اشفاق سعید
سرینگر //جموں وکشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے عہدیداران اپنے ہی ملازمین کے تئیں کتنے سنجیدہ ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوران ڈیوٹی فوت ہونے والے عارضی ملازمین کے اہل خانہ کی مدد کے بجائے انہیں ایک آفس سے دوسرے آفس تک کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا جاتاہے ۔ محکمہ بجلی یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ دوران ڈیوٹی لقمہ اجل بن گئے ،عارضی و مستقل ملازمین کو نہ صرف معاوضہ فراہم کیا جا تا ہے، بلکہ اُن کے کنبہ کی کفالت کیلئے بھی محکمہ ہر ممکن مدد فراہم کرتا ہے، لیکن عملی طور یہ سب دعوے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔محکمہ کے افسران جھوٹ بولنے میں سب سے ماہر ہیں اور خالصتاً ایک انسانی مسئلے پر بھی وہ ڈھٹائی کیساتھ جھوٹ بولنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
قاضی گنڈ کے ایک کنبہ کی حالت یہ ہے کہ اُن کے گھر کا واحد کمائو اس دنیا سے جونہی چلا گیا تو محکمہ نے اہل خانہ کو قاضی گنڈ سے سرینگر اور سرینگر سے قاضی گنڈ کے چکڑ کاٹنے پر مجبور کر دیا، اور معاوضہ کیلئے جو فائل 2سال قبل بنائی گئی وہ چیف انجینئر آفس سرینگر میں دھول چاٹ رہی ہے ۔ یکم اپریل2019 کو محکمہ بجلی میں عاضی بنیادوں پر تعینات نسو بدراگنڈ سے تعلق رکھنے والا محمد رفیع کاوا ولد غلام حسن ،قاضی گنڈ ٹائون میں بجلی کی ترسیلی لائن کی مرمت کر رہا تھاکہ اس دوران اُسے چکر آگیااور وہ بجلی کے کھمبے سے نیچے گر گیا۔پانی کے دو گھونٹ بھی اسکی نصیب میں نہیں تھے اور وہ حرکت قلب بند ہونے کے نتیجے میںفوت ہوا۔محمد رفیع کی اہلیہ شہزادہ اختر نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ’’ ہمیں اُمید تھی محکمہ بجلی کے حکام ان کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور جب میں اُن کے دروازے تک پہنچی تو مجھے صرف تسلیاں دی گئیں ‘‘۔شہزادہ نے مزید کہا کہ خاوند کی موت کے بعد پورا گھر دانے دانے کا مختاج ہو گیا ہے ،بڑے بیٹے اویس کی تعلیم متاثر ہوئی اور مجاز کو درسگاہ اسلامی تعلیم کیلئے بھیجنا پڑا ۔شہزادہ اختر نے کہا کہ میرے 4بیٹے ہیں ،جن میں سے 2 کی تعلیم جاری ہے لیکن جس طرح گھر کے حالات ہیں، ان کی تعلیم جاری رکھنا نا ممکن بنے گا ۔انہوں نے مزید کہا ’’ میرا خاوند گھر کا واحد کمائو اور سہارا تھا، اس کی موت کے بعد اب گھر کے اخراجات لوگوں کی خیرات پر چلتے ہیں ۔
مرحوم فوت شدہ عارضی ملازم کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ اس نے معاوضہ کیلئے کئی بار قاضی گنڈ اور بجبہاڑہ ڈویژنوں اور چیف انجینئر آفس کے چکر کاٹے، لیکن انکا کیس کبھی نہیں ترجیح بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ کیس فائل بھی چیف انجینئر آفس سرینگر میں دھول چاٹ رہی ہے ۔اسکے بیٹے اویس احمد نے بتایا ’’ سرکاری سطح پر بڑے بڑے دعویٰ کئے جا رہے ہیں کہ ایسے کنبوں کو معاوضہ دیا جاتا ہے جن کے والدین بجلی کے جھٹکوں اور دوران ڈیوٹی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں،لیکن ہماری حالت خود یہ عیاں کر رہی ہے کہ ہم پر محکمہ نے مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ انہوں نے کہا کہ انکے والدنے محکمہ میں 16برس تک کام کیا اور اسکی یہ خدمات بھی نظر انداز کی گئی۔