میرے سیاسی ناقدین کبھی مجھے غدار، کبھی ہندوستانی ایجنٹ، کبھی ڈرامے باز، اورکبھی پاکستانی جاسوس کہہ کر اپنی بھڑاس نکالتے ہیں لیکن میں اپنے لئے ضمیر کا وہ قیدی ہوں جس کی عزت نفس ،اسکے جنم لینے سے قبل ہی،چھینی گئی ہے۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ میں ،سرکاری نوکری چھوڑنے کے بعد، سیاست کے میدان ِکا رزار میں اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کے باوجود کوئی خاص تبدیلی نہ لا سکا ۔ وہ لوگ ،جو مجھے اپنا سیاسی حریف مانتے ہیں ،مجھے اپنی اور مائل کرنے میں ناکامی اس مقولہ پر ،کہ اگر آپ کسی کو اپنی بات کا قائل نہیں کر سکتے تو اس کے بارے میں خود بھی کنفیوژن کا شکار ہوجاؤ اور عام لوگوں کے دل و دماغ میں بھی اس کے بارے میں بدگمانی اور کنفیوژن پیدا کرو،عمل پیرا ہیں ۔
عجیب بات یہ ہے کہ 2008تک انتخابی سیاست میں براہ راست وابستگی تو دور کی بات، میںنے عسکری تحریک کے آغاز سے پہلے بھی ووٹ نہیں ڈالا تھا۔حالانکہ 1987کے انتخابات میں،میںووٹ دینے کا اہل ہو چکا تھا ۔ میں نے زندگی میں پہلا ووٹ ڈالا تو وہ میں نے کسی اور کو نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو ڈالا۔اسے میری خوش قسمتی سمجھئے یا پھربدقسمتی کہ میرا نہ کوئی خاندانی سیاست سے واسطہ ہے اور نہ ہی کسی بڑی سیاسی جماعت سے میری وابستگی تھی۔ میرا تعلق ان عام کشمیری نوجوانوں سے تھا جنہوں نے عسکریت کے نمودار ہونے کے بعد نہ صرف افسوسناک حد تک مار دھاڑ دیکھی بلکہ خود بھی ظلم و بربریت کا شکار ہوگئے ۔ میرا ماننا ہے کہ اگر میں کشمیر مسئلہ کے متعلق رائے شماری کی بات نہ بھی کرتا تو بھی اس سے زمینی صورتحال پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے کیونکہ کشمیر مسئلہ ہر گز کسی شخص ، جماعت یا اتحادکا پیدا کردہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ لوگ جو آج خود کو کشمیر مسئلہ کے حقیقی وارث ہونے کا تاثر دے رہے ہیں خود بھی جانتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر ان کے بھی جنم لینے سے پہلے پیدا ہوا ہے ۔ یہ بات ثابت ہو تی آرہی ہے کہ کشمیر مسئلہ پر اگر کسی نے اپنی دوکان چمکالی اور بعد میں اپنے نظریہ سے منحرف ہوا تو تاریخ نے اس کی معمولی لغزش کو بھی اپنے اوراق میں محفوظ کر لیا ۔
ایک ستم زدہ کشمیری کی حیثیت سے جب مجھے ہندوستان کی سب سے طاقتور کہلانے والی (جموں کشمیر) اسمبلی میں جانے کا موقع ملا تو نہ صرف تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے بلکہ خود 1990سے 2008تک تشدد کی آگ میں پلنے کی وجہ سے میرے دل نے مجھے اس ایوان میں وہ سب کچھ کرنے کیلئے مجبور کر دیا کہ جسے کچھ لوگ ڈرامہ تو کچھ فریب کاری اور مکاری کا نام دیکر میری عزت نفس کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔میرے بارے میں کوئی رائے رکھنا کسی کا بھی حق ہے لیکن ریاست کے ایک شہری کی حیثیت سے نہ صرف مجھے بھی اپنی بات رکھنے کا حق حاصل ہے بلکہ میں جس طرح سے چاہوں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی بات رکھنے کا مجاز ہوں ۔ تاہم بدنصیبی یہ ہے کہ کچھ طاقتوں کی طرفسے جان بوجھ ایک ایسا ماحول پیدا کیا گیاہے کہ جس میں سچی اور بے لوث بات کرنے والا ہر شخص نہ صرف مایوسی کے دلدل دھکیلا جاتا ہے بلکہ اس کی ایسی حالت کی جاتی ہے کہ ا سے خود بھی اپنی نیت پر شک ہونے لگتا ہے ۔
جس طرح کچھ حلقوں نے کشمیریوں کیلئے’’ ہندوستانی ہونے‘‘کیلئے الیکشن لڑنا یا ووٹ ڈالنا شرط بنایا ہوا ہے اسی طرح ایک اور طبقے کیلئے ہر وہ شخص مشکوک ہے کہ جوخلوص نیت سے کشمیراور کشمیریوں کی بات تو کرتا ہو مگر سرحد کے اُس پار واقفیت اور اثرورسوخ نہ رکھتا ہو۔سوال یہ نہیں ہے کہ کونسی سیاسی جماعت یا فرد جموں کشمیر میں اپنے پائوں جماکر ’’ اپنے اہداف‘‘ حاصل کر رہی ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ کشمیریوں کو کسی بھی طرح سے مایوسیوں کے دلدل سے باہر نکال کر اُن کی قربانیوں کاکچھ توصلہ دلانے،کہ جسے وہ اپنی جیت سے تعبیر کرسکیں،کی فکر کسے لاحق ہے اور اسکے لئے کوشش کوئی کوشش بھیکرتا ہے یا نہیں! ۔
پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر کچھ لوگ پہلے انتخابات لڑ تے رہنے کے بعد اب اس سے دور رہ کر اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں یا پھر کچھ لوگ عسکریت کو خیر باد کہہ کر گاندھی جی کے مشن پر چل کر آزادی حاصل کرنے کی امید لگا بیٹھے ہیں توپھر انجینئر رشید یا کوئی اور انتخابات لڑ کر اپنے اہداف کی تکمیل کا خواب کیوں نہیں دیکھ سکتاہے؟ یہ نا انصافی نہیں تواور کیاہے کہ اپنے لئے ہر رنگ بدلنے کے عمل کو حکمت عملی قرار دیکر نہ صرف اس کیلئے جواز پیدا کیا جاتا ہے بلکہ اسے وقت کی ضرورت قرار دیکر اہل کشمیر کو اسے من و عن قبول کرنے کو کہا جاتا ہے جبکہ اوروں کی حکمت عملی کو غداری ، نامرادی اور شکست خوردگی کہہ کر ا سے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے ۔
جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے کہ ہمیں 2008سے اب تک اپنی سیاسی جد و جہد کے ثمر آور نہ ہونے کا بھر پور احساس بھی ہے اور اعتراف بھی لیکن ہمارا یہ ماننا ہے کہ ہمارے پاس اس راستے سے بہتر فی الحال کوئی اورراستہ دستیاب نہیں ہے۔ اسمبلی کا ریکارڑ گواہ ہے کہ ہم نے وہاں وہی بات کی جو ہم نے ،نہ صرف لنگیٹ یا کشمیر کے کسی دوسرے حصے میں، این آئی کے ہیڈ کوارٹر سے لیکر نئی دلی کے بہرے حکمرانوں اور پالیسی سازو ں کے منہ پربھی انتہائی سنجیدگی کے ساتھ کہی ہے ۔ہمیں اسمبلی میں کچھ بدل نہ پانے کا جہاں اعتراف ہے تاہم وہاں ہم یہ کہنے کی پوزیشن میں ہیں کہ ہم نے کم ازکم ہندوستان کے ان دعوئوں کی، کہ جموں کشمیر کی اسمبلی ملک کی سب سے طاقتور اسمبلی ہے ، پول کھول دی۔اتنا ہی نہیں بلکہ ہم نے یاستی اسمبلی میں این سی اور پی ڈی پی کے دوغلے پن کوبھی کامیابی کے ساتھ بے نقاب کیا ہے۔ ساتھ ہی ہم جمہوریت کی دیوی کا اصل روپ بھی اس حد تک عوام کے سامنے لانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ اس کی برہنہ تصویر اور بکھرے ہوئے بال دیکھ کر ہر باضمیر شخص ’’کچھ نہ کچھ‘‘ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے ۔
اقتدار کا شوق ہوتا تو این سی اور پی ڈی پی میں شمولیت اختیار کر کے کم ازکم روز اسمبلی کے اندر اور باہر مار کھانے سے راحت ملتی ، ہم نے ایسا کرنے کی بجائے این سی اور پی ڈی پی کو کشمیریوں کے وسیع تر مفاد کی خاطر ایک دوسرے کے قریب لانے کی بھر پور کوشش کی تاہم ہماری معمولی اوقات کو معمولی سمجھ کر نہ ہی محبوبہ مفتی اور نہ ہی عمر عبداللہ نے کبھی ہماری تجاویز کو قابل غور سمجھا ۔
متحدہ مزاحمتی قیادت کی حریت میں شامل ہونے کی ہدایت کا ہم نے خلوص سے جواب تو دیا لیکن وہاں سے کسی نے نا کہنا بھی گوارا نہیں کیا۔ اسی طرح سیول سوسائٹی اور سماج کے دیگر طبقوں کے درمیان کشمیر مسئلہ کے حوالے سے اتفاق رائے قائم کرنے کی ہماری جی توڑ کوششوں کو شائد ووٹ بنک سیاست سمجھ کر مسترد کر دیا گیا ۔ ہمارے وکلا ء صاحبان، جو روز رات دن کالا کوٹ اور کالی ٹائی پہن کر ہندوستانی آئین کے تحت مختلف قوانین کا سہارا لیکر اپنے اپنے مقدمات کی پیروی کرتے ہیں ،ہمارے ساتھ کبھی ہاتھ ملانا تو دور نظریں ملانا بھی تحریک دشمنی مانتے ہیں ۔ ایسے میں ہر کسی زندہ ضمیر کشمیری کی طرح ہمارے پاس بھی اس بات کے سوا کوئی چار ہ نہیں کہ اکیلے ہی ضمیر کی آوازپر لبیک کہہ کر حق بات کہنے کی کوشش کریں بھلے ہی لوگ جتنا چاہیں ان کوششوں کا مذاق بھی اڑائیں ۔
کشمیر کا مسئلہ کب اور کیسے حل ہوگاہے اس سوال کاجواب آج نہیں تو کل ریاستی عوام مختلف فریقین سے مانگ کر ہی رہیں گے لیکن ہماری قیادت کے دعویداروں سے مخصوص اور مودبانہ گذارش ہوگی کہ وہ تنگ نظری اور کسی کے تئیںنا پسندیدگی کو وسیع تر قومی مفاد میںیکطرف رکھ کر اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ جو کوئی بھی رواں مزاحمتی تحریک کی کسی بھی طرح سے آبیاری کرنے کی کوشش کرے اگر اس کی حوصلہ افزائی نہ کر سکیں…نہ کریں مگر اس حد تک مخالفت اور کردار کشی بھی نہ کریں کہ جس سے کشمیریوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیوں میں اضافہ ہو اور کشمیریوں کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط ہوں ۔