تنہا پرندہ کہانی

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

مادھو ،سُکھ رام کا چھوٹا بھائی تھا ۔ابھی یہ دونوں بھائی کم سِن ہی تھے کہ ماں نے داغ مفارقت دے دیا تھا۔باپ نے دوسری شادی نہیں کی تھی ۔یہ سوچتے ہوئے کہ اگر یہ معصوم بچّے سوتیلی ماں کے پلّے پڑیں گے تو نہ جانے کتنا تڑپائے گی ۔سُکھ رام اور مادھو رام کی ماں کے مرنے کے پورے چالیس سال بعد اُن کا ادھیڑ عمر باپ بھی جوان بیوی کے غم میں اس دُنیا سے کوچ کرگیا۔مادھو اُس وقت صرف چھ سال کا تھااور سکھ رام اتنا بڑا ہوگیا تھا کہ اُس کی پڑھائی کی عمر نکل چکی تھی ۔بڑا بھائی ہونے کے ناطے سکھ رام نے اپنے چھوٹے بھائی مادھو کو اسکول میں داخل کروایا اور خود محنت مزدوری کرکے اُس کی اور اپنی ضروریات زندگی پوری کرتا رہا ۔سکھ رام کو وہ سب کچھ خود ہی کرنا پڑا جو ماں باپ نے ان دونوں بھائیوں کے لئے کرنا تھا۔وہ خود تو میلا موٹا پہنتا لیکن اپنے بھائی کو اچھے اچھے کپڑے پہناتا ۔اُس کے اسکول کی وردی دھوتا ،کھانا پکاتا ،اُس کے لئے کتابوں اور فیس وغیرہ کا بندوبست کرتا ۔والدین کی کچھ زمین جائیداد تو تھی لیکن پھر بھی اسے سنبھالنے والے ہونے چاہئیں تھے۔سکھ رام اکیلا کتنا کچھ کرسکتا تھا۔بڑی مشکل اور پریشانیوں کے بعد اُس نے مادھو رام کو مروٹھی کے مقامی اسکول میں دسویں جماعت تک پڑھایا،پھر کافی دوڑ دھوپ اور اثر ورسوخ استعمال کرنے کے بعد اُسے محکمہ آب پاشی میں بطور چوکیدار بھرتی کروایا ۔مادھورام کو اب بارہ سوروپے ماہانہ تنخواہ ملنے لگی اور اُس نے تنخواہ بینک میں جمع کروانی شروع کردی ۔دھیرے دھیرے وہ سکھ رام سے دُور دُور رہنے لگا۔سکھ رام نے سوچا مادھو مجھ سے کم عمر اور کم فہم ہے ۔میں اُس کا بڑا بھائی ہوں ۔یہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہے ۔میںنے آج تک اس کا ہر طرح سے خیال رکھا ہے ۔اسے یتیمی کااحساس نہیں ہونے دیا ہے ۔اگر میں نے ہر تکلیف ،ہر دُکھ محض مادھو کو آرام پہنچانے کے لئے جھیلا ہے تو یہ میرا فرض تھا۔اب اگر مادھو میں کچھ مستانہ پن پیدا ہوتا جارہا ہے تو یہ اُس کی ناسمجھی ہے ،کیوں نہ میں پہلے اسی کی شادی کرادوں ۔ہوسکتا ہے شادی کے بعد یہ میرے گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹانے لگے ۔اسی خیال کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر سکھ رام نے اپنی ہی برادری کی ایک لڑکی’ سمرتا‘سے مادھو کی شادی کروادی۔
سمرتا یوں تو چھوٹے قد کی ہنس مکھ اور تیکھے نین نقش والی لڑکی تھی لیکن زبان دراز تھی۔شادی کے کچھ ہی دن بعد اُس نے ہمارا تمھارا کہنا شروع کردیا ۔سکھ رام نے بڑے سہانے خواب دیکھے تھے کہ جب مادھو کی دلہن گھر آئے گی تو خوشیوں کی بہار لے کر آئے گی۔گھر میں ہر چیز سلیقے سے سجی سنوری رہا کرے گی ۔کھانا پکا پکایا ملے گا ۔برتن ،بسترے صاف ستھرے اور دُھلے ہوئے ملا کریں گے لیکن ایک مہینے کے اندر ہی سمرتا نے نے مادھو کو کچھ ایسی پٹی پڑھائی کہ اُسے اپنے بڑے بھائی سکھ رام سے بدظن کردیا اور وہ سمرتا کو لے کر کُدھ چلا گیا کیونکہ مادھورام کی ڈیوٹی اور سمرتا کا میکہ کدھ ہی میں تھا۔اس لئے اُس نے وہیں کرائے پر مکان لے کر رہنا شروع کردیا ۔سکھ رام اُس دن کافی رویا جس دن مادھو اور سمرتا سکھ رام سے الگ ہوئے ۔اُس نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ جس مادھو کے لئے اُس نے سب کچھ کیا وہ شادی کے فوراً بعد اپنے بڑے بھائی کو یوں اکیلا چھوڑ کر بیوی کے بہکاوے میں سکھ رام سے کنارہ کشی اختیار کر لے گا ۔اُسے قطعی امید نہ تھی کہ مادھو رام آنے والے وقت میں اتنا کٹھور نکلے گا۔سکھ رام نے مادھو کی ہر خواہش پوری کرنے کے لئے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی تھی لیکن آج مادھو ،سکھ رام کی نظر میں ایک خود غرض اور احسان فراموش بھائی تھا۔
مادھو اور سمرتا کے چلے جانے کے بعد سکھ رام کافی پریشان اور اُداس رہنے لگا ۔گھر کی ویرانیاں اُسے دن رات ڈسنے لگیں ،اُسے اپنی تنہائی کا شدید احساس ہونے لگا۔اُس کی جوانی کی عمر آہستہ آہستہ ڈھل رہی تھی ۔اُسے ایک ایسی شریک حیات کی ضرورت تھی جو اُس کے ہر سکھ دُکھ کو سمجھتی اور اُس کی مونس وغم خوار بن کررہتی۔آخر اُس نے گاؤں کے نمبردار سے اپنی شادی کی بات چھیڑی تو نمبر دار نے سکھ رام کی ساری بپتا سُن کر اُسے تسلّی دیتے ہوئے کہا
’’فکر نہ کروبھگوان سب اچھا کرے گا۔میں کل ہی لالہ مہادیو کے گھر جاکر اُن سے تمہارے لئے لڑکی کا رشتہ مانگتاہوں اور تم بھی میرے ساتھ ہی چلو گے ۔ہاں ذرا بن ٹھن کے آنا اور اپنی جنم پتری بھی لیتے آنا‘‘
’’ٹھیک ہے وشال بھائی ،میں کل سویرے ہی آپ کے گھر آجاؤں گا،پھر ساتھ ساتھ چلیں گے‘‘
سکھ رام دوسرے دن گرم پانی سے نہایا ،نئے کپڑے پہنے ،بالوں میں تیل لگا کر انھیں سنوارا اورجب آئینے میں اپنی سیاہ جِلد چہرہ دیکھا تو کچھ مایوس سا ہوگیا،پھر وہ نمبردار کے گھر کی طرف چل پڑا ۔نمبردار صاحب پہلے ہی سے تیار بیٹھے تھے ۔دونوں لالہ مہادیو کے گھر کی طرف چل پڑے ۔راستے میں نمبردار نے سکھ رام کو بہت سی باتیں سمجھائیں ۔جب وہ وہاں پہنچے تو لالہ مہادیو کے علاوہ باقی سب افراد گھر کے اندر چلے گئے ۔نمبردار نے لالہ مہادیو سے سکھ رام کے رشتے کی بات چھیڑی تو انھوں نے فوراً اپنی پندرہ سالہ بیٹی ’گئوراں‘کی جنم پتری منگوائی اور سکھ رام کی جنم پتری سے ملائی ۔دونوں کے گرہ پوری طرح مل گئے ۔لالہ مہادیو کے دل میں خوشی کی ایک لہر رقص کرگئی لیکن جونہی انھوں نے سکھ رام کے سیاہ چہرے پر نظر کی تو اُن پر مایوسی طاری ہوگئی ۔انہیں اپنی پیاری اور چاند سی بیٹی گئوراں کا خیال آیا کہ اس کالے کلوٹے لڑکے کو دیکھ کر گئوراں پتا نہیں کیا کہے گی …پھر بھی انہوں نے نمبردار سے اقرار کرلیا کہ میں نے اپنی پُتری کا رشتہ سکھ رام سے پکّا کرلیا۔
گئوراں کو جب اپنے جیون ساتھی کے بارے میں پتا چلا تو وہ اس بات پہ کافی روئی کہ سکھ رام جیسا کالا بھجنگ اُس کا جیون ساتھی بنے گا۔وہ گورے رنگ کی انتہائی حسین اور شرمیلی لڑکی تھی ۔یوں بھی سکھ رام اور گئوراں کی عمر میں بیس برس کا فرق تھا ۔گئوراں صرف پندرہ سال کی تھی جب کہ سکھ رام کی عمر پینتیس سال تھی ،لیکن اپنے پِتا کے سامنے گئوراں کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ اپنے رشتے کی ناپسندیدگی کا اظہار کرتی پھر بھی اپنی ماں سے گئوراں نے روتے روتے کہہ دیا
’’ماتا جی! کیا آپ کو اس کے علاوہ میرے لئے اور کوئی نہیں ملا تھا؟‘‘
’’بیٹی یہ سب تمہارے پِتا کی مہربانی ہے۔ انھوں نے تمہارے لئے جو کیا سواچھا ہی کیا ہوگا۔بس اب تم اسی پہ راضی رہو ۔اگر تمہارے بھاگیہ میں یہی لکھا تھا تو وہ بھی کیا کرسکتے تھے‘‘
گئوراں روہانسی آواز میں بولی
’’لیکن ماتا جی ! میں نے بیاہ نہیں کرنا ‘‘
ان دونوں ماں ،بیٹی کی گفتگو لالہ مہادیو نے بھی سُن لی تو وہ اندر آکر اپنی بیٹی کو پیار سے سمجھانے لگے
’’پیاری بیٹی! تیرا بھاگیہ بہت اچھا ہے ۔سکھ رام بھلے ہی دیکھنے میں اچھا نہیں ہے لیکن وہ سیدھا سادہ اور شریف ہونے کے علاوہ ہماری ہی ذات برادری کا ہے۔اُس کے ماں باپ پرلوک سدھار گئے ہیں ۔اس لئے تمہیں سسُر ،ساس کے طعنے نہیں سننے پڑیں گے ۔زمین وغیرہ بھی اچھی خاصی ہے ۔تم ایسے گھر میں مہارانی بن کے رہو گی ۔چنتا کیوں کررہی ہو ؟‘‘
اُس روز دیر تک گئوراں سر نیوڑھائے بیٹھی آنسو بہاتی رہی اور باپ اُسے دلاسے دیتا رہا۔بالآخر ایک دن گئوراں نہ چاہتے ہوئے بھی سکھ رام کے ساتھ بیاہی گئی۔ڈیڑھ سال کے بعد اُن کے ہاں ایک بچّہ پیدا ہوا جس کا نام انھوں نے شام سُندر کھا ۔گئوراں کو جوخوشی بیٹے کی پیدائش پر ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی ،کیونکہ سکھ رام سے اُس کی شادی مجبوری کے طورپر ہوئی تھی ۔گئوراں تو ایک گائے کی مانند تھی جسے باپ نے باندھ کر سکھ رام کے حوالے کیا تھا۔وہ اپنی شادی سے ناخوش تھی اسے اپنی عمر اور پسند کا شریک حیات نہیں ملا تھا۔وہ اکثر اپنے والدین کو کوستی رہتی اور سکھ رام کو نفرت وحقارت کی نظروں سے گھورتی رہتی ۔سکھ رام تو یقینا بہت ہی شریف اور کم زبان تھا ۔وہ بیوی کی جلی کٹی باتیں سُن کر چپ سادھ لیتا لیکن گئوراں اُسے منہ پر سب کچھ کہہ دیتی ۔
شام سُند رجب چھ سال کا ہوگیا تو سُکھ رام نے اُسے اسکول میں داخل کرادیا ۔شام سندرکی ہر خواہش پر سکھ رام جان دینے کے لئے تیار رہتا ۔جب شام سندر نے بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا تو باپ نے اُس کی ملازمت کے لئے کوشش شروع کردی اور گھر کی بہت سی قیمتی چیزیں بیچ کر کافی روپیہ اکھٹا کرکے ایک شخص کے حوالے کیا ،پھر بڑی مشکل سے شام سندر کو ڈاک خانے میں ملازمت دلوادی۔
گئوراں کے مزاج میں کافی چڑچڑا پن پیدا ہوچکا تھا ۔اب سکھ رام اُس سے بہت مایوس رہتا تھا۔شام سندر کی ڈیوٹی بٹوت میں لگی لیکن ماں باپ کے درمیان آئے دن جھگڑوں کی وجہ سے وہ بہت کم گھر آتا تھا۔اُس نے کئی بار ماں کو سمجھایا بھی کہ لڑنا جھگڑنا نہیں چاہیے لیکن گئوراں اُس پر بھی برس پڑتی ۔ماں کا تلخ رویہّ دیکھ کر اُس کا دل گھر سے بیزاررہنے لگا ۔اس بے زاری کا نتیجہ بعد میں یہ نکلا کہ اُس نے بٹوت ہی میں ایک پڑھی لکھی لڑکی سے شادی کرلی۔
سکھ رام کی عمر اب پچپن برس سے تجاوز کرچکی تھی ۔چہرے پر جھریاں پڑگئی تھیں اور کمر جھک گئی تھی ۔اُس کی آنکھوں کی بینائی میں بھی کافی فرق آگیا تھا ۔سامنے کے دو دانت اپنے ہی گھر کے بیل نے ٹکر مار کر توڑ دیے تھے ۔چہرے کا رنگ تو اب کالے توّے کی مانند ہوگیا تھا۔سکھ رام کے برعکس گئوراں کی عمر اب پینتیس برس کی تھی ۔رنگ گورا ،جسم سڈول تھا۔اُس کے ناز وادا میں ابھی خاصی دلکشی موجود تھی ۔ادھر سکھ رام چند دنوں سے بیمار تھا ۔اُسے کھانسی اور زُکام نے گھیر رکھا تھا۔جسم میں پہلے ہی کمزوری آچکی تھی ۔وہ رات دن کھانستا رہتا ۔ایک روز بلغم اور تھوک کے چکتے کھاٹ کے اردگرد فرش پر پڑے ہوئے تھے ۔سویرے جب گئوراں کی نظر اُن بلغم اور تھوک کے چکتوں پر پڑی تو وہ ناک بھوں چڑھاکر کہنے لگی ۔
’’تم سے باہر نہیں تھوکا جاتا؟میں کوئی نوکرانی ہوں جو تمہاری یہ گندگی صاف کرتی رہوں۔اٹھو اور شام سندر کے پاس بٹوت چلے جاؤتاکہ وہ تمہیں وہاں کسی ڈاکٹر کو دکھادے۔مجھے تم جیسے گندے پتی کی ضرورت نہیں ہے‘‘
سکھ رام نے بیوی کی ڈانٹ پھٹکار سُنی اور کھاٹ پر خاموشی سے لیٹا رہا لیکن اس کی آنکھوں سے غم کا لاواپھوٹ پڑا۔آج اُس کی بیوی بھی اُسے اپنے ہی گھر سے دھکیل رہی تھی ۔وہ اندر سے بالکل ٹوٹ چکا تھا۔اُس نے آج تک بیوی کی زبان سے ایسی دل شکن اور نفرت آمیز باتیں نہیں سُنی تھیں ۔وہ بستر سے اُٹھا ،کپڑے پہنے اور چپکے سے سڑک پر چلا آیا۔سڑک پر گاڑیوں کی آمد ورفت جاری تھی ۔وہ آہستہ آہستہ سڑک پر چلا جارہا تھا کہ ایک نوجوان موٹر سائیکل پر سوار بڑی تیزی سے گزرا۔اگر وہ ذرا سی غفلت کرتا تو سکھ رام موٹر سائیکل کے نیچے آجاتا۔اُس نوجوان نے فوراً موٹر سائیکل کو بریک لگائی اور سخت لہجے میں کہنے لگا
’’اوبڈھے !گھر سے مرنے کا ارادہ کرکے نکلا ہے کیا ؟مرنا ہی ہے تو جاکہیں کھڈ میں گر …‘‘سکھ رام مایوسی کے عالم میں اُسے دیکھتا رہا۔اتنے میں بٹوت جانے والی بس اُس کے قریب آکے رُکی ۔وہ بس میں سوار ہوا اور کچھ ہی گھنٹے بعد اپنے بیٹے شام سُندر کے ڈیرے پر پہنچ گیا۔
شام سندر کی بیوی انجنانے جونہی اپنے سسر کو آتے دیکھا تو اُس نے گھونگھٹ کاڑھ لیاکہ کہیں سکھ رام کی کریہہ شکل کا عکس اُس پر نہ پڑے ۔اُس نے سسر کے چرن نہ چھوئے ۔اُس کے خیال میں سسر گھر نہیں آیا تھا بلکہ کوئی آفت آگئی تھی۔انجنا نے بیٹھک کا کمرہ کھولا اُس میں سکھ رام کو بٹھایا اور خود رسوئی میں کھانا تیار کرنے لگی۔رسوئی میں اُسے سسر کے کھانسنے کی آواز زہر لگ رہی تھی۔
شام کو جب شام سندر ڈیرے پر آیا تو اُسے باپ کو دیکھ کر کافی خوشی ہوئی لیکن سکھ رام کی خیریت دریافت کرنے پر اُسے کافی دُکھ ہوا۔ادھر انجنا سسر کی آمد پر اپنا چہرہ پُھلائے بیٹھی تھی۔وہ شام سندر کو ترچھی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔دوسرے دن شام سندر نے بیوی کے کہنے پر اپنے بوڑھے باپ کو بغیر ڈاکٹر کو دکھائے دوائی لے کردی اور اُسے واپس مروٹھی بھیج دیا ۔جب سکھ رام گھر کی طرف واپس چلا گیا تو انجنا مسکراتی ہوئی شام سندر سے ہنسی مذاق کرنے لگی ۔اُس کی خفگی سکھ رام کے جاتے ہی کافور ہوگئی تھی۔سکھ رام ایک طویل مدت کے بعد اپنے بیٹے اور بہو کے پاس آیا تھا تاکہ کچھ دن اُن کے پاس آرام سے رہ کر صحت یاب ہوسکے لیکن یہاں بہو اور بیٹے کی بے رُخی دیکھ کر وہ اپنے آپ کو بالکل بے سہارا محسوس کرنے لگا۔اُسے زبردستی واپس بھیجا گیا تھا۔بیوی سے مایوس ہونے کے بعد اب اُس کا آخری سہارا اُس کا بیٹا شام سندر تھا لیکن بیٹے نے بھی آج اُسے ایک بھاری بوجھ سمجھ کر اپنے سر سے اُتاردیا تھا کیونکہ شام سندر کے نزدیک اپنی بیوی انجنا کی بات اہم تھی ،باپ کا پیار ، اُسکا بڑھاپا اوربیماری نہیں ۔
سکھ رام اب بس میں سوار نہیں ہوا کیونکہ اُس کے نزدیک اب کسی چیز کا سہارا لینا بے کار تھا۔آج تمام سہارے اُسے ختم ہوتے نظر آرہے تھے ۔اب اس دُنیا میں اُس کا اپنا کوئی نہیں تھا،سب اجنبی اور بے گانے ہوگئے تھے ۔چلتے چلتے سُکھ رام گوری کنڈ کے مقام پر پہنچ گیا۔اُس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور پیدل سفر کی وجہ سے اُسے کافی پیاس لگی تھی ۔اُس نے خوب پانی پیا اور چنار کے درخت کے نیچے لیٹ گیا۔لیٹتے ہی اُس کے دل کی حرکت رک گئی ۔آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور جسم سکڑتا چلا گیا۔سکھ رام کو آج دائمی آرام مل گیا تھا۔اُس کی مردہ اور کھلی ہوئی آنکھیں آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دے رہی تھیں کہ دُنیا میں کوئی بھی اپنا نہیں ۔یہاں سبھی پرائے ہیں۔
دیکھتے ہی دیکھتے چڑیوں نے سکھ رام کے مردہ جسم پر پھدکنا شروع کردیا اور کوّے بھی چنار کی شاخوں پر شور مچارہے تھے۔ دراصل یہ بے زبان پرندے انسان کی خود غرضی اور بے مروتی پر ماتم کناں تھے!

���
سابق صدر شعبۂ اردو
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)
موبائل نمبر؛7889952532