خواجہ یوسف جمیل، پونچھ
شعبہ تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے مرکزی حکومت گزشتہ کئی سال سے کوشاں ہے اور اس کوشش کو بحال رکھنے کے لئے مرکزی سرکار کی جانب سے مالی سال 2022 کے لئے 11,832.77 کروڑ روپے کا بل منظور کیا گیا تاکہ تعلیمی میدان میں بہتری لائی جاسکے۔ اس بات میں کوئی بھی دورائے نہیں ہے کہ مرکز کی جانب سے تعلیمی میدان کو مضبوط بنانے کی خاطر بہتر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں تا کہ ملک کے نوجوان ترقی کی جانب گامزن ہوسکیں۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس دور میں بھی کسی قوم پر ظلمتوں کی گھٹا چھائیں اور لوگ پسماندگی کا شکار ہوئے اس دور میں تعلیم کا فقدان رہا ہے۔ کسی بھی قوم کی سربلندی و کامیابی اس سے تعلیم یافتہ نوجوانوں پر محیط ہوتی ہے۔ اگر نوجوان نسل تعلم کی روشنی سے دور ہوجائے تو قوموں پر زوال یقینی ہوجاتا ہے۔
گزشتہ تیں سال سے کویڈ۔19 جیسی مہلک و بائی بیماری نے جہاں لاشوں کے انبار لگا دئے، وہیں دوسری جانب اس وبائی بیماری نے شعبہ تعلیم کو بھی سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔حالانکہ حالات قابو میں آنے کے بعد سے تمام احتیاطی اقدامات کے ساتھ دوبارہ اسکولوں کو کھول دیا گیا ہے تاکہ بچے دوبارہ اس تعلیمی پٹڑی پر اپنا سفر شروع کرسکیں۔ملک کے دیگر حصوں کی طرح جموں کشمیر کے ضلع پونچھ میں بھی یکم مارچ سے تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ضلع بھر کے کئی ایسے علاقاجات ہیں جہاں کی عوام آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی بنیادی سہولیات کی تلاش میں ہمہ تن سرگرداںرہتی ہے۔ ضلع پونچھ کے دور دراز علاقہ چھکڑی بن جو تحصیل منڈی ہیڈکوارٹر سے تقریباََ 8کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، یہ علاقہ آج بھی تقریباً تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ نہ تو یہاں بہتر اسکول ہے، نہ سڑک، نہ بجلی اور نہ ہی یہاں کے مقامی لوگوں کوبہتر طبی سہولیات میسر ہیں۔ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے علاقہ پوری طرح سے کٹا ہوا ہے۔ موبائیل فون جو ہر فرد کی ضرورت بن چکا ہے لیکن ابھی تک یہاں کی عوام موبائل فون کی سہولیات سے محروم ہے۔الغرض اس علاقہ کو یہاں کی عوام کے مطابق کلی طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ اس گاؤں سے ابھی تک اعلی تعلیم تک کوئی بھی طالب علم نہ پہنچ سکاہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ علاقے میں اعلی تعلیمی ادارے ہی موجود نہیں ہیں۔اس حوالے سے ایک مقامی مولانا محمد سخی اس گاؤں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آزادی حاصل کئے ہوئے 74ہوگئے لیکن آج بھی ہم غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہمیں آئین ہند جن بنیادی سہولیات کو حاصل کرنے کا حق دیتا ہے ہم آج بھی اس سے محروم ہیں۔ ہمارے بچوں کا مستقبل تاریک ہوچکا ہے۔ علاقے میں سڑک نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ وقت پر اسکول تک نہیں پہنچ پاتے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے بچے تعلیم کی عظیم نعمت سے کوسوں دور ہیں۔ اس گاؤں کو دو بڑے حصوں چکھڑؔی اور بنؔ میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔’’بن‘‘کے بھی تین حصے ہیں۔ چکھڑؔی اور بنؔ کے درمیان تقریباََ 5 کلومیٹر کی مسافت ہے جو یہاں کےعوام کو پیدل طے کرنا پڑتی ہے۔بن کا علاقہ ’’چھکڑی‘‘ کے مقابلے میں زیادہ پسماندگی کا شکار ہے، جو سڑک سے تقریباََ 5 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ علاقہ میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسکول نہیں ہے۔ آٹھویں جماعت تک یہاں کے بچے بمشکل پہنچ پاتے ہیں۔ جس کے بعدان کا تعلیمی سفر ختم ہوجاتا ہے کیونکہ اس گاؤں میں کوئی بھی ہائی اسکول ابھی تک تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب تک اس گاؤں کے بیشتر بچے آٹھویں جماعت کے بعد اپنی تعلیم کو چھوڑ چکے ہیں۔ اس گاؤں میں دو مڈل اوردوپرائمری اسکول ہیں، جہاں بچے حصول تعلیم کے لئے جاتے ہیں،اس دوران بچوں کو درپیش آنے والے مسائل کو بیان کرتے ہوئے مڈل اسکول لور بنؔ کے استاد غلام حسین کہتے ہیں ’’یہ گاؤں مین روڈسے پانچ کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، جس سے یہاں باہر سے آنے والے اساتذہ کا وقت پر پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔وہیں اسکول آٹھویں جماعت تک تو ہے لیکن اس کی عمارت صرف دو کمروں پر مشتمل ہے، جس میں سے ایک کمرے میں اسکول کا دفتر رکھا گیا ہے اور دوسرے کمرے میں اسکول کے دیگر سامان رکھے ہوئے ہیں۔ایسے میں مجبوراًاسکول کے صحن میں بچوں کو تعلیم دینی پڑتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب بارش کا موسم ہوتا ہے تو چھوٹی جماعت کے طلباء کو ہمیں چھٹی کرنی پڑتی ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے تعلیمی اعتبار سے کمزور ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے دوران بچوں کی تعلیم پر کافی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اب ہماری کوشش ہے کہ انہیں اس کہرام سے نکالا جائے۔جب تک اس علاقے میں سڑک تعمیر نہیں کی جاتی ہے تب تک یہاں ترقی نہیں ہوسکتی ہے۔
اسی گاؤں کے ایک طالب علم محمد شکیل کہتے ہیں کہ ’’میں نے آ ٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے اور میں مزید پڑھنا چاہتا تھا لیکن اسکول نہ ہونے کی وجہ سے میں اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔میرے پا س اتنے اخراجات نہیں تھے کہ میں روزانہ آٹھ کلومیٹر کا سفر طے کرکے منڈی اسکول میں اپنی تعلیم حاصل کرتا۔ایک اور استاد محمد شبیر کہتے ہیں کہ شہر کے مقابلے میں یہاں کے بچوں کے پاس وسائل نہیں ہیں کیوں کہ ان کے والدین ناخواندہ ہیں اور اپنے بچوں کو اسکول کے علاوہ دیگر اوقات میں بہتر تعلیم فراہم نہیں کرسکتے۔ ہمیں بھی گھنٹوں کا سفر طے کرکے اسکول تک پہنچنا پڑتا ہے۔‘‘ علاقے کے سابقہ چئیرمین عبدالشکور کا کہنا ہے کہ ‘‘سال 1960 میں لور ’بن‘ میں پرائمری اسکول تعمیر کیا گیا تھا جس کے بعد سال 2015 میں یہ اسکول اَپگریڈ کیا گیا۔اسکے بعد یہاں کی عوام اس انتظار میںہیں کہ کب یہاں کے بچوں کے لئے ہائی اسکول کی سہولت فراہم کی جائے گی اور یہاں کی بچے اعلی تعلیم سے آراستہ ہوسکیں گے؟اس علاقے کی دس سے زائد بچیاں ایسی ہیں جو تعلیم کو محض اسی وجہ سے ترک کرچکی ہیں کیوںکہ اس علاقے میں ہائی اسکول نہیں ہے۔‘‘
بہرحال اس علاقے کی عوام کو مرکزی حکومت و ضلع انتظامیہ سے اُمید ہے کہ ایک دن وہ یہاں کی عوام کی طرف بھی خصوصی توجہ دے گی اور اس علاقے میں بھی ایک ہائی اسکول کی تعمیر ہوگی تاکہ یہاں کے بچے بھی ملک کے دیگر بچوں کی طرح اعلی تعلیم حاصل کرسکیں گے۔کبھی تو وہ دن آئے گا،جب اُمید کی کرن چمکے گی،کیونکہ تعلیم ہی اس دور میں امراض ملت کی واحد دوا ہے۔
[email protected]