! تعلیم سےانسانی ذہن بیدار ہوجاتا ہے

بے شک تعلیم انسان کی روح کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہے جو سنگ مرمر کے ٹکڑے کے لئے فنِ سنگ تراشی کی ہے۔اسی لئے دنیا میں جتنے قسم کے حصول ہیں ،تعلیم ان میں سب سے بڑھ کر ہے،کیونکہ تعلیم دماغ کو توروشن کرتی ہی ہے،البتہ تعلیم کا مقصد انسانی علم میں اضافہ کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد انسانی ذہن کی تشکیل ہے۔گویاتعلیم ایک ایسا چراغ ہے جو انسان کو اندھیروں سے نکال کر روشن دنیا کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ ذہن کی غذا ہے جو انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ تعلیم کے ذریعے انسان اپنے اندر کی صلاحیتوں کو نکال سکتے ہیں اور اپنی زندگی کو ایک معنی خیز شکل دے سکتے ہیں۔ظاہر ہے کہ تعلیم کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ والدین بچوں کو ابتدائی تعلیم دیتے ہیں اور ان کی شخصیت کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اسکول میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انسان اپنے آپ کو ایک بہتر فرد کے طور پر تیار کرتا ہے،اور تعلیم کے ذریعے اپنے معاشرے و ملک کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک تعلیم یافتہ قوم ہی ملک و معاشرے کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہے۔خصوصاًآج کے دور میں تعلیم کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں تیزی سے ہو رہی ترقی کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی بدلتی جا رہی ہے۔ اب صرف کتابوں کی پڑھائی ہی نہیں بلکہ عملی زندگی کے لیے بھی تیار ہونا ضروری ہے۔جس کے لئےٹیکنیکل تعلیم جسے ووکیشنل تعلیم بھی کہا جاتا ہے، کے حصول کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اس لیے تعلیم کا نظام ایسا ہونا چاہیے جو طلباء کو عملی زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار کر سکے۔تعلیم کے میدان میں کامیابی کے لیے ذہانت کے ساتھ محنت اور منصوبہ بندی بھی ضروری ہوتی ہے، اگر کسی میں ذہانت کی کمی ہے تو وہ واضح و متوازن منصوبہ کے تحت اپنی لگن و محنت سے اس کمی کو پورا کرسکتا ہے اور جب کسی کی ذہانت و محنت اور ہُنر اکٹھے ہوجائیں تو پھر تو کامیابی اُسکا مقدر بن جاتی ہے ۔ جس کے لئے لازماً اُسے کوروزانہ، مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی پڑھائی پر جاری رکھنی ہوتی ہے۔کیونکہ تعلیم کے پورے عرصے کے دوران روزانہ محدود وقت کے لیے مستقل مزاجی کے ساتھ پڑھنے سے اُس کونصاب کو سمجھنے اور یاد کرنے میں آسانی رہتی ہے اور کوئز یا ٹیسٹ یا امتحان میں کسی قسم کی ذہنی کوفت نہیں اٹھانا پڑتی ہے۔زیر تعلیم طلبا ء و طالبات کو اس بات کا واضح علم ہونا چاہیے کہ ہر اِسٹڈی سیشن سے وہ ایساکیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو اُن کے مجموعی تعلیمی اہداف کے حصول میں اہم ثابت ہوسکے۔اُنہیںکسی بھی کلاس میں شرکت سے پہلے کلاس مٹیریل کوبغور پڑھ لینا چاہئے، اسی طرح پڑھائی کرنے سے پہلے رِیویو نوٹس پڑھنے کی عادت ڈالنے کی ضرورت ہے۔کامیاب طلباء، کلا س میں جو سیکھ کر آتے ہیں، گھر پر یا کلاس کے بعد اسے دوبارہ اچھی طرح پڑھنے اور سمجھنے سے کبھی نہیں کتراتے ہیںاور اپنی محنت اور ذہانت سے نئے تصورات کے ساتھ اگلی کلاس کے لیے خود کو تیار کر لیتے ہیںاور ضرورت پڑنے پراپنے اساتذہ کے ساتھ اسکول ،کالج کے دفتر میںیا باہر گفت و شنید کرکے اُن کی رائے اور مدد حاصل کرکے ناقابلِ شکست بن جاتے ہیں۔یاد رہے کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی تعلیم بھی بہت ضروری ہے۔ ایک تعلیم یافتہ انسان کو صرف علم ہی نہیں بلکہ اچھے اخلاق بھی سیکھنے چاہئیں۔ اس طرح وہ ایک ایسا معاشرہ بنا سکتے ہیں جہاں امن اور بھائی چارہ کا راج ہو۔ہمارے معاشرے کے زیر تعلیم بچوں اور بچیوں کو یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے محنت اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کرنی ہوتی ہے۔واقعی تعلیم وہ سرمایہ ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ یہ انسان کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے، انسان کو علم، مہارت اور اخلاقیات سکھاتی ہے اور اس کے ذریعے انسان نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے بلکہ ملک و معاشرے کی ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی کہ ہم ہر حالت میںتعلیم کو اپنی زندگی کا اہم حصہ بنائیں ،خوب محنت کریں،جس کے لئے صحت مند رہنا لازمی ہے۔اس لئے پڑھائی کے ساتھ ساتھ اچھی نیند ،اچھی غذا اور ہلکی پھلکی جسمانی ورزش بھی ضروری ہے۔انہی اوصاف سے ہم اپنے معاشرےکو روشن مستقبل کی طرف لے جا سکتے ہیں۔