رہ رہے ۔۔۔یہ شہر ہے شہر ۔۔۔یہ گاؤں نہیں ہے ۔۔۔یہاں اس طرح کا ماحول نہیں ہے جس طرح کا ماحول گاؤں میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔۔۔یہاں چیزوں کا استعمال ان کی مقدار پر منحصر ہوتا ہے۔۔۔۔خالدنے بھابھی کے یہ الفاظ خنجر کی طرح اپنے کلیجے میں اُترتے ہوئے محسوس کئے لیکن اُس نے ان کی کسی بھی بات کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا ۔ کیسے لوگ شہری زندگی میں کھو کر اپنی تمام طرح کی محبتو ںکا جنازہ نکال دیتے ہیں ۔۔۔۔خالد بھابھی کی کسی بھی بات کا جواب نہ دے سکا ۔۔۔۔ویسے وہ جواب دیتا بھی تو کیا دیتا ۔وہ ان کی باتیں سن کر حواس باختہ ہو کر رہ گیا ۔۔۔۔احمد روز کی طرح خالد کے قریب آکر اُس سے جھنجھوڑنے لگا۔ چاچو جواب تو دیں آپ نے میرے لئے کیا لایا۔بیٹا وہ میں بھول گیا آج میرے ایک دوست نے لفٹ دے کر مجھے گھر تک چھوڑ دیا ۔کل ضرور تمہارے لیے کچھ نہ کچھ لاؤں گا۔
خالد سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔اُس نے کمرے کے ہر پہلو کو آج نئے سرے سے دیکھنے کی کوشش کی ۔۔۔’’کیا یہ کمرہ بھی ویساہی ہے جیسے کہ میرے گاؤں میں ہوا کرتا ہے۔مجھے اس کمرے کی ہر شئے منفرد سی نظر آنے لگی۔کیا یہ میرا انداز بدلاہوا ہے یا واقعی چیزیں بدل رہی ہے‘‘۔وہ من ہی من میں بڑ بڑایا۔اُ سے آج اپنے اور پرائے دیس میں جیسے زمین وآسمان کا تفاوت نظر آیا۔وہ پوری رات صرف اسی فرق کو اپنے دماغ میں واضح کرتا رہا ۔صبح کی روشنی جوں ہی اُس کی آنکھوں پر پڑی تو اُس نے اپنا سامان باندھ کر باہر کی راہ لینی چاہی۔دروازے کو ہاتھ لگا کر اُس نے باہر قدم رکھنا ہی چاہا کہ اُس کے بازؤں کو کسی نے روکا۔دراصل یہ اُس کے بھانجے احمد اور نیاز تھے۔۔۔بچو تم لوگ۔۔۔ ۔۔اتنی صبح صبح آج کیسے جاگے۔۔۔۔چاچو آپ کہاں جا رہے ہیں ۔کیا آپ کو ہم بہت تنگ کر رہے ہیں تبھی آپ واپس جارہے ہیں ۔۔۔نہیں نہیں بچو ایسا نہیں ہے دراصل میں اس شہری ماحول کے لیے نہیں بنا ہوں ۔۔۔مجھے یہاں آپ کے ساتھ رہنے میں مزا تو آتا ہے لیکن جب آپ دونوں میرے ساتھ نہیں ہوتے تو میں بالکل اکیلا ہو جاتا ہوں۔۔۔۔اسی لیے میں واپس اپنے گاؤں جا رہا ہوں ۔۔۔۔جہاں شایدمیری کمی کا ازالہ ہوسکے ۔۔۔۔لیکن چاچو ہمیں تو آپ کی یاد آئے گی نا ۔۔کیا آپ کو ہماری یاد نہیں آئے گی۔شائد گاؤں اور شہروں کے بیچ ایک بڑاتفاوت ہے جو خالد چاہ کر بھی ان بچوں کو سمجھا نہیں سکتا ۔خیر ان بچوں سے رخصت لے کر وہ گاؤں کی طرف روانہ ہوا۔
اُس نے گاڑی میں جوں ہی قد م رکھا تو اُس کی سوچ پھر سے بلندیوں کے طرف پرواز کرنے لگی۔۔۔وہ گھر تک پہنچتے پہنچتے صرف شہری اور دیہاتی زندگی کے موازنے میں لگ گیا۔گاڑی جوں ہی سٹیشن پر پہنچی وہ سوچ کی دنیا سے واپس آکر ایک الگ طرح کی فرحت سے نبرد آزما ہوگیا۔۔۔ہاں ہاں یہ میرا گاؤں ہے ۔۔۔۔یہاں پہنچ کر اگر چہ آج سے میرے ہاتھ میں بہت سارے پیسے نہ ہوں گے لیکن ایک الگ طرح کی فرحت، جو شاید میں نے وہاں کبھی بھی محسوس نہ کی تھی، سے میرا سروکار رہا کرے گا۔ وہ زور زور سے یہ الفاظ دہرانے لگا۔۔۔۔۔گاڑی سے اُتر کر وہ اس مٹی کو چومنے لگا جہاںاُس کاجنم ہوا تھا۔۔۔۔شاید یہی وہ کمی تھی ۔۔۔۔۔جووہ ہر دن شہر میں محسوس کیا کرتا۔۔۔ تھا۔۔۔۔
���
ریسیرچ اسکالر شعئبہ اردو سینٹرل یونی ور سٹی آف کشمیر،
چندوسہ بارہمولہ،ای میل؛[email protected]