ترنم ریاض کی ابابیلیں اب نہیں لوٹیں گی

اردو فکشن کی دنیا کا اہم نام خصوصا خواتین قلمکاروں میں ترنم ریاض کا نام سر فہرست ہے ساتھ ہی ان کا شمار اردو کی ممتاز ہر دل عزیز شاعرات میں بھی ہوتا ہیں ۔لیکن افسوس وہ بہت جلد اس جہان فانی کو الواداع کہہ گئی …….بھلے وہ جسم سے نہ ہو لیکن ان کی آواز ،ان کے کلمات ،ان کے خیالات ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے ۔ ترنم ریاض اردوکے ساتھ ساتھ ہندی ،انگریزی اور کشمیری زبان پر بھی دسترس رکھتی تھی۔انھوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی طبع آزمائی کی اور کامیاب تصانیف اردو کے خزانے میں جمع کیا ۔ان کی نظموں میں تانیثیت کی گونج با بانگ دہل سنائی دیتی ہیں۔انھوں نے عورت سے متعلق بے شمار موضوعات کو قلمبند کیا۔ان کی غزل کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
روح سے ٹپکے لہو آنکھ سے پانی برسے 
میں نے سوچا ہی نہ تھا جاتے ہیں بچے گھر سے 
سانجھ کے سایوں کو دیکھا کروں برآمدے سے 
اور آتی رہے بچوں کی صدا اندر سے….
’’پرانی کتابوں کی خوشبو‘‘ان کا اکلوتا شعری مجموعہ ہے۔ مجموعے کے فلیپ پر بلراج کومل کی یہ رائے درج ہے:
’’ترنم ریاض کی شعری کائنات مناظر فطرت سے لے کر انسانی مسائل اور انسانی رشتوں کی گوناگوں کیفیات کی فنکارانہ تجیسم سے وابستہ ہے لیکن اس عمل میں نہ تو وہ موضوعات کی میزان سازی کرتی ہیں اور نہ ہی کوئی اشتہاری اعلان نامہ تیار کرتی ہیں ان کی نظمیں اپنے متنوع دائرائہ کار میں انسانی ردِعمل کی انتہائی نرم و نازک مثال ہیں۔‘‘ 
 ترنم ریاض کی شاعری اپنے منفرد لب و لہجے کے سبب اپنا منفرد مقام رکھتی ہے ۔وہ سوچتے ہُوئے ذہن کے مقصدِ ابلاغ سے آشنا کراتی ہے۔جس سے قدم قدم پر فِکر و نظر کی شمعیں فروزاں نظر آتی ہے۔ وہ دروں بینی سے کام لیتے ہُوئے زِندگی کی حقیقتوں اور عصری مسائِل کو سمجھنے میںغور و فِکر سے کام لیتی ہے اور فِکر و آگہی کی ہدایتیں نقطۂ نگاہ کو جامعیت عطا کرتی ہے۔نازُک بیانی کو سادہ طریقہ سے اپنی شاعری میں بیان کرتی ہے ۔اردو کے ساتھ ہندی لفظوں کے استعمال سے ان کی شاعری کا حسن اور بھی دوبالا ہو جاتا ہے اور یہ رنگ ان کی تمام شاعری کا خاصہ ہے پھر وہ نظم ہو یا غزل ۔۔بہترین لفظوں کو بہترین ترتیب کے ساتھ اپنی شاعری کو ایک مالا میں اس طرح گوندھا ہے کہ قاری بنا رکے پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔زبان صاف ستھری اور سہل استعمال کرتی ہے۔خیال ،فکر ،اور پیغام بالکل عیاں ہوتے ہے ۔ اس طرح انھوں نے نثر کی طرح شاعری میں بھی اپنام علٰحیدہ مقام پیدا کیا ۔وہ عہد حاضر کی ممتازشاعرات میں شامل تھیںجنھوں نے عورتوں کے درد و کرب کو اپنی نثر کی طرح شاعری میں بھی پیش کیا ،اور عورتوں کے مسائل کو اپنی شاعری میں مخصوص جگہ دی ۔بلاشبہ ترنم ریاض ایک متحرک وفعال تخلیق کار تھی جو دن رات ادب کی خدمت کے لیے سر گرم رعمل رہتی تھی۔ان کی نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
یہ کس نے بوئی ہیں چنگاریاں تیری زمینوں میں
یہ کس نے آگ سی سلگائی ہے معصوم سینوں میں 
کوئی ویران موسم آبسا بارہ مہینوں میں
کہ جیسے ہوں نہ تاثیر یں ہی اب جھکتی جبینوں میں
کسی نے باغبان بن کر جلایا مرغ زاروں کو
کسی نے سائبان بن کر اجاڑا ہے بہاروں کو
خزان نے دیکھ ڈالا گھر تیرے سب لالہ زاروں کا
نشاط و چشمہ شاہی، ڈل، ولر کا شالماروں کا 
غرض ترنم ریاض نے نظم اور غزل کے امکانات کا وسیع راستہ آنے والے شعرا ٔکے سامنے کھول دیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی آواز دور سے پہچانی جاتی ہے۔یہ ایک شعری کردار کی آواز ہے جو حساس‘دردمند اور مخلص شخصیت رکھتی ہے۔ترنم ریاض کے پاس مامتا کا تخلیقی تجربہ ہے جو ٹوٹے ہوئے گھروں،بکھرے ہوئے رشتوں یا سعادت پسند والدین کی عادتوں کے ملبے پر بیٹھے ہوئے بچوں کے دکھوں کو ریزہ ریزہ چننے کی آرزو سے منسلک ہے۔ ترنم ریاض کے بہت سارے ایسے افسانے بچوں پر لکھے گئے ہیں جن پر جسمانی یا ذہنی تشدد ہوا اور اُن سے اُن کے بچپن کی معصومیت کو چھیننے کی کوشش کی گئی۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو ہر عمر کے لوگوں کس احساس تھا،وہ ہر کسی کا درد سمجھتی تھی ان کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
میں درد جاگتی ہوں زخم زخم سوتی ہوں 
نہنگ جس کو نگل جائے ایسا موتی ہوں 
وہ میری فکر کے روزن پہ کیل جڑتا ہے
میں آگہی کے تجس کو خون روتی ہوں
ترنم ریاض ریاست کی ایک واحدفکشن نگار خاتون تھی جنہوں نے اپنے فن کی بنا پر ریاست سے باہر یعنی بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوالیا۔برقی میڈیا سے وابستہ ہونے کے باوجود انہوں نے اردو ادب کو خاص طور پر فکشن کو اپنی نگارشات کی بدولت ایک جہت عطا کی اورریاست کے جن فنکاروں کو اردو ادب میں ایک پہچان ہے ان میں ترنم ریاض کا نام بھی شامل ہیں۔انہوں نے اپنی تخلیقی کائنات سے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کیا اور جلد ہی اردو کے ممتاز افسانہ اور ناول نگاروں میں شمار ہونے لگاان کے چار افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔ان کے افسانوی مجموعوں میں (۱) یہ تنگ زمین (۲)ابابیلیں لوٹ آئیں گی (۳)یمبرزل (۴)میرا رخت سفر شامل ہیں ۔ان مجموعوں کے افسانوں میں ترنم ریاض کی تخلیقی صداقت اور تہہ داری کی بازیابی کی دعوت دیتے ہیں ۔وہ روایت سے ہٹ کر افسانے لکھتی تھی جو قاری کو اپنی جانب مبذول کرتی ہے ۔ان کے افسانوں میں زندگی کے گو نا گو ں مسائل و واردات کی تخیلی بازیافت ملتی ہے ۔مثال کے طور پر ان کا افسانہ ’’شہر ‘‘ جس میں معنوی امکانات کی توسیع دیکھا جا سکتا ہے ۔اس میں شہر کی زندگی کے مسائل مثلا رہائش ،اجنبیت ،نوکری ،بچوں کی ماں کی بے نام موت اور ان کے متقابل انسانی رشتوں کی پاکیزگی ،معصومیت ،ممتا ،شہر کی جد و جہدوغیرہ کو درشایا گیا ہے ۔ان کے افسانوں میں کئی تہہ ہوتی ہے جو قاری کو سمجھنے اور غور فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے ۔ان کے افسانوں کی خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ نسائیت کو ایک سوچے سمجھے موضوع یا طے کردہ نظریے کے تحت پیش نہیں کرتی جیسا کہ عموما دیگر افسانہ نگار کرتے ہیں ۔فیض احمد فیض نے ایک مرتبہ خدیجہ مستور کے سلسلے میں لکھا تھا کہ خدیجہ مصوری کم کرتی ہیں اور کشیدہ کاری زیادہ ۔یہ جملہ ترنم ریاض کے افسانوں پر بھی صادق آتا ہے ۔بس فرق اتنا ہے کہ ترنم ریاض کشیدہ کاری کرتے ہوئے مصوری کا رخ کرتی ہے ۔ان کے افسانو ں کے کردار خود آگاہ ،باشعور اور دردمند شخصیت کا پتہ دیتی ہے اس ضمن میں ان کے افسانے ’ بابل ،بی بی اماں ،بالکنی ،شہر ،برف گرنے والی ہے ،کشتی ،رنگ ،میرا رخت سفر ،آنسو جیسے افسانے پیش کیے جا سکتے ہیں ۔تانیثی لحاظ سے ان کا افسانہ ’’بابل ‘‘ اہم ہے جس میں ایک نئی نویلی دلہن کی جسمانی خوبصورتی اور اس کے بابل چھورنے کے غم اور درد کی مصوری کی گئی ہے ۔اسی طرح ’مزید بر آں ‘ میں ریلوے اسٹیشن پر لڑکی کے والدین ادھر لڑکے کے رشتہ داروں کا عارضی قیام علامتی معنویت کا حامل دکھایا گیا ہے ۔ایک لڑکی کی زندگی ،گھر ،والدین ،بھائی بہن چھوٹی طھوٹی خوشیاں سب کچھ ریل کی پٹری کی طرح پل بھر میں چھوٹ جاتا ہے اور شادی کے بعد انجان لوگ ریل کی طرح پل بھر میں نامعلوم سفر کی طرف لے کر چل دیتے ہیں ۔افسانے کا ابتدائی جملہ ’’نازک سی لڑکی کی آنکھوں میں لبا لب آنسو بھر آئے تھے ۔‘‘اس طرح کے بے شمار جذبات ان کے افسانوں میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔وارث علوی اپنے ایک مضمون میں یوں تحریر فرماتے ہیں:
’’ترنم ریاض کے افسانوں کو پڑھ کر پہلا احساس یہی ہوا کہ وہ ایک غیر معمولی صلاحیت کی افسانہ نگارہیں لیکن کوئی ناقد یہ شناخت قائم کرتا نظر نہیں آ تا۔ایسا لگتا ہے کہ نقاد کے دل میں ایک خوف سا ہے کہ اگر انہوں نے اس خاتون کو دوسروں سے الگ کیا یا بہتر بتایا تو دوسرے ناراض ہوجائیں گے اسی لئے عافیت اسی میں ہے کہ انہیں ساتھ ساتھ ہی چلنے دو یعنی فہرستی ریوڑسے الگ نہ کردو۔ اس رویے سے دوسرے افسانہ نگاروں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن ترنم ریاض کا نقصان ہوجاتا ہے ان کی انفرادیت قائم نہیں ہوپاتی۔‘‘(گنجفہ بازِخیال وارث علوی ص۱۲۱)
ترنم ریاض کی تحریروں کے سلسلے میں پروفیسر انور پاشاایک مقام پر لکھتے ہیں۔’’ترنم ریاض کی تحریریں ایک انفرادی شناخت رکھتی ہیں ان کی فکشن ہو یا ان کی شعری تخلیقات عصری معاشرے کے جیتے جاگتے مسائل کی ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ بالخصوص تانیثت کے حوالے سے قارئین پر ایک مثبت اثر رکھتی ہیں۔‘‘
برصغیر کے اقلیتی طبقوں کے مسائل اور سماجی و انسانی سروکاروں کی انھوں نے اپنی تحریروں میں بھرپور ترجمانی کی۔ وہ موجودہ عہد کی گھٹن، صارفیت اور سیاسی ظلم و زیادتی کے خلاف مسلسل احتجاج کرتی رہیں خصوصا خواتین کے مسائل ان کی نفسیات کی ترجمانی کرتی رہیں۔ ان کا فکشن اردو تک محدود نہیں ہے بلکہ ہندی اور دوسری زبانوں کے رسائل و جرائد میں بھی ان کی تخلیقات شائع ہوتی رہی ہیں۔ وہ اس عہد کے ان فن کاروں میں سے تھیں جن کا تخلیقی کینوس وسیع و ہمہ رنگ تھا۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کئی ادبی اداروں نے انھیں مختلف اعزازات سے بھی نوازا۔ ان کی وفات سے ادبی حلقوں میں شدید رنج و غم کا ماحول برپا ہوگیا ہے۔ان کا جانا یقینا اردو فکشن کے لئے بہت بڑا نقصان ہے ۔وہ بہت سارے موضوعات پر لگاتار لکھ رہی تھیں ۔ان کی اچانک موت نے ان کی قلم پر پاور بریک لگا دیا ۔لیکن جو کچھ وہ لکھ گئی اردو کی خدمات انجام دے گئی وہ اردو ادب کبھی فراموش نہیں کر سکتا ۔یقینا اردو فکشن کی تاریخ ان کے نام کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔