تنظیم نو ایکٹ کے تحت جو کچھ ہورہا ہے وہ غیر آئینی ہے: پی اے جی ڈی

سری نگر//پیپلز الائنس فار گپکار الائنس (پی اے جی ڈی) نے حد بندی کمیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی اے جی ڈی کو اس کمیشن کا بینادی ڈھانچہ منظور نہیں ہے۔
 
پی اے جی ڈی کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی نے ہفتے کے روز الائنس کے سرپرست ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی گپکار میں واقع رہائش گاہ پر منعقدہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ یہ سب کچھ تنظیم نو ایکٹ کے تحت کیا جا رہا ہے جو بذات خود غیر قانونی ہے۔
 
ان کا کہنا تھا کہ حد بندی کی بنیاد مردم شماری اور آبادی ہوتی ہے لیکن یہاں اس کو نظر انداز کیا گیا۔
 
موصوف ترجمان نے کہا: ’تنظیم نو ایکٹ غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور ہم اس بات پر قائم و دائم ہیں کہ پانچ اگست 2019 کو جو فیصلے لئے گئے جن کے تحت دفعہ370 کو منسوخ کیا گیا اور ریاست کو دو حصوں میں منقسم کیا گیا وہ سب غیر آئینی اور غیر قانونی تھے۔‘
 
ان کا کہنا تھا کہ ایک تاریخی ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا جو میں سمجتا ہوں کہ یہاں کے لوگوں کے لئے شرمناک امر ہے۔
 
مسٹر تاریگامی نے کہا کہ دفعہ 370 کو جموں وکشمیر میں سخت لاک ڈاؤن اور انٹرنٹ سہولیات پر سخت پابندیوں کے بیچ منسوخ کیا گیا تھا۔
 
انہوں نے کہا کہ ہم حد بندی کشمین کے خلاف نہیں ہیں لیکن یہ عمل ملک میں سال 2026 میں انجام دیا جانے والا تھا۔
 
ان کا کہنا تھا: ’حد بندی عمل جموں و کشمیر یونین ٹریٹری میں ہو رہا ہے جبکہ لداخ یونین ٹریٹری میں سر نو حد بندی نہیں ہو رہی ہے اور سات نشستوں کو بڑھایا جا رہا ہے جو ہماری سمجھ سے باہر ہے‘۔
 
موصوف ترجمان نے کہا کہ حد بندی کی بنیاد مردم شماری اور آبادی پر ہوتی ہے لیکن یہاں ان بنیادوں کو نظر انداز کیا گیا۔
 
انہوں نے کہا کہ ہم ملک کے لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جموں کشمیر کے لوگوں سے لاتعلقی نہ کریں اور ان کے مشکلات پر خاموشی اختیار نہ کریں کیونکہ ایسا ملک کے لئے ٹھیک نہیں ہوگا۔
 
پی اے جی ڈی کے وائٹ پیپر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مسٹر تاریگامی نے کہا: ’ بی جے پی جب سے اقتدار میں آئی تب سے پرانے بھارت کے بجائے نیا بھارت بنانے کی بات کرتی ہے‘۔
 
انہوں نے کہا: ’بی جے پی جس نیا کشمیر کی بات کرتی ہے وہ فریب ہے۔ یہ وہ نیا کشمیر نہیں ہے جس کی بنیاد شیخ محمد عبداللہ نے رکھی تھی جس نے تاناشاہی حکومت کو ختم کیا تھا اور یہاں زمینداروں کو اپنے حقوق دئے تھے‘۔
 
ان کا کہنا تھا جموں وکشمیر پہلی ریاست تھی جہاں تعلیم کو یونیورسٹی سطح تک ]پہنچایا گیا تھا اور سب کو مفت تعلیم کا حق دیا گیا تھا۔
 
یوسف تاریگامی نے کہا کہ بی جے پی کے نیا کشمیر میں سیاسی ورکروں اور پریس پر قدغن ہے اور ان کی پالسیوں کے خلاف بات کرنے والوں کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔
 
انہوں نے کہا: ’ہم بی جے پی اور جموں کشمیر انتظامیہ کو چلینج کرتے ہیں کہ وہ ہمارے وائٹ پیپر کے مقابلے میں اپنا وائٹ پیپر پیش کریں‘۔
 
ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی حکومت دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد لوگوں کے ساتھ نوکریوں، تعمیر ترقی، سرمایہ کاری کے تمام وعدؤں کو پورا کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔
 
رئیل اسٹیٹ کے تحت سرمایہ کاری کرنے کے متعلق بات کرتے ہوئے موصوف ترجمان نے کہا: ’کس رئیل اسٹیٹ کی بات کرتے ہیں ہمیں بتائیں کہ دفعہ370 کی تنسیخ کے بعد جموں کے کس نوجوان کو نوکری دی گئی کشمیر کی بات چھوڑیں‘۔
 
انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کے اراکین کو ایک بحث و مباحثے میں شرکت کی دعوت دیں گے اور اس کی کاپیاں صدر جمہوریہ کی خدمت میں ارسال کریں گے۔
 
مسٹر تاریگامی نے کہا کہ دلی سے جموں و کشمیر تک حکومت جس ڈگر پر چل رہی ہے اس سے جموں و کشمیر خاص کر وادی کے لوگوں کا جینا حرام ہوگیا ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ یہاں مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے کارکن اور پریس زیر عتاب ہے۔