ملک کے دیگر ضلعوں کے اسکول و کالجز میں مسلم لڑکیوں کی حجاب پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور یہ حکم نافذ کیا گیا ہے کہ اگر اسکول میں پڑھائی کرنی ہے تو حجاب گھر چھوڑ کر آؤ، اس طرح حجاب پہنا کر ہم تعلیم نہیں دے سکتے، اسکول و کالجز کا کہنا ہے کہ طالبات نے اسکول کے ڈریس کوڈ کو توڑا ہے۔ طالبات کا یہ کہنا ہے کہ ہم آج بھی وہی حجاب پہن کر آئے ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے پہن کر آ رہے ہیں، یہ وہی حجاب ہیں جنہیں اسکول نے خود فراہم کیا ہے، آج اچانک سے اس طرح پابندی عائد کرنا کہیں سے بھی درست نہیں ہے۔ طالبات کئی دنوں سے اسکول کے باہر دھرنے پر بیٹھی ہیں اور تعلیم کے لیے لڑ رہی ہیں لیکن حکومت ہند بہری بنے کھڑی تماشا دیکھ رہی ہے، قانونی اداروں نےچپی سادھی ہوئی ہے اور مسلم لیڈران غفلت میں مست ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھلا اچانک اس طرح کی پابندی کیوں؟ کیا ملک کا قانون حجاب پہننے کی اجازت نہیں دیتا؟ یا یہ سب سیاسی چال بازیاں ہیں؟ ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 14 قانون کے سامنے برابری یا ہندوستان کی سرزمین کے اندر قوانین کا مساوی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے: ''ریاست کسی بھی شخص کو قانون کے سامنے مساوات یا ہندوستان کی سرزمین کے اندر قوانین کے مساوی تحفظ سے انکار نہیں کرے گیــ'' ۔وہیں آئین کا آرٹیکل 25 ہندوستان میں تمام افراد کو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ یہ فراہم کرتا ہے کہ ہندوستان میں تمام افراد، امن عامہ، اخلاقیات، صحت اور دیگر دفعات کے تابع: ضمیر کی آزادی کے مساوی حقدار ہیں، اور آزادی سے مذہب کا دعویٰ کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کا حق رکھتے ہیں۔ جب ہندوستان کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کوئی بھی فرد اپنے مذہب کی تابعداری کھلےعام کر سکتا ہے تو پھر ذرا سوچیے کہ لڑکیوں کا حجاب پہننا کس طرح سے غلط ہو سکتا ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ لڑکیوں کا حجاب پہننا غلط ہے تو پھر جو خواتین اسکول میں منگلسوتر اور سندور لگا کر آتی ہیں، اس پر بھی پابندی عائد کی جانی چاہیے، اسی طرح سکھ حضرات کے پگڑی پہننے اور ہندؤں کے زعفرانی لباس پر بھی پابندی عائد ہونی چاہیے۔ مسند پر بیٹھے حکمران قوانین ہند کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور عوام خاموش بیٹھی ہے۔ یکساں قانون لباس اگر نافذ کرنا چاہتے ہیں تو کیجیے لیکن اس کا فیصلہ کرنے والے یہ عام غنڈے کون ہوتے ہیں، کیا ملک میں قانون کی پاسداری کروانے والے ادارے موجودنہیں ہیں؟اگر ہیں تو کہاں ہیںوہ جنہوں نے آئین ہند کی تحفظ کی قسم کھائی ہے ۔اگر ایسا ہی چلتا رہا تو یقین جانیں کہ وہ دن دور نہیں جب مسلمانوں کی مساجد پر تالے چڑھانے کو بھی لازم ٹھہرا دیا جائے گا۔ پھر اس وقت یہ ہرگز مت کہنا کہ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے۔کیا کسی بھی ایک معاملے میں قانونی طور پر فیصلہ کیا جاتا ہے؟ موجودہ دور کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، چاہے معاملہ CAA کا رہا ہو یا کسان بل کا، ہر بار قوانین کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اور اندھ بھگتوں نے آنکھ بند کر کے حکومت کی تائید کی ہے۔ آزادی کو 75 سال ہوگئے اور آج بھی ہم مذہب کو لیکر جھگڑا کر رہے ہیں، اگر اسی کو آزادی کہتے ہیں تو پھر مبارک ہو تمہیں تمہاری آزادی۔۔۔!
رابطہ:7070522261