جموںوکشمیر انتظامیہ کی جانب سے کورونا کی عالم گیر وبا ء کے بیچ ہی آئے روز محکمہ اطلاعات کے ذریعے ایسی تصاویر اور بیانات جاری کئے جارہے ہیں جن میں دعویٰ کیا جارہاہے کہ اس سنگین صورتحال کے باوجود ترقیاتی عمل جاری ہے اور نہ صرف محکمہ دیہی ترقی کے ذریعے دیہی علاقوں میں منریگا اور دیگر سکیموں کے تحت کام شروع کئے جاچکے ہیں بلکہ تعمیرات عامہ اور دیگر منسلک محکموںکی جانب سے بھی ترقیاتی پروجیکٹوں پر کام شروع کئے گئے ہیں۔گوکہ حکومتی دعوئوں کو مسترد نہیں کیاجاسکتا ہے اور غالب امکان ہے کہ کام شروع ہوچکے ہوں تاہم زمینی سطح پر جو صورتحال بنی ہوئی ہے ،وہ مسلسل مایوس کن ہی ہے ۔کورونا کی آڑ میں مسلسل دوسرے تعمیراتی سیزن میں بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا رجحان جاری ہے ۔گزشتہ برس بھی سیاسی لاک ڈائون کی وجہ سے وہ سیزن مکمل طور پر ضائع ہوگیا جب کشمیر اور جموںصوبہ کے پیر پنچال اور چناب خطوں میںکام ہوتے ہیں۔چونکہ کشمیر اور جموں صوبہ کے ان دو خطوں میں سرما انتہائی کٹھن رہتا ہے اور درجہ حرارت نقطہ انجماد کے نیچے چلا جاتا ہے جبکہ جم کر برف باری بھی ہوتی ہے تو سرما کے کم از کم چھ ماہ کوئی بھی تعمیری کام ممکن نہیں ہوپاتا ہے ۔لے د ے کے ان خطوں میں گرما کے محض چندماہ ہی بچتے ہیں جن میں ترقیاتی کام کئے جاسکتے ہیں تاہم اب یہ معمول بن چکا ہے کہ کشمیرمیں کسی نہ کسی وجہ سے یہ محدود تعمیراتی سیزن اکثر و بیشتر ضائع ہوجاتا ہے ۔
گزشتہ برس اگست سے دسمبرتک چلنے والے لاک ڈائون کی وجہ سے زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی تھی اور یوں کوئی بھی کام نہ ہوسکاتھا ۔امسال اب امید کی جارہی تھی کہ کسی حد تک سال رفتہ کے نقصان کی بھرپائی کی جائے گی لیکن ابھی بہار شروع ہی ہورہی تھی کہ کورونا کی صورت میں ایک نئی آفت نے ہمیں گھیر لیا جس کے نتیجہ میں پھر زندگی کا پہیہ جام ہو کر رہ گیا اور اب مارچ سے یہی سلسلہ چل رہا ہے ۔اس بار طبی لاک ڈائون کی وجہ سے پھر ترقیاتی سرگرمیاں ٹھپ ہیں اور کہیں بھی کسی بڑے پروجیکٹ پر کام نہیں ہورہا ہے ۔حدتو یہ ہے کہ ہماری سڑکوںکی مرمت نہیں کی جارہی ہے اور نہ ہی میکڈمائزیشن کا عمل دردست لیاجارہا ہے حالانکہ سڑکوں پر میکڈم بچھانے کا سب سے موزون ترین سیزن تو یہی ہے ،ساتھ ہی جس طرح سڑکیں سنسان تھیں ،تو ایسے میں تار کول بچھانا آسان ہی نہیں تھا بلکہ اس عمل کو بنا کسی رکاوٹ کے تیز ی کے ساتھ مکمل بھی کیاجاتا لیکن چونکہ یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے تو اس بار بھی صرف کاغذی گھوڑے ہی دوڑائے جارہے ہیں ۔آج نہ صرف کشمیر بلکہ جموں صوبہ کے بیشتر علاقوں میں سڑکوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہوچکی ہے ۔بجلی کا نظام درہم برہم ہے ۔آب رسانی ،جسے اب جل شکتی محکمہ کہتے ہیں ،کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں ہے ۔یوں لے دے کے غریب لوگ ہی ہیں جو اس حکومتی تساہل کا سب سے زیادہ شکار ہورہے ہیں۔اب جبکہ حکومت مرحلہ وار بنیادوںپر لاک ڈائون سے تقریباً نکل چکی ہے اور اب تقریباً سبھی اضلاع میں کافی حد تک معمولات بحال کئے جاچکے ہیں تو ارباب اختیار کے پاس کوئی جواز نہیں بنتا ہے کہ وہ تعمیراتی سیزن ختم ہونے کا انتظار کریں اور پھر جب سیزن ختم ہوگا تو اس کو حالات سے جوڑ کر پتلی گلی سے نکل جانے کی کوشش کریں ۔انتظامی مشینری کو سمجھ لینا چاہئے کہ اب کل ملا کر دو ایک ماہ ہی بچ چکے ہیں جن میں کچھ کام ہوسکتا ہے اور اب اس کے بعد سرما کا ایک طویل سفر شروع ہوگا جس میں پھر کوئی کام نہیں ہوسکتا ہے ۔جموںوکشمیر کے دیہی و شہری اضلاع اس حکومتی تساہل کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ ہم پہلے ہی ترقی کی رفتار میں کافی پیچھے رہ چکے ہیں ۔مزید تاخیر تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔مرکزی حکومت کہتی ہے کہ پیسوں کی کوئی قلت نہیں ہے اور جس طرح کے بیانات آئے روز سامنے آرہے ہیں،اُن سے بھی یہی لگتا ہے کہ واقعی پیسہ کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔
اب تو خود انحصار بھار ت سکیم کے تحت بھی پروجیکٹوں کو حتمی شکل دی جارہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پیسے کی فراوانی ہے ۔اگر مرکز واقعی مائل بہ کرم ہے تو ایسا نہ ہو کہ یہاں کوئی سائل ہی نہ ہو۔وقت کی پکار ہے کہ انتظامیہ کورونا کی آڑ لینے کی بجائے کمر بستہ ہوجائے او راُن ترقیاتی پروجیکٹوں کو فاسٹ ٹریک بنیادوںپر مکمل کرنے کے جتن کرے جن کیلئے یہی سال تکمیل کا ہدف مقرر کیاگیاتھا۔اس طرح یقینی طور پران پروجیکٹوں کے فوائد زمینی سطح پر عوام کو منتقل ہونگے اور جب عوام کی حالت بہتر ہوجائے گی تو خود بخود خوشحالی کا اشاریہ بھی بہتر ہوجائے گا۔