جیسے عام چناؤقریب ہوتا جا رہا ہے مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے پتّے کھولتی جارہی ہیں۔اس عمل کو اُن کی وفاداری سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک میں دو بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں:بی جے پی اور کانگریس۔ چھوٹی اور مقامی پارٹیاںان سے اپنی وابستگی اور وفاداری کا ثبوت وقتاً فوقتاً دیتی رہتی ہیں تاکہ ان کی اہمیت برقرار رہے اور قومی سیاسی منظر نامے پرکم از کم ان کا نقش قائم رہے۔بعض اوقات ان چھوٹی پارٹیوں کی اہمیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ دونوں قومی پارٹیوںکو مجبور و بے بس کر دیتی ہے۔پہلی بارواجپئی کی ۱۳؍دن والی حکومت اس لئے قائم نہیں رہ سکی تھی کیونکہ مقامی پارٹیوں نے ان کی مدد نہیں کی تھی۔اسی طرح ۱۹۹۹ء میں واجپئی جی کی حکومت ۱۳؍مہینوں میں ڈھیر ہوگئی کیونکہ آل انڈیاڈی ایم کے نے اپنی حمایت واپس لے لی تھی لیکن مزے کی بات یہ تھی کہ یہ حکومت نیشنل کانفرنس کے صرف ایک ووٹ سے گری تھی ۔حالانکہ اُس وقت بھی بی جے پی نے پوری کوشش کر لی تھی کہ حکومت بچا لی جائے لیکن یکے بعد دیگرے اس کے سارے حربے فیل ہو گئے تھے۔اس نے بی ایس پی کو تقریباً ہموار کر لیا تھا لیکن لوک سبھا میں بی ایس پی نے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا۔اسی طرح مہاراشٹر کے رائے گڑھ ضلع کی ایک مقامی پارٹی شیت کری کامگار پکش کے اکلوتے ایم پی رام شیٹھ ٹھاکور کو بھی بی جے پی کے سنکٹ موچک قرار دئیے جانے والے پرمود مہاجن نے اپنی حمایت کے لئے آمادہ کر کیا تھا لیکن عین وقت پر وہ بی جے پی کے خلاف چلے گئے اور واجپئی حکومت کیلئے یہ کاری ضرب بنا۔ اُس وقت بی جے پی کی اتحادی پارٹی نیشنل کانفرنس کے رُکن پارلیمان سیف الدین سوز کا ووٹ،جس نے بی جے پی کے پیروں تلے زمین کھسکا دی تھی،لوک سبھا میں نیشنل کانفرنس کے تین ووٹ تھے،۲؍ بی جے پی کے ساتھ گئے جب کہ سیف الدین سوز کا ووٹ بی جے پی کے خلاف گیا۔اس وقت سوز کے ساتھ ہی رام شیٹھ ٹھاکور بھی راتوں رات غیر بی جے پی والوں کیلئے ہیرو اور ملک کے سیکولر تانے بانے کو بچانے والے لیڈرقرار دئے گئے تھے اور ان کی خوب پذیرائی ہوئی تھی لیکن آج وہ بی جے پی میں ہیں اور ان کا بیٹا پرشانت ٹھاکور بی جے پی کا ایم ایل ہے جسے گزشتہ دنوں ایک سرکاری کارپوریشن’ ’سڈکو‘‘ کا چیئر مین بنا دیا گیا ہے۔دونوں باپ بیٹے ۲۰۱۴ء سے پہلے تک کانگریس میں تھے اور بیٹا ایم ایل اے بھی تھا۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایک ووٹ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ملی جلی سرکار یعنی کولیشن گورنمنٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔
اسی طرح واجپئی کی حکومت ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۴ء تک جو ۵؍برس کی مدت پوری کر سکی، وہ کم و بیش ۲۵؍مقامی پارٹیوں کی مدد ہی سے ممکن ہو سکا ۔ اس کے بعد منموہن سنگھ کی دونوں ٹرم یعنی ۲۰۰۴ ء سے ۲۰۰۹ء تک اور ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۴ء تک کی حکومت بھی چھوٹی اور مقامی پارٹیوں کی مدد ہی سے اپنی مدت کار پوری کر سکی۔یہ اور بات ہے کہ مودی حکومت بے خوف و خطر اپنی مدت پوری کرلے گی کیونکہ بی جے پی کو تنہا لوک سبھا میں اکثریت حاصل ہے لیکن ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات کے بعد بھی ایسا رہے،اس کی امید کم ہے۔ بی جے پی خود بھی یہ بات محسوس کرنے لگی ہے۔ اسے تو یہ ڈر بھی ستانے لگا ہے کہ جو اتحادی ابھی اس کے ساتھ ہیں ان کو ملا کر بھی یہ حکومت نہیں بنا سکتی ۔اس لئے اس نے نئے پینترے شروع کر دئیے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہے اور اسے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ وہ اتحادی کون ہیں ؟ان کی آئیڈیالوجی کیا ہے؟اگر اسے ضرورت پڑ گئی تو اسدالدین اویسی کی ایم آئی ایم سے بھی اتحاد کر سکتی ہے کیونکہ اسے صرف اور صرف اقتدار سے غرض ہے۔
تلنگانہ کے کے چندر شیکھر راؤ نے ۸؍ماہ قبل ہی اسمبلی تحلیل کر دی ہے تاکہ عام چناؤ سے پہلے صوبائی انتخابات کراسکیں اور مقبولیت کی جس بلندی پر آج وہ ہیں ،اس کا فائدہ اٹھاسکیں۔ایسا کہا جاتا ہے کہ تلنگانہ میں حکومت مخالف رجحان بالکل نہیں ہے۔اگرچہ کانگریس وہاں اپوزیشن میں ہے لیکن کانگریس کی وہ پوزیشن نہیں ہے کہ کے سی آر کی پارٹی’’ ٹی آر ایس‘‘‘ کو شکست دے سکے ۔ رہی بات بی جے پی کی تو بی جے پی کی وہاں کوئی حقیقت نہیں ہے۔اس لئے وہ کے سی آر کے اقدام سے اندر اندر ہی خوش ہے۔کچھ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ کے سی آر بی جے پی کے اسکرپٹ پر کام کر رہے ہیں کیونکہ ان کے بعض اقدامات اور بیانات اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
فیڈرل تھرڈ فرنٹ کا راگ پہلے پہل کے سی آر ہی نے الاپا تھا۔ اس فرنٹ کا مطلب اور مقصد یہ تھا کہ اس میں وہ پارٹیاں شامل ہوں جو غیر بی جے پی اور غیر کانگریسی ہوں۔وہ ممتا بنرجی کو اس کی قیادت سونپ رہے تھے کیونکہ وہ اپنے طور پر یہ سمجھتے تھے کہ ممتا ان کی ہاں میں ہاں ملائیں گی کیونکہ تلنگانہ جیسی صورتحال بنگال میں بھی ہے کہ وہاں بھی کانگریس اپوزیشن پارٹی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ممتا کو بھنک لگ گئی کہ ہو نہ ہو یہ بی جے پی ہی کی کوئی سازش ہو اور اس طرح تھرڈ فرنٹ بنوا کر وہ ووٹوں کی تقسیم چاہتی ہو۔بی جے پی کو جو اقتدار آج ملا ہے وہ ووٹوں کی تقسیم کی وجہ ہی سے ممکن ہو سکا ہے کیونکہ اسے گزشتہ عام انتخابات میں صرف۳۱؍ فیصدی ووٹ ہی ملے تھے اور جن ریاستوں میں اس کی حکومت قائم ہے وہاں بھی یہی عوامل کار فرما ہیں۔اسی لئے ممتا تھرڈ فرنٹ کے پھیرے میں نہیں آئیں ۔اگرچہ وہ بھی مقبولیت کی اسی بلندی پر ہیں جہاں کے سی آر ہیں بلکہ ممکن ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہوں لیکن کے سی آر اور ممتا میں ایک اہم بنیادی فرق یہ ہے کہ کے سی آر صرف اپنے اور اپنی پارٹی کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور کچھ حد تک اپنی ریاست کے بارے میں بھی لیکن ملک کے بارے میں تو وہ قطعی نہیں سوچ رہے ہیں کہ بی جے پی کی قیادت میں ملک کہاں جا رہا ہے اور خدانخواستہ مودی دوبارہ آگئے تو ملک کا حال کیا ہوگا؟
ممتا کو بھی اپنی پارٹی عزیز ہے لیکن ان کے سامنے ملک کی سلامتی اور بہبودی بھی مقدم ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی ریاست میں کانگریس مد مقابل رہتے ہوئے بھی اس کی مخالفت نہیں کرتیں اور نہ ہی کانگریس کے صدر یا کسی اور کو کچھ اول فول بکتی ہیں۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ان کے سامنے ملک ہے اور وہ ملک کو بچانا چاہتی ہیں جس کا اعادہ وہ کرتی رہتی ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کے سی آر بازی نہ ماریں لیکن اسمبلی کی جیت کے بعد ان کے تیور اور انداز الگ ہو جائیں گے۔انہوں نے یہ کہا ہے کہ ایم آئی ایم سے انہیں کوئی پر خاش نہیں ہے بلکہ وہ ایک دوست پارٹی ہے لیکن کانگریس دشمن نمبر ون ہے۔انہوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اسمبلی کانگریس کی وجہ ہی سے تحلیل کر رہا ہوں کہ آئے دن کی کھِٹ پِٹ سے نجات پا سکوں جو کانگریس نے برپا کر رکھا ہے۔اس سے دو ہاتھ آگے بڑھتے ہوئے انہوں نے کانگریسی صدر راہل گاندھی کو ’مسخرہ ‘ تک کہہ ڈالا۔اس پورے معاملے میں بی جے پی کے بارے میں ایک لفظ بھی انہوں نے نہیں کہا جس سے اندازہ کرنے میں یہ مشکل نہیں کہ لوک سبھا کے عام انتخابات سے قبل یا بعد وہ بی جے پی کی گود میں جا سکتے ہیں اور بی جے پی کو مدد بہم پہنچا سکتے ہیں۔۔۔اور بی جے پی کو چاہئے بھی کیا؟ اگر مسلمان براہِ راست ووٹ نہیں دیتے یا دینا چاہتے تو ان کے ووٹ بالراست تو مل ہی جائیں گے۔ہمیں ڈر ہے کہ کے سی آر کہیں نتیش کمارنہ ثابت ہوں اور ایسا ہو، اس سے پہلے مسلمانوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان کے ووٹ براہِ راست یا بالراست کہاں اور کس کو جا رہے ہیں؟کیا یہ دوراندیشی ان میں آسکتی ہے؟اِس ’بالراست‘ والے معاملے میں چندر بابو نائڈو بھی ہیں۔کل کو اسٹالن بھی ہو سکتے ہیںاور نوین پٹنائک بھی اور ممکن ہے کہ مایاوتی جی بھی!اور کیا شرد پوار کو اس فہرست سے نکالا جا سکتا ہے؟
اس لئے سیکولر سیکولر کرنے والوں سے خاصا ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور ان کے قول و فعل پر نظر رکھنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔پورے ملک میں لالو ہی ایک ایسا لیڈر ہے جو اس پر پورا اترتا ہے اور اسی کی سزا وہ کاٹ رہا ہے۔بیشتر تو موقع پرست ہی نظر آرہے ہیں۔اب مسلمان ہر جگہ لالو جیسا لیڈر کہاں سے لائیں گے،اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔۷۰؍برس بیت گئے ہیں اور مسلمانوں کی قیادت میں ایک طرح سے خلا ہے۔اس کو پُر کرنے کی ضرورت ہے ورنہ یہ خلا دوسرے پُر کرتے رہیں گے اور ہم استعمال ہوتے رہیں گے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883