حیدرآباد// تر جمہ کا فن تخلیق کے فن سے کم نازک اور دشوار نہیں۔ تخلیق کے لیے ایک زبان پر دسترس کافی ہے۔مگر تر جمہ کے لیے دونوں زبانوں پر کامل قدرت اور عبور از حد ضروری ہے۔ متر جم کی گرفت اگر دو نوں زبانوں پر نہ ہو تو وہ تر جمہ کا فرضِ منصبی ادا نہیں کر سکتا۔اور یہ عبور و دسترس صرف اور صرف کثرتِ مطا لعہ، علم کے حصول میں جاںفشا نی اوراس میں لگن سے ہی حا صل ہو سکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر ایم اے سکندر، رجسٹرار، مو لانا آزاد نیشنل اردو یو نیورسٹی نے شعبہ عر بی کی جا نب سے منعقدہ دو روزہ صحا فتی تر جمہ کے ورکشاپ کے افتتاحی اجلاس سے کیا۔اس ورکشاپ کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔اس کے بعدڈاکٹر محمد عبد العلیم نے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر محمد علی علی الخلیدی استاد ابّ یو نیورسٹی، یمن، کا تعا رف پیش کیا۔صدر شعبہ عربی ڈاکٹر سید علیم اشرف جا ئسی نے ا پنے خطاب میں ترجمہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوے طلبہ اور ریسرچ اسکالرس کو اس زرّین مو قع سے بھر پور استفادہ کی تلقین کی اور کلماتِ تشکر بھی ادا کیا۔
اس دو روزہ ورکشاپ میں ڈاکٹر محمدعلی علی الخلیدی نے صحافتی تر جمہ کے نظریاتی اور عملی دونوں پہلو?ں کا احا طہ کیا اور صحافت میں استعمال ہو نے والے مختلف اسا لیب ،طرزِ ادا،اور رائج الوقت مصطلحات پر شر کاء سے عملی مشق کروائی۔ اخبارات میں استعمال ہو نے والی سرخیوں ،تفصیلی خبروں، اور اداریہ کے تر جمہ پر طلبہ کی تر بیت کی۔ مجموعی طور پر یہ دوروزہ ورکشاپ طلبہ اور شر کاء کے حق میں بے حد مفید اور کار آمد رہا۔ اس ورکشاپ میں شعبہ عربی کے اسا تذہ اور طلبہ کے علاوہ دیگر شعبہ جات کے طلبہ نے بھی شرکت کی۔ اس دو روزہ ورکشاپ کے کو آرڈنیٹر ڈاکٹر محمد طلحہ فر حان،اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ¿ عربی تھے۔