کشمیر میں اس وقت دفعہ 35اے کیخلاف عدالت عظمی ٰ میں دائر کی گئی عرضیاں فرد فرد کے ہوش و حواس پر چھائی ہوئی ہیں۔ 6اگست کے بعد اب 27اگست امید و بیم کا مرکز ہے ۔ریاست کی انفرادیت اور شناخت پر اس قانونی یلغار نے کئی مفروضے چکنا چور کردئیے اور کئی پوشیدہ حقائق سے نقاب الٹ کر رکھ دی ۔نئی دہلی سے کشمیر تک یہ ہوا کھڑا کیا گیا تھا کہ ریاست کی سوچ صوبوں ، نسلوں، لسانی اکائیوں اورمذہبی گرہوں میں بٹی ہوئی ہے ۔لیکن 5 اور 6اگست کی ہڑتال نے ثابت کیا کہ ہزار اختلافات کے باوجود ریاست کے عوام اپنے تشخص اور اپنی انفرادیت کیلئے یکساں طور پر حساس ہیں اور فرقہ پرستی و نسل پرستی کے لبادے پھاڑ کر یہ جذبہ اس وقت پوری آب و تاب سے نمایاں ہوہی گیا جب امتحان کی کی گھڑی آپہنچی ۔ہڑتال کھنہ بل سے کھادن یار تک محدود نہیں تھی بلکہ جموں کا بیشتر حصہ اور لداخ کا کرگل ضلع بھی اس کی لپیٹ میں تھا ۔جب جموںبار ایسوسی ایشن کے تین سو ارکان دفعہ 35اے کی حمایت کا اعلان کررہے تھے تو وہ اس مفروضے کو غلط ثابت کررہے تھے کہ ریاست کے تشخص اورانفرادیت کا جذبہ صرف کھنہ بل سے کھادن یار تک کے ایک سرپھرے طبقے تک محدود ہے ۔ان مفروضوں کو تاریخ کے کچھ حادثات نے تقویت بخشی تھی اور وہ کافی دیر تک ذہنوں اوردلوں پر چھائے بھی رہے لیکن وہ فطری جذبوں کو تبدیل نہیں کرسکے ۔سوچ میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن جذبے میں کوئی تضادنہیں ہے ۔عدالت عظمی ٰمیں دفعہ 35اے کیخلاف عرضیوں نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ یہ مفروضے پانی کے بلبلے ثابت ہوئے بلکہ ان کے ردعمل میں سیاسی و ذہنی بیداری کی زور دار لہر بھی اٹھی جس نے قومی دھارے اور مزاحمتی خیمے کے قطبین کے اہداف بدل دئیے اور سوچ کے دھارے ملادئیے ۔اٹوٹ انگ کا نعرہ کشمیر کی سرزمین پر بلند کرنے والے اب عارضی اور مشروط الحاق کے وکیل ہیں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے والے سپریم کورٹ میں آئین ہند کے تحت اسی عارضی اور مشروط الحاق کی دہائی دے رہے ہیںجسے وہ یکسر طو رپر مسترد کررہے تھے ۔اب بھی سوچ کے دھارے الگ ہیں لیکن اس کے باوجود وقت کے جبر نے قربت اور مفاہمت کے راستے پیدا کئے ہیں ۔بالکل اس طرح کہ جس طرح کوئی آفت نازل ہونے پر سارے امتیاز اور سارے اختلاف مٹ جاتے ہیں اور صرف آفت کا مقابلہ کرنے کا جذبہ موجود رہتا ہے ۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب اس طرح کی کوئی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ایک متحدہ قومی سوچ جنم لیتی ہے جو قوموں کی تقدیربھی بدل دیتی ہے ۔
27اگست کو کیا ہوتا ہے یہ کوئی نہیں جانتا ۔ کوئی اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتا۔ وہ عرضی جو دفعہ 35اے کا خاتمہ کرنے کے لئے داخل کی گئی ہے ،خارج بھی ہوسکتی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سروں پر لٹکتی ہوئی یہ تلوار ٹوٹ سکتی ہے لیکن فیصلہ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے ۔ایک امکان یہ بھی ہے کہ فیصلے کو کافی عرصے تک ٹال دیا جائے گا ۔تینوں امکانات موجود ہیں اور ان میں بی جے پی کا مستقبلبھی دائو پر لگا ہوا ہے ۔ ملک کے آئین کی آبرو بھی دائو پر ہے ۔ اور ریاست جموں و کشمیر کی تقدیر بھی ۔بھارتیہ جنتا پارٹی کا پہلا اور آخری ارمان یہی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے ملک کی دوسری ریاستوں کی طرح وفاق میں ضم کیا جائے ۔یہ آر ایس ایس کے ہندوتوا نظرئیے کا بنیادی ایجنڈا ہے اورجس وقت انتخابات نزدیک تر آرہے ہیں ،اس ایجنڈے کو پورا کرنے کیلئے وہ اپنا سب کچھ دائو پر لگانے سے دریغ نہیں کریں گے ۔یہ مسئلہ انہی کی حکومت میں انہی کا اٹھایا ہوا ہے ۔ اس سے پہلے اس کا کہیں کوئی ذکر بھی کہیں نہیں تھا۔انہوں نے کچھ سوچ کر ہی ایسا کیا ہے ۔ ان کا منصوبہ کیا ہے اوراسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کیا نقشہ تیار کیا گیا ہے، اعلیٰ سطح کی قیادت کو ہی اس کا علم ہوگا ،تاہم ایک بڑی بات یہ ہوئی ہے کہ اب تک کبھی بھی کانگریس سمیت اپوزیشن کی کسی جماعت نے کھل کر اتنے زور دار طریقے سے ریاست کی خصوصی حیثیت کی وکالت اور حمایت نہیں کی تھی جتنی کہ آج کی جارہی ہے ۔
آج اپوزیشن کے صف اول کے رہنما کھل کر عارضی اور مشروط الحاق کی اس دستاویز کا حوالہ دے رہے ہیں جو ریاست کے اُس وقت کے حکمراں مہاراجہ ہری سنگھ اور حکومت ہند کے درمیان طے پائی تھی ۔اس پر مہاراجہ ہری سنگھ کے علاوہ اُس وقت کے گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن کے بھی دستخط ہیں ۔سی پی آئی ایم نے بھی سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کردی ہے جس میں ریاست کی خصوصی حیثیت کی قانونی موشگافیوں کی وضاحت کرتے ہوئے دفعہ 35اے اور 370کے تحفظ کی بات کی گئی ہے ۔بنگال کی وزیر اعلیٰ بھی اس دفعہ کے حق میں اٹھ کھڑی ہوئی ہے ۔اس تناظر میں اگر یہ دیکھا جائے تو یہ بات صاف ہوگی کہ دفعہ 35اے کیخلاف ایک مخصوص سوچ کی یلغار نے جہاں ہندوستان میں نئی سیاسی تبدیلیوں کا ایک راستہ کھول دیا ہے وہیں پر کشمیر کے مسئلے سے متعلق ملک میں ایک نئی بیداری بھی پیدا ہوئی ہے۔ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کیا ہے اور کیوں ہے ؟ ان سوالوں کا جواب تاریخ کے صفوں میں موجود ہے لیکن اس تاریخ سے ہندوستان کی وہ نسل ناواقف ہے جس کی اس وقت آبادی میں اکثریت ہے ۔حالیہ واقعات نے اس کی جانکاری حاصل کرنے کی دلچسپی پیدا کی ہے او ر جو بھی اس کی جانکاری حاصل کرتا ہے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خصوصی حیثیت کو ریاست کا جائز حق تسلیم کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔اس طرح اس حق کا احترام ہی قوم پرستانہ سوچ کی جگہ لیتا ہے جو اب تک اس حق کو جبری طورپر سلب کرنے کا بیانیہ بنایا گیا تھا ۔
مجموعی طور پر ہندوستان کے اندر بھی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور ریاست جموں و کشمیر کے اندر بھی اور یہ تبدیلیاں بڑی گہری اور دور رس نتائج کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ کئی تنازعات کے مستقل حل کا باعث بھی بن سکتی ہیں ۔ایک طرف جہاں ہندوستان اور ریاست جموں و کشمیر میں جہاں تبدیلیوں کا ایک عمل جاری ہے وہیں پر پاکستان میں بھی ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے ۔تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد عمران خان کا وزیر اعظم بن جانا طے ہے ۔ان کے متعلق ہندوستان اور پاکستان کے میڈیا کی اب تک جورائے تھی وہ تبدیل ہورہی ہے ۔پوری دنیا میں ان کی کامیابی کا خیر مقدم بھی ہورہا ہے اور ان کے ساتھ کئی امیدیں بھی وابستہ کی جارہی ہیں ۔ جنوبی ایشیاء میں ٹکرائو کی سیاست میں تبدیلی کیلئے ان سے اہم کردار کی توقع کی جارہی ہے ۔تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ تبدیلی اب پاکستان کے فیصلہ ساز اداروں کی بھی ضرورت اور خواہش بن چکی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ عمران خان کی تائید و حمایت میں پیش پیش ہیں ۔عمران کی انتخابی جیت کے بعد پہلی تقریر کی جو منفی تاویلیں کررہے ہیں ،وہ اب ان کے لب و لہجے اور احتیاط کی زبان کی بنیاد پر اپنی رائے تبدیل کررہے ہیں ۔عمران پاکستان کو بدلنا چاہتے ہیں اور ان کے بدلائو کی یہ خواہش اور کوشش مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر کا حل ہی پاکستان کیلئے بدلائو کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
یہ پوری صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ برصغیر تبدیلی کے ایک دور سے گزر رہا ہے ،گو کہ اس تبدیلی کی منزل ابھی متعین نہیں ہے اور ابھی یہ کہنامشکل ہے کہ ہندوستان میں تبدیلی اُس تبدیلی کے خلاف تبدیلی ہوگی جو 2014ء میں مودی لہرکے نتیجے میںپیدا ہوئی تھی یا اس تبدیلی کو نتیجہ خیز ثابت ہونے سے پہلے ہی کسی اور لہر میں لپیٹ کر فنا کردیا جائے گا ۔یہ بھی صاف نہیں کہ ریاست جموں و کشمیر میں تبدیلیاں کوئی ٹھوس شکل اختیار کریں گی یا پہلے کی طرح ہوا میں تحلیل ہوجائیں گی اور پاکستان میں واقعی تبدیلی آتی ہے یا نہیں اور اگر آتی ہے تو کس طرح کی ۔آثار و قرائن کچھ مثبت امیدوں کی شمعیں روشن کررہے ہیں، اس لئے انتظار کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ بہت کم عرصے میں سارے پردے کھل جائیں گے اور ایک واضح تصویر سامنے آجائے گی ۔
( بشکریہ ہفت روزہ نوائے جہلم سرینگر)